تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-03-2021

مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی؟

زندگی کا بھی کیا مقدر ہے کہ اِس کا ہر راستہ گھوم پھر کر مفادات کی چورنگی تک آتا ہے اور یہیں اٹک کر رہ جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مرزا تنقید بیگ بھی ہماری رائے سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں! وہ کہتے ہیں کہ انسان نے اپنے راستے میں کانٹے خود بچھائے ہیں اور اب الزام دھرنے کے لیے قربانی کے بکرے تلاش کرتا پھرتا ہے۔ کبھی سماج کو رویا جاتا ہے اور کبھی نظام کو۔ مرزا کا کہنا بالکل درست ہے کہ لوگوں نے گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے آہیں بھرنے کو عادت بنالیا ہے۔ جو حقیقت پسند ہیں وہ آج بھی ملنے ملانے اور خوش رہنے پر یقین رکھتے ہیں اور یوں اکیسویں صدی میں گزری ہوئی صدیوں کا مزا پارہے ہیں۔ ہر دور کے انسان کو اپنا ذاتی مفاد ہی باقی تمام امور سے اہم محسوس ہوتا رہا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ کچھ اور تھا ہی نہیں۔ آج کے انسان نے تمام معاملات مفاد پرستی و بدحواسی کی نذر کردیے ہیں۔ مرزا نے خاصے گنجان آباد علاقے میں زندگی بسر کی ہے اور ہماری عمر کا غالب حصہ بھی ''گچ پچ‘‘ علاقوں میں گزرا ہے۔ آج ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارا بچپن ایسے علاقوں میں گزرا جہاں لوگ ایک دوسرے سے جڑے رہنے کو اچھی خاصی ترجیح دیتے تھے۔ ہم نے اُس زمانے میں اِتنا کچھ پایا کہ آج حسین یادوں کی کہکشاں ہمارے حافظے کے آسمان پر جگمگاتی رہتی ہے۔
اگرچہ ہم نے ہوش بعد میں سنبھالا مگر 1964ء میں ہم جب دنیا میں آئے‘ تب تک قدیم معاشرتی اور سماجی روایات خاصی مضبوط اور بہتر تھیں جس کا ایک مظاہرہ 1965ء کی جنگ کے دوران پوری قوم نے دیکھا جب پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے باہر نکل آئی تھی، اسی طرح اس سے قبل تقسیمِ ہند کے موقع پر مہاجرین کے ساتھ اخوت، ایثار اور حسنِ سلوک کی جو مثالیں قائم ہوئیں‘ جدید دور میں وہ بھی عنقا ہو چکی ہیں۔ 1971ء کی جنگ کے دوران اور اُس کے فوراً بعد ملک معاشی اعتبار سے خاصی شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہوا۔ اس وقت ہم کرائے کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ مکان مالک بھی ساتھ ہی‘ وہ مکان کے دوسرے حصے میں سکونت پذیر تھے۔ دسمبر 1971ء میں جب ہمارے والد نے ماہانہ کرایا (پچاس روپے) دینا چاہا تو مالک مکان بولے ''شکور بھائی! ملک بحران میں ہے۔ تین چار ماہ کرایا نہ دینا۔ عید پر سیزن کی کمائی ہو تو یک مُشت بھگتان کردینا۔ ‘‘ والدِ محترم درزی تھے۔ عید آئی، سیزن کمایا تو سارا کرایا یک مُشت ادا کر دیا۔ آج کرایہ داروں پر اِتنی مہربانی کرنے والے مالکانِ مکان کتنے ہیں؟
ہمارے ہاں ٹی وی نہیں تھا۔ گلی میں صرف دو یا تین گھروں میں ٹی وی تھا۔ گلی کے بچے اِن گھروں کے بچوں سے کبھی جھگڑا نہیں کرتے تھے! ہفتے کی رات خبرنامے کے بعد فلم دیکھنے کے لیے گلی بھر کی عورتیں اور بچے اِن گھروں میں جمع ہوتے تھے۔ ہمارے حصے میں صغریٰ خالہ کا گھر آیا۔ کہلاتی وہ صغریٰ خالہ تھیں مگر تھیں ہماری نانی کی عمر کی۔ اُن کا آنگن خاصا بڑا تھا اور دل اُس سے بھی بڑا تھا۔ اہلِ محلہ کو فلم دیکھنے کی سہولت فراہم کرنے میں صغریٰ خالہ کے گھر کا ایک لڑکا عمران بھی پیش پیش رہتا تھا۔ آج کی زبان میں کہیے تو خاصا فرمانبردار قسم کا ''سہولت کار‘‘ تھا! بعد میں یوں ہوا کہ صغریٰ خالہ جب سبزی وغیرہ لینے بازار آتیں تو ہماری دکان پر بھی ''انٹری‘‘ دیتیں اور کچھ دیر گپ شپ لگاکر جاتیں۔
یہ ذکر اُس دور کا ہے جب گلی کے بچوں کے لیے ہر گھر اپنا گھر ہوا کرتا تھا! کسی دکان سے کچھ لانا ہو تو تمام بچوں کی خدمات دستیاب رہتی تھیں۔ آج کی طرح نہ تھا کہ بچہ بیمار ہو تو بیوی شوہر کے ساتھ کلینک جائے۔ تب بیمار بچے کو چیک اپ کے لیے کلینک لے جانا ہو تو گلی کے لڑکوں میں سے کسی کو بچہ تھمادیا جاتا تھا۔ بیمار بچے کی ماں، دادی پیچھے چلی جاتی تھیں۔ گلی میں عمر کا غیر معمولی فرق رکھنے والے جتنے بھی لڑکے ہوتے تھے وہ بھیّا ہوتے تھے اور جب اُن کی شادی ہوتی تھی تو اُن بیگمات پوری گلی کے لیے بھابھی کا درجہ پاتی تھیں۔ یہی معاملہ عمر کا غیر معمولی فرق رکھنے والی لڑکیوں کا تھا جو باجی کہلاتی تھیں۔ بھابیاں اور باجیاں اِس رشتے کا حق ادا کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی تھیں۔ چھوٹوں کو حلوہ یا کوئی اور خاص چیز کھانی ہوتی تو کسی بھی بھابھی یا باجی سے بلا جھجک فرمائش کر بیٹھتے۔ اِسی طور اگر گھر میں کوئی مزیدار یا پسند کی چیز نہ پکی ہو تو پڑوس کے کسی مکان سے سالن مانگ لانے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ صغریٰخالہ کے پڑوس میں ہمارے ہم عمر اظہر اور چیکو بھی رہا کرتے تھے۔ اُن کے گھر میں بھی ٹی وی تھا اِس لیے ہم اُن سے بناکر رکھتے تھے! چیکو اور اظہر کی دو بڑی بہنوں (ناہید اور ذکیہ باجی)نے گلی کے بچوں کو‘ غیر اعلانیہ طور پر‘ دو گروپس میں بانٹ رکھا تھا۔ ہم ناہید باجی کے گروپ میں تھے۔ جب انہیں کچھ منگوانا ہوتا تھا تو ہمیں یا ہمارے گروپ کے کسی بچے کو بلاتی تھیں۔ وہی ہمیں اپنے گھر میں ٹی وی دیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتی تھیں۔ اگر کسی دن وہ گھر میں نہ ہوں تو سمجھ لیجیے کہ ہماری شامت آ جاتی۔ ذکیہ باجی ہمیں اور ہمارے گروپ کے دیگر بچوں کو دیکھتے ہی خاصے ''جلّادانہ‘‘ انداز سے دروازہ بند کردیتی تھیں!
1973ء کے آس پاس ہمارے پڑوس میں پیرو بھائی کی شادی ہوئی تو ہم نے اُن کی شریکِ حیات یعنی پروین بھابھی کی بدولت کئی بار اپنے پسندیدہ حلووں اور دیگر 'کھابوں‘ کے مزے لوٹے۔ اپنائیت کا یہ عالم تھا کہ شادی کے کچھ دن بعد پیرو بھائی جب اپنے اہلِ خانہ اور چند رشتہ داروں کے ساتھ فلم دیکھنے گئے تو ہمیں بھی ساتھ لے گئے۔ یہ فلم تھی ''پیاسا‘‘ جس کے ہیرو شاہد تھے اور ہیروئن رانی۔ پیرو بھائی کے والد لوڈنگ والی گھوڑا گاڑی چلاتے تھے۔ کبھی جب وہ موڈ میں ہوتے تھے تو گلی کے بچوں کو شہر کی سیر بھی کراتے تھے۔ ایسے مواقع پر وہ ہمیں گھوڑا گاڑی میں سوار ہونے والے بچوں کا مانیٹر بناتے تھے۔ ہمیں یاد ہے ایک بار وہ ہم بچوں کو گھر سے کم و بیش بیس بائیس کلومیٹر دور کلفٹن کی سیر کرا کر لائے۔ تین چار سال کے بچے بھی اِس گھوڑا گاڑی میں سوار ہوجایا کرتے تھے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس دور میں لوگوں کو کس قدر یقین ہوا کرتا تھا کہ جو اُن کے بچوں کو لے جارہا ہے‘ وہ جی جان سے ان کی حفاظت کر کے انہیں واپس بھی لائے گا!
تب والدین کو بچوں کی تعلیم کے بارے میں بھی زیادہ سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ ٹیوشن وغیرہ کا رواج نہ تھا۔ گلی میں جو زیادہ پڑھا لکھا ہوتا تھا وہ بچوں کو یونہی یعنی مفت میں پڑھادیا کرتا تھا۔ ہم نے 1976ء میں پرائمری اسکول سے (جیسے تیسے) پانچویں پاس کی تو چھٹی کا دودھ یاد دلانے والا چھٹی میں داخلے کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ والدِ محترم کو کچھ خاص دردِ سر مول نہیں لینا پڑا۔ اس مرحلے پر شکیل بھائی کام آئے۔ وہ دراز قامت تھے اس لیے اُن کا دستِ تعلقات بھی خاصا دراز تھا۔ انہوں نے ہمیں ناظم آباد کے ایک مشہورِ زمانہ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری سکول میں داخل کرادیا۔ یہ سب کچھ ہماری ہی زندگی کا حصہ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ جدت کی تال پر ناچنے کی کوشش میں ہم نے اپنی خاصی گراں قدر معاشرتی اقدار ترک کردیں۔ جاوید اختر نے خوب کہا ہے ؎
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی!
ستم بالائے ستم یہ کہ جو کچھ ہاتھ سے جاتا رہا اُس پر افسوس ہے نہ ندامت۔ بقول جون ایلیا ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں، اِتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved