تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-03-2021

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

گزشتہ کالم میں جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبہ بننے کے ''لارے‘‘ سے لے کر سب سیکرٹریٹ بننے اور اس سب سیکرٹریٹ کی ''گولی‘‘ کے ایلوپیتھک سے ہومیو پیتھک ہونے کا تذکرہ کیا۔ بلکہ تذکرہ بھی کیا‘ رونا رویا تھا اور دل کا دکھڑا بیان کیا تھا۔ قاری بڑے مزے کا کردار ہے۔ کوئی ہمدردی کرتا ہے‘ کوئی ٹھٹھا اڑاتا ہے‘ کوئی طعنے دیتا ہے‘ کوئی طنز کے تیر چلاتا ہے اور کوئی اس بے بسی سے لطف لیتا ہے اور ایک پنجابی لفظ کے مطابق ''مسخریاں‘‘ کرتا ہے۔ ظاہر ہے اب ایسے بھانت بھانت کے ردِ عمل میں کالم نویس کیا کر سکتا ہے؟ اب ایک ایک قاری کو تو جواب دینا ممکن نہیں‘ لیکن بعض سوالات ایسے اُٹھتے ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی بنتا ہے اور وضاحت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ چیزوں کی تفصیل بیان کیے بغیر چارہ نہیں رہتا‘ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ یہ جواب الجواب والا معاملہ ہرگز نہیں۔
ایک قاری نے طعنہ مارا کہ عمران خان سرائیکی علاقے سے ہیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب سرائیکی ہیں‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سرائیکی ہے‘ جہانگیر ترین سرائیکی ہیں (حالانکہ اب جہانگیر ترین کی حیثیت کسی چلے ہوئے کارتوس سے زیادہ نہیں ہے مگر طعنہ دینے میں کیا حرج ہے) خسرو بختیار سرائیکی ہیں اور اگر اس کے باوجود آپ کو اپنا حق نہیں ملتا تو آپ اوروں سے گلہ کیا کر سکتے ہیں؟ ایمانداری کی بات ہے قاری کی بات درست بھی ہے اور ایک کھلی سچائی بھی۔ میرا مؤقف بھی تو یہی ہے کہ کوئی شخص بھی اپنا ''حلقہ پٹوار‘‘ چھوٹا نہیں کرنا چاہتا۔ کیا سرائیکی عثمان بزدار‘ کیا سرائیکی شاہ محمود قریشی اور کیا سرائیکی خسرو بختیار۔ رہ گئی بات عمران خان صاحب کی‘ تو ان کا حال سب سے پتلا ہے۔ وہ میانوالی کو محض ایکسپلائٹ کرتے ہیں اور وہاں سے الیکشن لڑتے ہیں۔ عملی طور پر ان کا میانوالی سے کوئی تعلق نہیں‘ ان کی ابتدائی زندگی برطانیہ اور زمان پارک کے درمیان گزری اور اب وہ بنی گالا کے مکین ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میانوالی کے بہت سے اصحاب اپنے آپ کو سرائیکی مانتے ہی نہیں۔ عمران خان صاحب کو تو صوبہ جنوبی پنجاب بننے پر سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا کہ موجودہ صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں اگر جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے کا درجہ مل جائے تو خان صاحب کے ہاتھ یہی پسماندہ‘ چھوٹا اور استحصال شدہ جنوبی پنجاب آئے گا جبکہ مرکزی اور بالائی پنجاب پھر شریف خاندان کے پاس چلا جائے گا۔
صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا یہ کہنا کہ اسے پنجاب اسمبلی سے صوبہ جنوبی پنجاب کی قرارداد پاس کروانے کیلئے درکار دو تہائی اکثریت میسر نہیں‘ اس لیے ان کے پاس اپنے اس وعدے پر عمل کرنے کی فی الوقت پارلیمانی طاقت نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف اگر چاہے تو وہ پنجاب اسمبلی سے یہ قرارداد بہ آسانی دو تہائی اکثریت سے منظور کروا سکتی ہے کہ اس کی اس قرارداد کو مسلم لیگ (ن) اور دیگر پارٹیاں (جو فی الحال آٹے میں نمک کے برابر ہیں) منظور کر لیں گی۔ مسلم لیگ (ن) تو صرف اس وجہ سے ہی اس قرار داد کے حق میں نہ صرف ووٹ دے گی بلکہ زور دار حمایت بھی کرے گی کہ اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد یہ معاملہ قومی اسمبلی میں جائے گا اور وہاں سے بھی منظور ہو جانے کے بعد صوبہ کی تقسیم کا عمل ممکن ہو سکے گا اور ایسا ہوتے ہی مسلم لیگ(ن) کی لاٹری نکل آئے گی۔ پنجاب اسمبلی کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھیں تو ملتان‘ بہاولپور‘ ڈیرہ غازی خان اور ساہیوال ڈویژن کے تیرہ اضلاع پر مشتمل صوبہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بن جائے گی اور وسطی و بالائی پنجاب میں مسلم لیگ( ن) اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ ظاہر ہے مسلم لیگ (ن) کیلئے اس سے بہتر کیا صورتحال ہو سکتی ہے؟ لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کو کیا پڑی ہے کہ وہ ''آ بیل مجھے مار‘‘ کے مصداق صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کا ڈول ڈالے؟آج مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتوں کا سارا کریڈٹ جنوبی پنجاب کے انہی تیرہ اضلاع کو جاتا ہے۔ اگر ہم پنجاب کے چھتیس اضلاع کو جنوبی پنجاب اور بقیہ پنجاب میںتقسیم کریں تو جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ بڑی واضح ہے۔ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی کل انتخابی نشستیں دو سو ستانوے ہیں؛ تاہم فی الوقت یہاں تین نشستوں پر کسی نہ کسی وجہ سے اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے۔ راولپنڈی کی پی پی 10 راولپنڈی II سے چودھری نثار علی خان جیتے تھے مگر انہوں نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔ پی پی 84 خوشاب III کے رکن صوبائی اسمبلی محمد وارث کلو وفات پا گئے تھے اور وہاں مئی میں الیکشن ہوگا۔ پی پی 217 ملتان VII سے سلمان نعیم نے شاہ محمود قریشی کو شکست دے کر ان کا وزارتِ اعلیٰ پنجاب کا خواب چکنا چور کر دیا تھا۔ شاہ محمود اپنی اس دیرینہ خوہش کے برباد ہونے پر اتنے بروفراختہ ہوئے کہ جواباً انہوں نے سلمان نعیم کی عمر کو بنیاد بنا کر عدالت کے ذریعے نتیجہ کالعدم کروایا ہوا ہے اور گزشتہ پونے تین سال سے یہ صوبائی حلقہ اپنی نمائندگی کے بغیر خوار رہا ہے۔
جنوبی پنجاب کے تیرہ اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی کل ایک سو سات انتخابی نشستیں ہیں؛ تاہم اب پی پی 217 کے علاوہ یہ ایک سو چھ حلقے ہیں۔ ان میں سے ساٹھ نشستیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں۔ سینتیس نشستیں مسلم لیگ( ن) کے پاس ہیں‘ مسلم لیگ (ق) کے پاس دو اور پیپلز پارٹی کے پاس پانچ نشستیں ہیں جبکہ دو آزاد امیدوار ہیں۔ یہ دونوں آزاد امیدوار تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے دو اور دو آزاد ارکان کی حمایت کے ساتھ چونسٹھ نشستوں کی غالب اکثریت حاصل ہے جبکہ مسلم لیگ (ن )اور پیپلز پارٹی کے پاس محض بیالیس سیٹیں ہیں۔ لیکن بقیہ پنجاب کو دیکھیں تو صورتحال بالکل مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کو بالائی اور وسطی پنجاب میں چوراسی نشستیں حاصل ہیں اگر مسلم لیگ( ق) کی چھ نشستیں بھی ان کے کھاتے میں ڈال دیں تو ان کے پاس کل نوے نشستیں بن جاتی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اکیلی کے پاس چورانوے سیٹیں ہیں۔ یعنی پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت صرف جنوبی پنجاب میں ملنے والی واضح اکثریت کے طفیل بن پائی ہے۔ تحریک انصاف وسطی اور بالائی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں دس نشستوں کے خسارے میں ہے جبکہ اسے جنوبی پنجاب کے تیرہ اضلاع میں تئیس سیٹوں کی برتری حاصل ہے اس طرح دس کا خسارہ پورا کرنے کے بعد بھی تحریک انصاف کو تیرہ نشستوں کی برتری ہے۔
تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب میں یہ کامیابی صوبہ جنوبی پنجاب کے نعرے پر ملی تھی اور صوبہ جنوبی پنجاب محاذ اس وقت یہی سلوگن لے کر سامنے آیا تھا اور اسے وسیب میں پذیرائی ملی تھی۔ خسرو بختیار اینڈ کمپنی صوبہ جنوبی پنجاب کے نام پر یہاں کی عوام کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر گئی اور عالم یہ ہے کہ صوبہ تو رہا ایک طرف‘ یہاں گزشتہ دو اڑھائی سال سے بنایا جانے والا جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ بھی سوائے وسیب کو گولی دینے کے اور کسی کام کا نہیں۔ اس کیلئے ہمیں نہ تو میاں شہباز شریف سے کوئی گلہ ہے اور نہ چودھری پرویز الٰہی سے کہ ان کے مفادات جس علاقے سے وابستہ ہیں وہ اسی کی نمائندگی کریں گے۔ گلہ تو ان لوگوں سے ہے جو وسیب سے تعلق ہونے کے باوجود اپنے وسیب کی عوام کے ساتھ ہاتھ کر گئے ہیں۔ وہی معاملہ ہے‘ بقول حفیظ جالندھری ؎
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved