اکیاسی برس قبل لاہور کے منٹو پارک میں بر صغیر کی مسلم قیادت نے ایک لا زوال جوش و جذبہ لیے‘ کمزور اور ٹکڑوں میں تقسیم مسلمان قوم کو ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے عزم کے ساتھ یکجا کیا تھا۔ قراردادِ پاکستان میں دو مملکتوں کا ذکر تھا‘ ایک ہندوستان کے مشرقی حصے میں اور دوسری ہندوستان کے شمال مغربی حصے میں۔ اتحاد و طاقت کے حصول اور انگریزی راج اور کانگریس پارٹی کی شدید مخالفت کے پیشِ نظر ایک ریاست قائم کرنے کی غرض سے مسلم لیگ کی قیادت نے قرارداد میں کچھ تبدیلی کی تھی۔ قرارداد کی طرح یہ تبدیلی بھی پوری طرح اتفاقِ رائے سے کی گئی تھی۔ اس وقت تو نئی مملکت کے کوئی خد و خال واضح نہیں تھے۔ بے شمار مسائل اور کٹھن جدوجہد سامنے تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ کونے کونے میں بکھرے مذہبی‘ لسانی اور سیاسی گروہوں میں تقسیم دھڑوں کو اکٹھا کرنا تھا۔ ان میں سے اکثر تحریکِ پاکستان کے یا تو شد و مد سے مخالف پر اتر آئے تھے‘ یا خموشی سادھے تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ جوں جوں تحریک آگے بڑھی‘ آزادی کے لیے پُر جوش دانش وروں‘ سیاسی قائدین اور کارکنوں نے عوام کو متحرک کیا۔ نعرے تو جلسوں اور جلوسوں میں لگتے ہی تھے‘ مگر مخالفین کو قائل کرنے کے لئے پُر مغز مقالے لکھے جاتے تھے‘ مسلم قومیت کے حق میں دلائل دئیے جاتے اور سوئی ہوئی قوم کو آزادی نہ ملنے کی صورت میں در پیش آنے والے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جاتا۔ جلد ہی یہ آواز ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی۔
اس وقت تک مسلمانوں میں دو نظریاتی اور سیاسی کیمپ بن چکے تھے۔ ایک کی نمائندگی مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر کانگریسی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہیں تو ان کی اقلیت کوئی عام اقلیت نہیں ہو گی‘ بھارت کی کل آبادی کا ایک چوتھائی۔ مگر سوال یہ تھا کہ کیا اس چوتھائی آبادی کو اسی تناسب سے ملازمتوں اور پارلیمان میں نمائندگی مل سکے گی؟ یاد رہے کہ مسلم قومیتی تشخص کی بنیاد گزشتہ صدی کے اوائل میں 'بالحاظِ آبادی نمائندگی‘ کے مطالبے سے پڑی تھی۔ سر آغا خان نے مسلمان رہنمائوں کو مسلم لیگ قائم کرنے کی راہ دکھائی تو اصرار اس بات پر تھا کہ انگریز کے قائم کردہ مشاورتی اور انتخابی اداروں میں مسلم قیادت ہی مسلمانوں کی نمائندگی کرے گی۔ ان کے نزدیک کانگریس سب قومیتوں کی نمائندہ ہرگز نہیں ہو سکتی تھی‘ اس لئے لیگ کا ہمیشہ مطالبہ جداگانہ انتخابات رہا‘ یعنی مسلمانوں اور ہندوئوں کے نمائندوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے مقرر کی جائے اور مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مقابلہ صرف مسلمان امیدواروں کے درمیان ہونا چاہئے۔ انیس سو گیارہ کی منٹو مارلے اصلاحات میں انگریزی حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا تھا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ میرے نزدیک جداگانہ انتخاب کے اصول کے تسلیم کئے جانے نے مسلمان قومیت کے تشخص کو سیاسی قوت بخشی تھی۔ یہ ایک ایسی روایت کا آغاز تھا جو مسلم سیاست کی پہچان بن گئی۔ اس سے کم لینے کے لئے مسلمان رہنما تیار نہ تھے‘ اور نہ ہی کبھی وہ اس حق سے پیچھے ہٹے۔
سوچتا ہوں‘ اگر اس وقت جداگانہ انتخابات کا اصول ایک سیاسی حقیقت کا روپ نہ دھارتا تو پاکستان کا مقدمہ لڑنا اور جیتنا کتنا مزید دشوار بن جاتا۔ ایسے صوبوں میں‘ جہاں مسلمان اقلیت میں تھے‘ یہ سیاسی نمائندگی خواب ہی رہ جاتی‘ اگر انہیں اپنے نمائندے خود چننے کا حق نہ دیا جاتا۔ اس کی مثال موجودہ بھارت کی صورت حال میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اتر پردیش میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں‘ لیکن وہاں صورت حال یہ ہے کہ جہاں کبھی درجنوں مسلمان پارلیمان کے اراکین منتخب ہوتے تھے‘ اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انتخابی سیاست کے محرکات مختلف الخیال‘ کثیرالمذاہب اور متنوع لسانی رنگ کے دھڑوں کو یکجا کرتے ہیں۔ بہار اور اتر پردیش میں‘ جو خصوصاً پاکستان کی آزادی سے قبل تحریکِ پاکستان کا مرکز تھے‘ مسلم اور دلت قومیں جب بھی اکٹھ کر لیتی ہیں‘ مقابلہ سخت ہو جاتا ہے اور کانگریس بمقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی میدان میں طاقت کے ساتھ اتریں تو مسلمان کا ووٹ بڑا فرق ڈالتا ہے۔ جس طرف وہ جھکیں‘ اس کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔
یہ مثال پیش کرنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو مولانا ابوالکلام آزاد‘ جو بد قسمتی سے ہماری سیاسی یادداشت کی گہرائیوں میں بہت معتوب ٹھہرے ہیں‘ کے موقف سے آگاہ کرنا ضروری تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک ہی ملک میں رہ کر یعنی جمہوری اور آزاد بھارت میں مسلمان اپنے سیاسی‘ مذہبی اور سماجی حقوق حاصل کر سکتے تھے۔ ان کے ہم خیال بڑے بڑے مفکر‘ اہلِ علم و دانش اور مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ میں مخلص زعما بھی تھے۔ واصف علی واصف صاحب‘ کاش کبھی ان سے ملاقات ہو جاتی‘ فرماتے ہیں کہ صداقت یا سچائی ایک ہی ہوتی ہے‘ صرف اندازِ نظر اسے مختلف رنگوں میں دیکھتا ہے‘ تو پھر فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ لوگوں کی ترجیحات اور زاویہ نگاہ موجود معروضی حالات میں ترتیب پاتے ہیں‘ لیکن سچائی کے ایک رہنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو سچائیاں نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے موجودہ صورت حال کے بارے میں بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ نمائندگی برائے نمائندگی والی سیاست میں ضمیر کا نہ تب کوئی عمل دخل تھا‘ نہ اب ہے۔ سیاست عمومی اور اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لیے کی جاتی ہے۔ آپ کہیں گے‘ کن وقتوں کی اور کہاں کی بات کر رہے ہیں؟
تحریکِ آزادی کا دور خوابوں‘ امیدوں‘ جوش و جذبے اور عوامی تحریکوں کا دور تھا۔ سچے وقتوں میں سچے لوگ پیدا ہوتے ہیں‘ مخلص‘ بڑی سے بڑی قربانی کے لئے ہمہ تن‘ ہر وقت تیار۔ کوئی آزمائش قدم ڈگمگا نہیں سکتی۔ سیدھی راہ چلتے ہیں اور نظر منزلِ مقصود پر ہوتی ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران اٹھنے والا کیا عجیب ولولہ تھا۔ انہوں نے بڑا خواب دیکھا تھا‘ آزاد اور مقتدر ریاست۔ رسالہ تکبیر کے مدیر صلاح الدین سے کبھی ملاقات تو نہ ہوئی‘ مگر ان کی تحریروں میں میری ہمیشہ دلچسپی رہی۔ بھارت میں بسنے والے ناراض مسلمان دانش وروں کو وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہو سکتا ہے‘ مسلمان متحدہ بھارت میں خوش حال ہوتے‘ لیکن سیاسی اقتدار انہیں کبھی نصیب نہ ہوتا۔ اپنا وطن تو اپنا ہے‘ اپنی ریاست اپنی پہچان ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک امانت بھی ہے‘ ان لاکھوں مسلمان مردوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور معصوم بچوں کی جو پاکستان کا خواب دیکھنے کی پاداش میں عصری تاریخ کی سب سے بڑی مہاجرت کی نذر ہو گئے۔ نہ جانے کتنے لاکھوں کا خون بہا اور کتنے منزل پہ پہنچنے سے پہلے ہی خاک میں مل گئے۔
ایک نہیں‘ دو مسلم اکثریتی ریاستیں ہیں‘ ایسی سچائی کہ کسی کا انکار نہیں ہو سکتا۔ تحریکوں اور سیاسی دھاروں کو ان کے موجودہ تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے سے صداقت کا معیار کچھ اور ہوتا ہے‘ عصرِحاضر کا کچھ اور۔ لاہور کے منٹو پارک کا تصور کر کے دیکھ لیں‘ کہاں کہاں سے ہجوم سحر انگیز ولولے کے ساتھ شریک ہوئے‘ اور کیسے اس تاریخ ساز گھڑی نے اس خطے کی قسمت بدل ڈالی۔ مقصد واضح ہوا‘ نشانِ منزل کا تعین ہوا‘ خوش بختی کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت نصیب ہوئی اور ان ہونی‘ ہونی ٹھہری۔ قنوطیوں کے پاس لاکھ بہانے ہیں شکایتیں کرنے کے‘ مگر اپنے اندر جھانکیں‘ آپ اور آپ کے خاندان اور وہ جنہیں آپ جانتے ہیں‘ سب کی قسمتیں نہیں بدلیں؟ شکر ہے‘ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے‘ آزاد ملک میں رہتے ہیں۔ جان سے بھی عزیز۔