پاکستان معیشت کی ترقی نئے راستے تلاش کیے بغیر ممکن نہیں ۔ محمد علی سدپارہ کی گمشدگی کے بعد پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبے کو جو عزت نصیب ہو رہی ہے وہ آج سے قبل نہیں ہو سکی۔ ایک طرف ہم نے قومی ہیرو کھویا ہے لیکن دوسری طرف ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے نئے راستے کھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کوہ پیمائی ایسا شعبہ ہے جس سے سالانہ کروڑوں ڈالر بآسانی کمائے جا سکتے ہیں۔ نیپال کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ جس کی معیشت کا سب سے بڑا انحصار کوہ پیمائی کی آمدن پر ہے ۔ کوہ پیمائی دنیا کا مہنگا ترین شوق ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں عام لوگ ساری زندگی ڈالرز جمع کرتے ہیں تا کہ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں پر ایک مرتبہ ضرور جا سکیں۔ اگر کے ٹو کی بات کی جائے تو ٹور آپریٹرز ایک شخص کو کے ٹو سر کرنے کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تقریباً اسی ہزار ڈالر چارج کرتے ہیں جو کہ پاکستانی ایک کروڑ پچیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔ یہ صرف سہولیات فراہم کرنے کی فیس ہے ۔ کے ٹو سر ہو یا نہ ہو یہ فیس ادا کرنا پڑتی ہے ۔ اگر آپ کسی بھی وجہ سے ناکام لوٹ گئے ہیں تو اسی ہزار ڈالرز ضائع ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام شرائط معاہدے میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان تقریباً پندرہ ہزار ڈالرز سکیورٹی وصول کرتی ہے تا کہ کسی حادثے کی صورت میں سرچ آپریشن پر خرچ کی جا سکے ۔ یہ سکیورٹی حادثہ نہ ہونے کی صورت میں قابلِ واپسی ہوتی ہے ۔
اب آپ خود حساب لگا لیں کہ اگر سالانہ ایک ہزار لوگ پوری دنیا سے کے ٹو سر کرنے پاکستان آئیں تو تقریباً ساڑھے بارہ ارب روپے صرف ٹور آپریٹرز کو حاصل ہو سکیں گے اور حکومت کو ٹیکسز کی مد میں جو آمدن ہو گی وہ علیحدہ ہے ۔ اگر کوئی کوہ پیما پہاڑوں کی ویڈیوز بنانا چاہتا ہے تو حکومت سے اجازت لینا لازمی ہوتی ہے ۔ جس کی فیس ہزاروں ڈالر چارج کی جاتی ہے ۔ نیپال میں اگر آپ ڈرون استعمال کر کے ماونٹ ایورسٹ کی ویڈیوز بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے باقاعدہ حکومتی اجازت لینا پڑتی ہے ‘ ہزاروں ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں اور کم از کم پندرہ دن صرف منظوری کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کوہ پیما حکومتی فیس ادا کیے بغیر ویڈیوز بناتا پکڑا جائے تو نہ صرف لاکھوں ڈالرز کے ڈرون ضبط ہو جاتے ہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک جرمانہ بھی کیا جاتا ہے ۔ نیپال کی مثال اس لیے دی جارہی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بلند پہاڑ نیپال میں ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ دنیا کی سب سے بڑی چوٹی بھی نیپال میں ہے جسے سر کرنا کوہ پیماؤں کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے ۔ دنیا میں چودہ پہاڑ ایسے ہیں جن کی اونچائی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ ہے ‘ ان میں سے سات نیپال میں‘ پانچ پاکستان میں اور دو چین میں ہیں۔ اپنے قارئین کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ آٹھ ہزار میٹر والی چودہ چوٹیاں سر کرنا کوہ پیماؤں کی زندگی کا ٹارگٹ ہوتا ہے اور جو شخص یہ اعزاز حاصل کر لیتا ہے پوری دنیا میں اس پر ڈالروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے ۔
اس سال16 جنوری کو نیپالی کوہ پیما نرمل پوراج نے کے ٹو سر کر کے چودہ پہاڑوں کو سر کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے ۔ اس نے یہ ریکارڈ چھ ماہ اور چھ دن میں اپنے نام کیا ہے ۔ اس اعزاز کے بعد اس نے کے ٹو کو صاف کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے جس کے لیے عوام سے ڈالرز ڈونیٹ کرنے کی اپیل کی ہے اور صرف ایک دن میں ہزاروں ڈالر اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئے ۔ صرف ایک ملک سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے لوگ اسے ڈالرز دے رہے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ کے ٹو پاکستان میں ہے اور صرف اس کی صفائی کے نام پر ڈالرز غیر ملکی کما رہے ہیں۔ کیا یہ قدم سب سے پہلے پاکستانی حکومت کو نہیں اُٹھانا چاہیے تھا؟ کیا کسی پاکستانی کوہ پیما کو سپورٹ کرکے دنیا سے ڈالرز اکٹھے نہیں کیے جا سکتے تھے ؟ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے نرمل پورجا سے پہلے یہ اعلان کیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے مناسب سپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے یہ پروگرام نیپالیوں نے ہائی جیک کر لیا ۔ محمد علی سدپارہ بھی اپنے انٹرویوز میں یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ الپائن کلب آف پاکستان کی جانب سے کوہ پیماؤں کو کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔ وہ پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے جو لباس پہنتے ہیں وہ بھی بیرون ملک سے آئے کوہ پیماؤں سے درخواست کر کے لیے جاتے ہیں۔
حکومت ایک طرف سیاحت کے فروغ کے لیے بہترین اقدامات کرنے کی دعویدار ہے لیکن دوسری طرف کروڑوں ڈالرز کمانے والا پروجیکٹ نظر انداز کئے جا رہے ہیں ۔ کے ٹو اور نانگا پربت دنیا کے مشکل ترین پہاڑ ہیں‘انہیں قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے ۔ پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ نے یہ پہاڑ سر کے دنیا میں نیا ریکارڈ بنایا تھا لیکن آخری لمحے تک اسے حکومت نے سپورٹ نہیں کیا۔ وہ پورٹر کے طور پر باہر سے آئے کوہ پیماؤں کا سامان اٹھانے کی حیثیت سے ان کے ساتھ جاتا تھا اور اس کے بدلے وہ چند ہزار ڈالرز اُسے دیتے تھے۔ علی سدپارہ کا بیٹا ساجد سدپارہ دنیا کا سب سے کم عمر کوہ پیما ہے جس نے صرف بیس سال کی عمر میں کے ٹو سر کیا ہے لیکن حکومت اس کی سپورٹ کے لیے بھی مناسب اقدامات کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ سب سے پہلے وہ کوہ پیمائی کو ایک صنعت کا درجہ دے ۔ اس کی علیحدہ وزارت قائم کی جائے اور پاکستان کے جو کوہ پیما کے ٹو سر کر چکے ہیں ان کی ایک کمیٹی بنا کر تجاویز مانگی جائیں کہ کس طرح اس شعبے سے پیسہ کمایا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک بات رہ گئی اکانومی ماڈل کی تو وہ نیپال سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ نیپالی حکومت نے سالہا سال کی محنت سے اسے انڈسڑی میں تبدیل کر دیا ہے اور ایسے اصول وضع کر دیے ہیں جن کی معترف پوری دنیا ہے ۔ اس کے علاوہ قومی ہیروز کو بین الاقومی ہیروز بنا کر پیش کیا جائے ۔ ساجد سدپارہ کی سربراہی میں بین الاقوامی کوہ پیماؤں کی کانفرنس پاکستان میں منعقد کی جائے جس میں دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کو مدعو کیا جائے ‘ انہیں کے ٹو ‘نانگا پربت‘ گیشر برم ون‘ گیشر برم ٹو اور براڈ پیک کے علاوہ دیگر پہاڑوں سے آگاہی دی جائے ۔ پاکستان میں سات ہزار‘ چار ہزار پانچ سو پچپن اور چھ ہزار میٹر اونچائی والے ایک سو آٹھ پہاڑ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ چار ہزار میٹر اونچائی والے ان گنت پہاڑ ہیں۔ ان میں سے اکثر پہاڑ اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ نیپال میں کوہ پیمائی بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان پہاڑوں کی ورجینیٹی قائم نہیں رہی لیکن پاکستانی پہاڑ ابھی تک ورجن ہیں۔ماہرین کے مطابق صرف آگاہی مہم چلانے سے پاکستان کوہ پیمائی کے شعبے سے سالانہ تین بلین ڈالر کما سکتا ہے ۔ اگر باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا جائے تو دس بلین ڈالرز سالانہ آمدن بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ کوہ پیمائی کو مالی سپورٹ کرنے والی کمرشل کمپنیوں کو بھی پاکستان مدعو کیا جائے کیونکہ اس شعبے میں آمدن کا بڑا حصہ انہی کے ذریعے آتا ہے ۔ کمپنیاں اپنی پراڈکٹ اور برانڈکی تشہیر کے لیے کوہ پیماؤں سے معاہدہ کرتی ہیں کہ وہ جب پہاڑ سر کریں تو اس کی اونچائی پر جا کر ہمارے برانڈ کے ساتھ تصاویر بنائیں اور ویڈیوز جاری کریں۔ پھر وہ ان تصاویر اور ویڈیوز کو اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان میں بہت سے ایسی کمپنیاں ہیں جو نیپالی کوہ پیماؤں کو ہائیر کر کے ان سے تشہیر کا کام لے رہی ہیں۔ اگر پاکستان سرکاری سطح پر اس میں دلچسپی دکھائے تو یہ معاہدے پاکستانی کوہ پیماؤں کے ساتھ بھی کیے جا سکتے ہیں جس کا فائدہ نہ صرف کوہ پیماؤں کو ہو گا بلکہ کمرشل کمپنیاں بھی نسبتاً کم پیسوں میں اپنا مقصد حاصل کر سکیں گی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اس شعبے میں سنجیدگی دکھائے تا کہ پاکستان خصوصی طور پر گلگت بلتستان میں معاشی انقلاب لایا جا سکے ۔