تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     23-03-2021

23مارچ: پاکستان میری محبت

تحریکیں پہلے افکار کی دنیا میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ پھر وہ عملی جدوجہد کا روپ اختیار کرتی ہیں۔ جب کسی مسئلے کے بارے میں طرح طرح کے خیالات سامنے آتے ہیں‘ اہلِ نظر کی آراء جلوہ گر ہوتی ہیں تو پھر آہستہ آہستہ نشانِ منزل بھی واضح ہونے لگتا ہے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک مسلمانانِ ہند منتشرخیالی کے دور سے گزرے۔ جوں جوں اُن کے ہاں یہ شعور اجاگر ہوتا گیا کہ گردشِ ایام نے انہیں ثریا سے زمیں پر دے مارا توں توں اُن کے اندر آزادی کا شعلہ بھڑکتا گیا۔ پہلے تو انہیں یہ ادراک حاصل ہوا کہ وہ حکمرانی سے غلامی کی سطح پر پہنچ گئے ہیں اور وہ عرش سے فرش پر آن گرے ہیں۔ پہلے مرحلے میں مسلمان قائدین اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنی چاہئے۔ 1928ء تک قائداعظم محمدعلی جناح بھی کانگریس کے ساتھ مفاہمت و مصالحت کی پالیسی سے کام لیتے رہے۔ ایک بار ایک انگریز مصنف ایولن رنچ نے قائداعظم کا انٹرویو کرتے ہوئے اُن سے پوچھا تھا کہ آپ کے ذہن میں علیحدہ وطن کا خیال سب سے پہلے کس سال کے دوران آیا تھا۔ قائداعظم لگی لپٹی کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے ارتجالاً جواب دیا کہ 1930ء میں۔ یہ وہی سال ہے کہ جب علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد پیش کیا تھا۔ اگرچہ اُن دنوں قائداعظم کچھ عرصے کے لیے انگلستان میں مقیم تھے مگر مسلمانانِ ہند کے خیال سے غافل نہ تھے۔ وہ یقینا اقبال کے الفاظ میں اس صورت سے دوچار تھے
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی‘ کبھی پیچ و تابِ رازی
ہندوستان میں 1937ء کی ڈیڑھ سالہ متعصب کانگریسی حکومت کی مسلم دشمن کارروائیوں سے قائداعظم محمدعلی جناح کو علیحدہ وطن کے بارے میں مکمل شرحِ صدر حاصل ہوگیا۔اگرچہ تاریخی و تحقیقی اعتبار سے قراردادِ لاہور کی کئی تعبیرات پیش کی جاتی ہیں کہ اس میں ایک خودمختار ریاست کی نشاندہی کی گئی تھی یا دو کی۔ جس ورکنگ کمیٹی نے قرارداد کے مسودے کو حتمی شکل دی اس میں شیر بنگال اے کے فضل الحق شامل نہ تھے۔ دوسرے دن وہ سیدھے مسلم لیگ کے اجلاس میں پہنچے اور قرارداد پیش کرنے کا تاریخی اعزاز حاصل کیا۔ اُن کے متعدد بیانات سے یہ پتا چلتا ہے کہ اُن کے ذہن میں اس قرارداد کا مطلب مسلمانوں کی دو آزاد ریاستیں تھیں؛ تاہم قائداعظم نے اسی روز اخباری رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے یہ بیان دے کر ابہام ختم کردیا کہ ہم دو خودمختار ملکوں کا نہیں‘ ایک ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ بات سٹینلے والپرٹ کی قائداعظم کے بارے میں لکھی گئی کتاب میں بھی موجود ہے۔ قائداعظم کا وژن اس لحاظ سے ادھورا نہیں مکمل تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے محض ایک وطن کے حصول پر اکتفا نہ کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ وہ الگ وطن کیسا ہوگا۔ قراردادِ لاہور کو بعدازاں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا۔
دانشوروں کی ایک محدود تعداد نوجوان نسل کو کنفیوژ کرنے کے لیے بلادلیل یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پاکستان دوقومی نظریے کی پیداوار تھا مگر پاکستان بننے کے بعد وہ نظریہ ختم ہوگیا‘ اب دوقومی نظریے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دوقومی نظریہ دراصل دونکاتی نظریہ تھا۔ پہلا نکتہ ایک آزاد ملک کا حصول تھا اور دوسرا نکتہ اس کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا۔ ایک ایسی مثالی اسلامی ریاست جو دنیا کے دیگر ممالک کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہو۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کی تقاریر کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ہزاروں سال اکٹھے رہنے کے باوجود اُن کا مذہب‘ رسم و رواج‘ بودوباش اور طرزِ زندگی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا اپنا علیحدہ وطن ہونا چاہئے جہاں وہ اپنے دین اور اپنے تصورات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ یہ تصور اتنا پُرکشش تھا کہ ہندوستان کے اُن علاقوں نے بھی مستقبل کی اس ریاست کی بھرپور تائید کی کہ جنہیں معلوم تھا کہ وہ جغرافیائی اعتبار سے اس اسلامی ریاست کا حصہ نہیں بن سکتے۔
سوسائٹی آف ایشین سولائزیشن پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہر ماہ ملک کی کوئی نامور شخصیت تحریک پاکستان‘ تاریخ پاکستان اور تعمیر پاکستان کے حوالے سے لیکچر دیتی ہے۔ اس سلسلے کا ایک تاریخی لیکچر 6 ستمبر 2020ء کو ہوا۔ لیکچر ممتاز افسانہ نگار مسعود مفتی نے دیا اور شاید راہی ٔ ملکِ عدم ہونے سے پہلے یہ اُن کا آخری لیکچر تھا۔ مرحوم کے اس لیکچر کا موضوع ''قائد فراموشی‘‘ تھا۔ قائداعظم سے اپنی محبت کے حوالے سے مفتی صاحب نے تین مراحل کا ذکر کیا۔ پہلا مرحلہ وہ تھا کہ جب 1944ء میں انہوں نے قائد کو اپنے لڑکپن میں پہلی بار دیکھا۔ دوسرا مرحلہ 1947ء اور 1948ء کا تھا کہ جب قائداعظم گورنر جنرل تھے۔ اس دوران وہ بڑے غور سے ریڈیو پر قائد کی تقاریر سنتے اور تیسرا مرحلہ وہ تھا کہ جب 1958ء میں ایک طرف قوم میں بڑا آئیڈیل ازم تھا اور وہ تعمیروطن میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ مگر حکمرانوں کی طرف سے یہاں قائد فراموشی کا دور شروع ہوگیا۔ مفتی صاحب نے اپنے لیکچر میں یہ بھی فرمایا کہ قائداعظم کی تقاریر آئین کا جو خاکہ پیش کرتی تھیں اُس کے چار پہلو تھے (1): فلاحی ریاست (2): قانون اور آئین کی بالادستی (3): میرٹ کی عملداری(4): سماجی انصاف۔ مفتی صاحب کے علم و فضل اور اُن کے مقام و مرتبہ کے ہم تہہ دل سے قائل ہیں مگر یہاں انہوں نے تاریخی انصاف نہیں کیا۔
قائداعظم محض فلاحی نہیں اسلامی فلاحی ریاست چاہتے تھے۔ یہ اسی ریاست کی کشش تھی کہ جس کی بنا پر مسلمانانِ ہند نے قائد کی آواز پر لبیک کہا اور ناقابلِ فراموش قربانی پیش کی‘ مگر نہ جانے مفتی صاحب مرحوم نے ''اسلامی ریاست‘‘ کا نام کیوں نہیں لیا۔اسی طرح مفتی صاحب نے 11 اگست 1947ء کی قائداعظم کی نئی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے سیکولر طبقے کی ہمنوائی کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا عقیدہ‘ آپ کا مذہب کیا ہے ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ آزاد ہیں کہ اپنی اپنی عبادت گاہ میں اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کریں۔ مفتی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ قائداعظم تو ایک سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے۔ مجھے حیرت ہے کہ مفتی صاحب جیسے اہلِ نظر سے قائداعظم کا تصورِ پاکستان کیوں نظرانداز ہو گیا۔ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار کہا کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ انہوں نے بارہا کہا کہ اس فلاحی اسلامی ریاست میں قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور معاشی عدل ہوگا۔ 11 اگست 1947ء کی تقریر کا مقصد نوزائیدہ ریاست میں اقلیتوں کو یہ یقین دہانی کرانی تھی کہ انہیں پاکستان میں ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوگا اور مسلمانوں کی ریاست میں انہیں بحیثیت شہری برابری کا مرتبہ حاصل ہوگا۔
آج 23 مارچ کو ہمیں اپنے 73 سالہ سفر کا جائزہ لینا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ہم نے کہاں کہاں قائد کی تعلیمات کو فراموش کیا ہے۔ ایک بار پھر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجئے کہ دوقومی نظریہ کے دو نکات ہیں: ایک نئی ریاست کا حصول اور دوسرے پاکستان کیسا ہوگا؟ ہم نے نظریۂ پاکستان کے پہلے حصے پر عمل کرکے دوقومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان تو قائم کر لیا مگر اسی نظریے کا دوسرا حصہ ابھی تک تشنۂ تکمیل ہے۔ ہر آنے والی حکومت نظریۂ پاکستان کے دوسرے حصے کو مکمل کرنے کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ نہ مثالی اسلامی ریاست وجود میں آئی نہ قانون کی حکمرانی قائم ہوئی اور نہ ہی میرٹ کی عملداری دیکھنے میں آئی۔ یہی وہ قائد فراموشی ہے جس کے ہم سب مرتکب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میری ہی نہیں آپ سب کی بھی محبت ہے۔ اس محبت کے تقاضوں کو عملی جامہ پہنا کر ہی ہم قائد کی روح کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved