پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں پھوٹ پڑچکی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے‘ کتنی ہی وضاحتیں کرتا پھرے‘ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم جس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے معرضِ وجود میں لائی گئی تھی وہ اب بہت دور کی منزل دکھائی دیتا ہے۔
17 مارچ کو مولانا فضل الرحمن نے ایک تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 26 مارچ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد وہ میڈیا سے گفتگو کیے بغیر چلے گئے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو چند دن کی ''مہلت‘‘ دی گئی ہے۔ ہوا یوں کہ سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے حکومت مخالف مہم کے اگلے اور فیصلہ کن مرحلے یعنی لانگ مارچ میں شرکت کی شرط یہ رکھی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی وطن آکر تحریک میں عملاً حصہ لیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی سے استعفے دلوانے سے بھی انکار کیا۔ (ن )لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ایوان سے استعفے دینے پر راضی نہ ہوئی تو راہیں الگ ہوجائیں گی۔
نواز شریف کا شکوہ ہے کہ انہوں نے 1990ء کے عشرے کی سیاست کو دفنادیا تھا مگر پھر بھی الزام تراشی کی جارہی ہے۔ (ن) لیگ کے دیگر رہنما کہتے ہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور مریم نواز کے درمیان تلخ کلامی نہیں ہوئی جبکہ ذرائع بتاتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف نے ٹیلی فونک گفتگو میں آصف زرداری اور مریم نواز کی مبینہ تلخ کلامی پر بھی بات کی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے رہنما کہتے ہیں کہ اُن کی تحریک کا اصل مقصد حکومت کو پریشان رکھنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ایوان سے استعفوں کو بم کے طور پر استعمال کرنے کی بات کبھی نہیں کی گئی۔ اور یہ آخری یا حتمی آپشن بھی نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مولانا فضل الرحمن نے ''فیس سیونگ‘‘ کے طور پر کہا کہ کسی بھی اتحاد میں یا تحریک کے دوران اختلافات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مولانا خواہ کچھ کہیں‘ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ اختلافات کوئی دل بہلانے کا معاملہ نہیں‘ مفادات کی لڑائی کا شاخسانہ ہیں۔
سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پیپلز پارٹی اگر استعفے دینے پر راضی نہ بھی ہوئی تو متبادل حل ضرور پیش کرے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے معاملہ مرکزی مجلسِ عاملہ پر چھوڑ دیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک سوال پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کل کو پی ٹی آئی سے بھی اتحاد ہوسکتا ہے۔ انہوں نے (ن )لیگ کی مثال دی جس کی پیپلز پارٹی سے بالکل نہیں بنتی تھی۔ کائرہ صاحب کا کہا سر آنکھوں پر مگر دونوں جماعتوں میں بنتی تو اب بھی نہیں ہے۔ قوم نے دیکھ لیا کہ ملمّع ایک ہی رگڑ سے اُتر گیا۔
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیر بخاری کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے ساتھ استعفے دینے کا معاہدہ ہوا ہی نہیں تھا۔ جنابِ من! اگر واقعی ایسا ہے تو حکومت مخالف تحریک کے نام پر یہ سرکس کیا قوم کا دل بہلانے کیلئے ہے۔چودھری اعتزاز احسن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نکالنے کی صورت میں پی ڈی ایم اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گی۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ اگر پی ڈی ایم سے پی پی پی کو نہ نکالا گیا اور پاؤں بچ بھی گیا تو ایسے ناکارہ پاؤں کا کیا اچار ڈالنا ہے۔ قوم حیران ہے کہ ایک بار پھر حکومت مخالف تحریک کے نام پر آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام ہو رہا ہے۔ قوم کے پاس بھی حیران و پریشان رہنے کے سوا کون سا آپشن بچا ہے؟ جو رہنما بننے کے دعویدار ہیں وہ خود بھٹکے ہوئے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اپنی روش بدلنے پر آمادہ بھی نہیں۔ پی ٹی آئی کو وہی کاٹنا پڑ رہا ہے جو اُس نے بویا تھا۔ عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والی حکومت کی راہ میں احتجاج کے کانٹے بوئے تھے۔ کنٹینر لگاکر اسلام آباد کے حساس ترین علاقے بند کردیئے گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پانچ سال کی مدت کے دوران ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ مسلم لیگ (ن) کیا کرسکتی تھی اور کیا نہیں کرسکتی تھی اس بحث سے قطعِ نظر حقیقت یہ ہے کہ پانچ برس کی میعاد کے دوران اُسے کام کرنے ہی نہیں دیا گیا۔
پی ٹی آئی نے روزِ اوّل سے طے کرلیا تھا کہ مسلم لیگ( ن) کی حکومت کو چلنے نہیں دینا۔ اسلام آباد کے حساس ترین علاقوں کو یوں بند کیا گیا کہ حکومت کا ڈھنگ سے چل پانا ممکن نہ ہوسکا۔ ایک مرحلہ یہ بھی آیا کہ سکیورٹی کلیئرنس ممکن نہ ہو پانے کے باعث چین کے صدر شی جن پنگ کا اسلام آباد کا دورہ بھی منسوخ کرنا پڑا۔ آج عمران خان صاحب کے راستے میں کانٹے بچھائے جارہے ہیں تو اسے مکافاتِ عمل ہی کہا جائے گا۔ عمران خان صاحب بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں گے مگر کچھ خاص کرنے کی گنجائش دکھائی نہیں دے رہی۔ پی ڈی ایم کی شکل میں دس سیاسی جماعتیں ایک ہوگئی ہیں۔ یہ رونق میلہ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے دم سے ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ پی پی پی اور( ن) لیگ بھرپور قوت کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی مرحلے پر پیچھے نہ ہٹیں۔ پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئی ہے۔ کیوں؟ سمجھنے والے سمجھ رہے ہیں‘ نا سمجھے وہ اناڑی ہے! پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان چوہے بلی والا کھیل ہو رہا ہے۔ دونوں کو باری باری کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے۔ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ کبھی پیپلز پارٹی اپنی برتری ثابت کرتی ہے اور کبھی پی ٹی آئی۔ برتری کی جگہ ہم بلیک میلنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعض معاملات میں پیپلز پارٹی کی قیادت خود کو بلیک میل ہونے سے بچا نہیں پاتی۔ سندھ میں کرپشن بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔
سندھ میں 13 برس سے پیپلز پارٹی بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ اس دوران ایسا بہت کچھ کیا گیا ہے جس نے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے مگر پھر بھی صوبے کے لوگ پیپلز پارٹی ہی کو ووٹ دیتے ہیں تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ صوبے کی سیاست ہے ہی اس نوعیت کی کہ لوگوں کی نفسی ساخت سے کھلواڑ کی جاتی ہے اور اُنہیں مختلف حوالوں سے تحفظات میں مبتلا کرکے اپنی مرضی کی سمت ہانکا جاتا ہے۔ ڈھائی عشروں سے معاملہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ کے لوگوں کو ایم کیو ایم سے ڈراتی آئی ہے اور شہری سندھ میں ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کو پیپلز پارٹی کے غلبے سے ڈراکر ووٹ بینک مستحکم کرتی رہی ہے۔ اندرونِ سندھ اب بھی عمومی ذہنیت تبدیل نہیں ہوئی۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی ہی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اب بھی وہاں کوئی نہیں دیکھتا کہ جسے ووٹ دے رہا ہے اُس نے ڈھائی تین عشروں کے دوران کیا دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے باہمی تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں کس حد تک دھول جھونک رہی ہیں اس سے عام آدمی کو کچھ غرض نہیں۔ وہ بے چارہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ ایک بار پھر سیاسی کھیل اس طور جاری ہے کہ صرف کھلاڑیوں کو لطف محسوس ہو رہا ہے‘ قوم بے چاری محض تماشائی ہے اور وہ بھی دُکھے ہوئے دل کے ساتھ۔ اہلِ وطن جنہیں قومی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے تگ و دَو کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات سے بلند نہیں ہو رہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں ؎
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ کُشتۂ تیغِ ستم نکلے!
اہلِ سیاست کے آپس کے معاملات کیا ہیں اس سے عوام کو کیا غرض؟ مفادات کی جنگ تو ہوتی ہی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ عوام کے مسائل کب حل ہوں گے۔ حکومت اور عوام کی لڑائی میں عوام گنّے کی طرح پِس رہے ہیں۔