تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     23-03-2021

ایک اور یومِ پاکستان

علامہ اقبال یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ قومیں شعرا کے دلوں میں تخلیق پاتی ہیں‘ وہ ترقی کرتی ہیں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں مر جاتی ہیں۔ ایک اور یومِ پاکستان کے موقع پر بھی ہم بحیثیت قوم کسی سمت کے احساس کے بغیر ہی رہ رہے ہیں اور اندھیرے میں قومی شناخت کے تعین اور پاکستان کی نسلی و لسانی اعتبار سے متنوع آبادی کیلئے ایک سیاسی نظام وضع کرنے کی غیر یقینی جدوجہد میں مصروف ہیں۔آزادی کے بعد سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ایک قوم کی حیثیت میں اور قوموں کے اتحاد کے رکن کی حیثیت سے کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم ایک جمہوری اور ترقی پسند پاکستان میں رہ رہے ہیں‘ ویسا پاکستان جیسا اس کے بانی قائداعظمؒ نے تصور کیا تھا؟ کیا ہم پاکستان کو اندرونی طاقت‘ سیاسی استحکام‘ معاشی خود انحصاری‘ سماجی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کا گڑھ بنانے میں کامیاب رہے ہیں؟
یہ تکلیف دہ سوالات ہیں‘ اور ان سوالوں کے جوابات بھی کم تکلیف دہ نہیں ہیں۔ قیام ِپاکستان کے بعدقائداعظمؒ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے کہ ملک کے معاملات کو ذاتی طور پر آگے چلاتے اور اسے وہ بناتے جو وہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کے جلد انتقال فرما جانے سے پاکستان بچپن میں ہی یتیم ہوگیااور ایک صحت مند جوانی اور منظم قدرتی نشوونما کا موقع کھو بیٹھا۔ قائد کے بعد یہ سیاسی دیوالیہ پن اور اخلاقی کسمپرسی کی حالت میں چلا گیا۔ چوتھائی صدی سے بھی کم عرصے میں اس نے اپنا نصف حصہ کھو دیا۔ محض نصف حصہ ہی نہیں بلکہ وہ عقلی وجوہ بھی جنہوں نے اس کے بانی آبا کو برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے قیام کی جدوجہد پر آمادہ کیا تھا۔ اصل پاکستان افسوسناک شکست کے ساتھ غائب ہو گیا‘ اور اب جو کچھ باقی ہے وہ صرف ایک نعرے ''پاکستان کھپے‘‘ کے پتلے دھاگے سے لٹکا ہوا ہے۔یہ کتنا بڑا المیہ اور ستم ظریفی ہے کہ ایک ایسا ملک‘ جو اپنے قیام کے وقت ''20ویں صدی کا معجزہ‘‘ تصور کیا جاتا تھا اور جس نے مکمل طور پر جمہوری اور آئینی جدوجہد کے ذریعے کامیابی حاصل کی تھی‘ اب خود ہی قابلِ رحم حالت میں جمہوریت اور آئینی برتری اور دنیا کے پرامن ممالک کی صف میں مقام پانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ یہ ایک ایسی قوم ہے‘ جو اب تکثیریت اور مشترکہ مقصد کے کسی بھی احساس کی حامل نہیں ہے۔پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کیا ہوا‘ اس کا تعین کرنے لگیں تو آزادی کے بعد سے ہماری تاریخ کی ترتیب خود سب کچھ واضح کر دیتی ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ابتدا ہی سے پاکستان میں سیاست اور حکومتیں ایلیٹ طبقوں کے یرغمال بنی رہی ہیں‘ جو تعلیمی ترقی اور سیاسی آزادی کو بالکل بھی پسند نہیں کرتے۔ مسلم لیگ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے بعد بھی وہی جاگیردار طبقہ‘ جو مختلف اوقات میں‘ مختلف سیاسی جھنڈوں تلے مختلف افراد پر مشتمل ہوتا تھا‘ فوجی تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر اقتدار میں رہا۔مسئلہ یہ ہے کہ نظام کی کمزوریوں کو دور کرنے اور ہماری قومیت کے متحد کرنے والے عناصر کو تقویت دینے کے بجائے‘ پاکستان میں غالب جاگیردارانہ‘ قبائلی اور اشرافیہ کے طبقات اقتدار کے ڈھانچے میں اتنی گہرائی تک داخل ہو چکے تھے کہ انہوں نے نظام میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہو نے دی۔ یہاں تک کہ ''منتخب‘‘ رہنماؤں کی حیثیت سے بھی انہوں نے کبھی ایسی جمہوری ریاست بنانے کی امید پیدا نہیں کی جو پاکستان کے تمام عوام کو بلا امتیاز معاشرتی و معاشی انصاف‘ قانون کی حکمرانی اور منصفانہ انتظامیہ فراہم کر سکے۔ وہ اپنے استحقاق پر مبنی 'سٹیٹس کو‘ میں ہی مست رہے۔
اس سارے عمل کے دوران ملک بدعنوان سیاسی خاندانوں کے ان چند افراد کا یرغمال بنا رہا جو نسل‘ مذہب‘ زبان اور ثقافت کے نام پر لوگوں کا استحصال کرنے میں ماہر ہیں۔ ان کے نزدیک انتخابات بولی لگانے کے میلے سے زیادہ نہیں ہیں‘ جس میں صرف بڑی تجوریوں والے ہی ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کھیل کا واحد عنوان کرپشن ہے۔ وہ جمہوریت کے نام پر وہ کام کر رہے ہیں جس کا تجربہ دنیا کے کسی اور ملک نے کبھی نہیں کیا ہو گا۔انہوں نے ملک کو گروہی اور لسانی وجودوں میں تقسیم کر دیا جبکہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد کی کوئی رمق باقی نہ رہی۔ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں جس میں صوبے نسل اور زبان کی بنیادوں پر مبنی ہیں۔ دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے نظاموں کو دیکھیں تو ہم فیڈریشن کی ایک نادر مثال پیش کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر بڑے اور درمیانے حجم کے ممالک انتظامی اکائیوں کے طور پر چھوٹے صوبوں یا ریاستوں میں منقسم ہیں۔ ہماری خاندانی اشرافیہ نے صوبائی سیٹ اپ کو صرف اپنی مجازی ریاستوں کے طور پر تشکیل دیا ہے جس پر وہ حکمرانی کرتے ہیں۔ قوم کو سنجیدگی کے ایک لمس کی اشد ضرورت ہے۔ محض دراڑیں بھر دینے سے کچھ نہ ہو گا‘ اس بیماری کا گہرائی تک علاج کرنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی ریاست کیلئے اس کا آئین ایک پختہ اور ناقابل تسخیر 'عمرانی معاہدہ‘ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے شہریوں کی بنیادی آزادی اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے بلکہ حکومت کے اختیارات اور فرائض کی نشاندہی بھی کرتا ہے‘ جو حکومت کو حاصل اختیارات کا جواز فراہم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں آئین ہمیشہ ترامیم کی زد میں رہا ہے تاکہ صرف حکمراں طبقے کے مفادات کو پورا کیا جا سکے۔ عام تصور یہ ہے کہ آئین کی کبھی بھی ملک کے مراعات یافتہ طبقے کی طرف سے قانون سازی کے حملوں اور مسلسل خلاف ورزیوں کے خلاف حفاظت نہیں کی گئی۔ ہماری کہانی ایک ایسے معاشرے کی کہانی ہے جو 70سالوں سے دائروں میں بے مقصد گھومتا جا رہا ہے۔ یہ ملک قومی شناخت کی وضاحت‘ اور اپنی نسلی اور لسانی اعتبار سے متنوع آبادی کیلئے درکار ایک سیاسی نظام وضع کرنے کی جدوجہد میں بھی مصروف رہا ہے۔ پاکستان میں بیس سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور 300 کے قریب الگ الگ بولیاں ہیں۔ ہمارا آئین صوبوں کے حجم کی عدم برابری اور سیاسی و معاشی طاقت کے ناہموار اشتراک کے حوالے سے موجود خدشات کا حل پیش نہیں کرتا ہے۔ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے‘ عوام کیلئے نہیں‘ بلکہ صرف حکمرانوں کے اقتدار اور استحقاق کیلئے؛چنانچہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ملک قانون کی حکمرانی اور آئینی بالادستی پر مبنی پائیدار جمہوری نظام وضع کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس ملک کو اس کے اپنے حکمرانوں نے لوٹا ہے اور اس میں خود اعتمادی‘ وقار یا خود مختارانہ آزادی کی کوئی رمق باقی نہیں رہنے دی۔ کوئی دوسرا ملک اشرافیہ کے قرض نادہندگان اور قومی خزانے کی لوٹ مار کرنے والے نام نہاد اعلیٰ حکام کو معاف کرنے کے رواج سے واقف نہ ہو گا۔ دوسرے ممالک میں لٹیروں‘ ذخیرہ اندوزوں‘ منافع خوروں اور قاتلوں سمیت ہر طرح مجرموں کیلئے کہیں بھی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہو سکتی۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ ہمارے ملک میں اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے واحد لوگ اس کے حکمران ہیں‘ جو میکیاولی کی روایات میں یا تو ''دھنی بچہ‘‘ تھا یا وہ'اقتدار کے ایوانوں میں پیدا ہوا تھا‘ یا جس نے 'دھوکا دہی اور طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا‘۔ ہمارے موجودہ سیٹ اَپ میں ہنگامی بنیادوں پر وسیع تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی دولت ہڑپ کرنے والے غاصبوں سے نجات حاصل کی جا سکے۔ بطور ایک ملک اور بحیثیت ایک قوم‘ یہ ہماری تاریخ کا ایک نازک مرحلہ ہے۔ ہم اپنے آپ کو وقت کی بے راہروی یا چند مراعات یافتہ خاندانوں اور ان کی کرپٹ اولادوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم معصومیت کے ساتھ یہ یقین کرنا بھی جاری نہیں رکھ سکتے کہ جادوئی طریقے سے یا معجزانہ طور پر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ چہرے بدلنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ خود نظام کو بدلنا ہو گا۔ اس حوالے سے کبھی بھی 'بہت دیر‘ نہیں ہوتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved