تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     23-03-2021

یہ نظام کیسے چلے گا؟

یہ ہے وہ سوال جو میرے فاضل دوست اور ساتھی کالم نگار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے یکم فروری کو اُٹھایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے ملک کے اُن بہت کم لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے علم و فضل میں کمال حاصل کیا‘مگر اُن کے پائوں اب بھی راجن پور کے ایک گرد آلود گائوں کی مٹی سے نہیں اُٹھے۔ وہ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ بولتے اور لکھتے بھی ہیں۔ ٹیلی وژن پر ہونے والے مذاکروں میں اکثر حصہ لیتے ہیں وہ بولیں یا لکھیں‘ ہر لفظ سے عوام دوستی کی خوشبو آتی ہے۔ ہمارے لئے اُن کا وجود‘ اُن کے خیالات‘ اُن کا عوام دوست مسلک‘ اُن کی سوچ‘ اُن کا فہم و شعور باعث ِفخر اورباعث خوشی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوال کا صاف مطلب یہ ہے کہ موجودہ نظام زندہ ہے تو مصنوعی تنفس کی بدولت۔ اس نظام میں زندگی‘ تابندگی‘ تازگی‘ ولولہ‘ جوش و خروش‘ حرکت‘صداقت‘ دیانت‘ عدالت‘ شجاعت‘ ایسی کوئی خوبی نہیں۔ یہ ہماری سادگی ہے کہ ہم ایک مردہ نظام کو زندہ سمجھ کر اس سے چلنے کی توقع رکھتے ہیں اگر ہم نے اسے دفن نہ کیا تو وہ ہمیں دفن کر دے گا اور وہ بھی مستقبل قریب میں۔ یہ ہم سب کے پختہ یقین کا حصہ ہے کہ جمہوریت ہی بہترین نظام حکومت ہے مگر دنیا کی باقی چیزوں کی طرح جمہوری نظام کی کامیابی کے بھی چند لوازمات ہیں۔ اگر وہ پورے نہ کئے جائیں (جو ہم نے گزرے ہوئے 74 سالوں میں ہر گز نہیں کئے) تو جمہوری نظام کی گاڑی چلتے چلتے رک جائے گی یا پٹری سے اُتر جائے گی۔ سلطانیٔ جمہور کی کلی بن کِھلے مرجھا جائے گی۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس سے اس کالم کے ذریعے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنے قارئین کو اسی طرح بتائیں جس طرح وہ یونیورسٹی میں اپنے طلبا و طالبات کو سمجھاتے ہیں کہ جمہوریت کے نظام کو چلانا مقصود ہو تو اس پودے کو کون سی کھاد دینا پڑتی ہے؟ وہ کون سی جراثیم کش ادویات ہیں جو اس پودے کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟ کون سا موسم سازگار ہے اور کون سا ناسازگار؟ کوئی بھی سماجی نظام خلا میں تو پنپ نہیں سکتا۔ وہ محتاج ہوتا ہے موافق اور موزوں معروضی حالات کا۔ 1947ء سے لے کر 1958ء (جنرل ایوب خان کے مارشل لا لگنے تک) ہمارے سیاست دان چاہے کتنے عوام دشمن‘ نالائق اورمغرب نواز تھے‘ بددیانت ہر گز نہ تھے۔ انہی کی صفوں سے مولوی تمیز الدین خان‘ مولوی فرید احمد اور پروفیسر ابراہیم (ان سب کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا) جیسے بااصول‘ باضمیر اور بہادر سیاست دان اُبھرے جو ہماری تاریخ میں ایسے چراغ روشن کر گئے جو کہ آج تک نہیں بجھ سکے۔ جمہوری قدروں کو اُن بے اُصول اور موقع پرست سیاست دانوں نے نقصان پہنچایا جو ہر آمر کے معاون اور مددگار بنے۔
بھٹو صاحب کے دور میں جمہوری قدروں کی مٹی پلید کی گئی۔ جو کام دلائی کیمپ بنانے‘ لیاقت باغ میں پختونخوا سے آئے ہوئے سیاسی کارکنوں کا قتل عام کرنے‘ بلوچستان کی جمہوری حکومت کو برخاست کرنے‘ عوامی رہنمائوں پر حیدر آباد جیل میں سراسر جھوٹا مقدمہ چلانے‘ ڈاکٹر نذیر اور خواجہ رفیق کو قتل کروانے سے شروع ہوا تھا وہ انتخابی دھاندلی پر ختم ہوا۔پھر نہ صرف جمہوری نظام کی صف لپیٹی گئی بلکہ 1979ء میں ہمارے ہر دلعزیزاور مقبول رہنما کو ایک ایسے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی جو آج تک شک و شبہ کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ جرم اور سزا دونوں بدستور مشکوک ہیں۔ تیسرامارشل لا (جو جنرل ضیاء الحق نے لگایا) کے دور میں سیاست اور دولت کی منگنی بتدریج شادی میں تبدیل ہوتی گئی۔ گزشتہ30‘35 سالوں میں کیا ہوا؟ کرپشن لوٹ مار‘ رشوت ستانی‘ کروڑوں اربوں روپوں کے ان گنت سکینڈل۔ ان سب نے ہمارے سیاسی نظام کو اتنا داغ دار بلکہ بدبو دار بنا دیا کہ اب متعفن ہو چکا ہے۔ اول تو وہ چل ہی نہیں سکتا اور اگر کسی نہ کسی طرح رینگتا‘ کشکولِ گدائی پھیلاتا‘ دستِ طلب دراز کرتا اپنے پندار کا سودا کرتا دیکھا گیاجنہیں آپ (حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے) چلنے کا نام دیں تو کالم نگار چھ ہزار میل کے فاصلے پر یہ انتہائی تکلیف دہ منظر دیکھ کر محوحیرت ہو جائے گا کہ بڑھاپے میں یہ کتنی بڑی مصیبت آن پڑی؟ زمین سخت ہے اور آسماں دور۔ مجھے ہنسنا چاہئے یا رونا؟ دہری مصیبت یہ کہ نوحہ گر کو ساتھ رکھنے کا مقدور بھی نہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہمیں سکولوں‘ اساتذہ اور نصابِ تعلیم کی ضرورت ہے۔ جب ہم ایک اچھے نظامِ صحت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم اچھے ہسپتالوں‘ ہمدرد ڈاکٹروں اور جدید نظامِ علاج کے طلبگار ہیں۔ اس طرح جمہوری نظامِ حکومت بھی مندرجہ ذیل لوازمات کے بغیر نہ نشوونما پاسکتا ہے او رنہ اس کی جڑیں زمین میں پیوست ہو سکتی ہیں‘ ورنہ یہ ایک سرکس تماشا بنا رہے گا یا ایک بھونڈا مذاق (Farce )۔ ایوانِ بالا (Senate) کے انتخابات ہوں گے تو ہر نشست کی بولی لگے گی جو پانچ کروڑ روپے سے زیادہ ہوگی اور شاید 70 کروڑ تک جائے۔ عام انتخابات ہوں گے تو صرف وہی کامیاب ہوگا جو کروڑوں روپے خرچ کرنے کا جوا کھیل سکے۔ تھانے اور کچہری کی نچلی سطح پر اپنے حلقے کے لوگوں کے ناجائز کام کروانے کا ماہر ہو۔ بھلا ہو جناب عمران خان صاحب کا جنہوں نے اُن کیلئے Electables (قابل ِانتخاب) کی جامع اصطلاح گھڑی اور اسے عملی طور پر استعمال کر کے ہمیں اس کا مطلب سمجھایا۔ بدقسمتی سے کروڑوں لوگوں کو جب اس کا مطلب سمجھ آیا تو مہنگائی‘ افراطِ زر‘ قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی‘ ہر شعبہ پر چھائے ہوئے مافیا کی غنڈہ گردی اور جمہوری قدروں کی پسپائی کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ دلدل تھی کہ اور گہری ہوگئی۔ اندھیرا تھا کہ اور بڑھ گیا۔ مایوسی کے بادل تھے اور گہرے ہو گئے۔ (بقول گلوکار طلعت محمود اور میرے ساتھی کالم نگار خالد مسعود خان)۔ جائیں تو جائیں کہاں؟
اگر سیاسی جماعتیں اس عوام دشمن مافیا کی سرپرست‘ حلیف‘ شریک کار بلکہ جگری یار بن جائیں تو افتاد گانِ خاک اور غیر مراعات یافتہ طبقات اور موجودہ نظام کے ظلم و ستم کے شکار کروڑوں لوگ کریں تو کیا کریں؟ نئی (اور وہ بھی صحیح معنوں میں عوام دوست) سیاسی جماعت تو راتوں رات بن نہیں سکتی۔ عوام دشمن نہ صرف باوسائل ہیں بلکہ متحد بھی ہیں۔ دوسری طرف عوام دوست بے وسائل ہیں اور برُی طرح منتشر۔ کالم نگار آپ کے سامنے او ر اس کالم کے توسط سے سینکڑوں سماجی رہنمائوں‘ ہزاروں محب الوطن سیاسی کارکنوں‘ ریٹائرڈ سرکاری افسروں‘ پنشن یافتہ جج صاحبان‘ جرنیلوں‘ صحافیوں‘ اساتذہ‘ وکلا‘ دانشوروں‘ ڈاکٹروں‘ طلبا اور طالبات اور محنت کشوں کی فعال تنظیموں کے عہدیداروں کے سامنے اگلے کالم میں ٹھوس تجاویز پیش کرتے ہوئے دعوتِ فکر دے گا کہ جب ہم موجودہ نظام کو چلائے بغیر (یعنی اسے فعال‘ کارآمد اور جدید خطوط پر استوار کئے بغیر) ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے تو ہم کون سے اقدامات اور کون سی اصلاحات کریں جن سے ہماری رُکی ہوئی گاڑی چل پڑے‘مگر یاد رکھیں کہ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عراق سے (جو بہت دور ہے) تریاق آتے آتے سانپ کا کاٹا ہوا زندگی سے محروم ہو جائے۔ مار گزیدہ مردہ شود کا مرحلہ اس لئے زیادہ دور نہیں کہ امریکہ کا وزیر خارجہ ہمارے وزیر خارجہ سے ڈنکے کی چوٹ پر یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ اگر آپ کی عدالت عالیہ کسی ملزم کو بری کر دیتی ہے مگر وہ ہماری نظر میں مجرم ہے تو آپ اُسے ملک بدر کر کے اولین پرواز پر ہمارے پاس بھیج دیں تاکہ ہم اُس کے ساتھ وہی انصاف کر سکیں جو ہم نے آپ کی ایک بے گناہ بیٹی (ڈاکٹر عافیہ صدیقی) کو 86 برس کی سزا دے کر کیا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved