مارچ 2020ء میں پہلا لاک ڈائون لگا تھا تو ہر طرف ایسی خاموشی تھی جیسے انسان دنیا سے ختم ہو گئے ہوں، اس وقت صرف پرندوں کی آوازیں آتی تھیں، انسان ڈھونڈنے پر بھی نظر نہیں آتے تھے۔ پھر جب بہار کے موسم میں پھول کھلے تو یہ امید جاگی کہ دنیا ابھی ختم نہیں ہو رہی، ہاں! انسان ختم ہو رہے ہیں۔ اس وقت دل میں ایک انجانا خوف رہتا تھا کہ نجانے کب کیا ہو جائے‘ کون سا دن آخری ہو۔ پورا سال اسی کشمکش میں گزر گیا۔ اس دوران ہر طرح کی تکلیف انسانوں نے دیکھی۔ کچھ کے دل موم ہوگئے تو کچھ کے مزید سخت ہو گئے۔ کسی نے وبا میں نیکیاں کمائیں تو کسی نے اپنے نامہ اعمال کا بوجھ بڑھایا۔ کچھ لوگوں نے مفت لنگر کا اہتمام کیا اور غریب افرد کو مفت کھانے کھلائے، راشن تقسیم کئے اور کچھ لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کی انتہا کر دی، خوب مال بنایا اور سو کی چیز پانچ سو میں بیچ کر لوگوں کی تکلیف کا مذاق اڑایا، ناجائز منافع خوری کی اور اپنی اگلی منزل میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ وبا کسی کو سرفراز کر گئی تو کوئی مزید پستی کا شکار ہو گیا۔
مارچ 2020ء سے مارچ 2021ء تک‘ ڈاکٹرز نے بہت کام کیا ہے، ماسک اور دستانے پہنے رکھنے سے ان کے ہاتھوں اور منہ پر مستقل نشان پڑ گئے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی بہت خدمت کی ہے، ان کی جانیں بچائی ہیں، کئی کئی شفٹوں میں مسلسل کام کیا ہے، کتنے ہی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیک سٹاف اس دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھا؛ تاہم انسانیت کے مسیحائوں نے کام نہیں روکا اور مریضوں کی خدمت کرتے رہے۔ بہت سے لوگ جانبر نہیں ہو سکے لیکن بہت سے لوگ انہی مسیحائوں کی خدمت کی وجہ اپنے گھروں کو زندہ لوٹ گئے۔ یہ مسیحا وبا میں بھی نہیں ڈرے کہ یہ خود بھی جان لیوا مرض کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ یہ کام پر آتے رہے اور اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
مارچ سے مارچ تک‘ اپوزیشن جلسے کرتی رہی، اس وقت بھی جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں‘ مریم نواز سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کر رہی ہیں۔ مجھے اس بات پر شدید حیرت ہو رہی ہے کہ اس وقت پورا ملک کورونا کی تیسری لہر سے نبرد آزما ہے، ہر روز درجنوں لوگ موت کا شکار ہو رہے ہیں، روزانہ سامنے آنے والے نئے کیسز کی تعداد چند سو سے بڑھ کر چار ہزار تک جا پہنچی ہے مگر مسلم لیگ نواز ایسے کنونشن میں مصروف ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لوگوں کی بھیڑ جمع کر کے کورونا کے مزید پھیلائو میں اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) کا کردار بھی یاد رکھا جائے گا۔ لوگ کورونا کا شکار ہوتے رہے، مرتے رہے اور اپوزیشن ریلیاں‘ جلسے اور کنونشن منعقد کرتی رہی۔
پی ڈی ایم کا جنم کیوں ہوا؟ سب کو بخوبی معلوم ہے کہ پاکستان میں اتحاد کیوں بنتے ہیں۔ جب سیاست ذاتی مفاد پر کھڑی ہے تو تمام تر جدوجہد بھی ذاتی مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے۔ یہ اتحاد جتنی جلدی بنتے ہیں‘ اتنی ہی جلدی ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ اس وقت پی ڈی ایم بھی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے کیونکہ یہ اتحاد عوام کے حقوق یا جمہوریت کیلئے نہیں بلکہ چند ذاتی مفادات کیلئے تھا۔ اسی کے تحت یہ لوگ اکٹھے ہوئے تھے اور اسی لئے سب اپنے اپنے مطابق چالیں چلتے رہے، ان کے پیش نظر کوئی مشترکہ ہدف یا مقصد نہیں بلکہ اپنا اپنا مقصد تھا۔
اپوزیشن کے ساتھ ساتھ‘ حکومت بھی سیاست میں لگی رہی لیکن محکمہ صحت کا کام قابل ستائش ہے۔ میں یہ بھی کہوں گی کہ سندھ حکومت کا لاک ڈائون کا فیصلہ بالکل درست تھا جس سے کورونا کے پھیلائو میں کمی واقع ہوئی؛ تاہم پھر سبھی ریلکس ہو گئے اور کورونا کے باوجود لاک ڈائون ختم کر دیا گیا، عوامی و سرکاری سطح پر تقریبات شروع ہو گئیں، جلسے جلوس اور سیاسی سرگرمیاں تو ایک دن کے لیے بھی معطل نہیں ہوئیں، نتیجتاً کورونا دوبارہ پھیلنا شروع ہو گیا۔ اب جبکہ تیسری لہر پوری شدت سے ملک میں پھیل گئی‘ پہلے سکول بند ہوئے، دوبارہ سے ورک فرام ہوم کا سلسلہ شروع ہوا، مارکیٹوں، شادی ہالز اور دیگر جگہوں پر وقت کی پابندی کرائی جا رہی ہے۔ مساجد میں بھی کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کروایا جا رہا ہے۔ ہفتہ‘ اتوار کو مارکیٹیں بند رکھنے کا حکم دیا جا رہا ہے؛ تاہم اشیا خور ونوش کی دکانوں اور میڈیکل سٹور وغیرہ کو کچھ چھوٹ ہو گی۔ اِن ڈور ڈائننگ پر پابندی ہو گی اور آوٹ ڈور ڈائننگ کی اجازت ہو گی، تجارتی سرگرمیاں 8 بجے ختم کر دی جائیں گی۔ حکومت کی طرف سے تمام ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ نجی و سرکاری دفاتر میں 50 فیصد عملے کے ساتھ کام ہو گا۔
اس وقت اسلام آباد میں کورونا جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے کچھ علاقے سیل بھی کیے گئے ہیں جبکہ ہسپتال کووِڈ کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سب نے بے احتیاطی کی ہے لیکن یہ ایسی وبا ہے جو ہر جگہ موجود ہے اور ابھی ختم نہیں ہوئی، اس کا واحد علاج احتیاط اور سماجی کنارہ کشی ہے۔ ہاتھ‘ منہ بار بار دھوئیں اور ڈاکٹرز کی ہدایت پر عمل کریں۔ طبی ماہرین کے مطابق‘ اگر آپ کو کورونا کی علامات نظر آئیں تو فوری طور پر خود کو قرنطینہ کر لیں۔ کورونا کی صورت میں گھبرائیں نہیں بلکہ ہاتھ منہ بار بار دھوئیں، باوضو رہیں، صدقہ و خیرات کریں، ادویات کے ساتھ ڈاکٹرز قوتِ مدافعت بڑھانے کے چند دیسی نسخے بھی بتا رہے ہیں جن میں کلونجی اور میتھرے پانی کے ساتھ نگلنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ بھاپ زیادہ سے زیادہ لیں، اس کے ساتھ یخنی کا استعمال کریں، لیموں‘ ادرک اور شہد کا قہوہ پئیں۔ دھوپ میں ضرور بیٹھیں اور وٹامن سی والی چیزوں کا استعمال کریں۔
قرنطینہ کوئی آسان کام نہیں ہے، بیماری میں تنہائی انسان کو مزید توڑ دیتی ہے، اس لئے جو شخص بھی بیمار ہو‘ اس کو بالکل اکیلا مت کر دیں۔ اگر آپ اس سے مل نہیں سکتے تو کم از کم اس کے ساتھ فون اور انٹرنیٹ وغیرہ پر رابطے میں رہیں۔ بیماری میں تنہائی اور اپنوں کی بے رخی زیادہ تکلیف دیتی ہے، اس لئے سب کام چھوڑ کر اپنے اس پیارے کی خبر لیں جو بیمار ہے، اس کو توجہ دیں۔ توجہ اور ہمدردی سے آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے۔ کسی بیمار کو برا بھلا مت کہیں، ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی جان بوجھ کر بیمار نہیں ہونا چاہتا۔ یہاں پر میں اسلام آباد کے بڑے ہسپتال پمز کی تعریف کرنا چاہوں گی، میں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہی ہوں کہ اس ہسپتال پر مریضوں کا بہت بوجھ ہے لیکن ڈاکٹر اور پیرا میڈیک سٹاف پوری خوش دلی سے کام رہا ہے، ان کی کوشش ہے کہ تمام مریض بالکل ٹھیک ہو جائیں۔ کووڈ کے ساتھ دیگر مریضوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہے؛ تاہم ہسپتال میں لواحقین کے بیٹھنے کیلئے اس وقت بالکل جگہ موجود نہیں ہے، واش رومز کا حال بھی ابتر ہے۔ یہ کام انتظامیہ کا ہے کہ وہ صحت و صفائی کے اصولوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیک سٹاف اپنا کام بہت دیانتداری سے کر رہا ہے، ان کو ہر ممکن سہولت میسر کی جانی چاہیے۔
مارچ سے مارچ تک ہم سب نے بہت تکلیفوں کا سامنا کیا ہے، وبا ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہی۔ دکھ‘ سکھ‘ غم اور خوشی زندگی کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اس دوران میں نے یہی سیکھا ہے کہ اللہ کے سامنے اپنا سر جھکا دیں، بہت سکون ملتا ہے۔ اپنا آپ اپنے خالق کے سپرد کر دیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر بحیثیت قوم اللہ سے معافی بھی مانگی چاہیے، کیا پتا کس کی توبہ قبول ہو جائے اور ہم سب اس جان لیوا وبا سے نکل آئیں۔ معصوم بچوں سے کہیں کہ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھ دعا کیلئے اٹھائیں، شاید کہ اس قوم پر کرم ہو جائے۔ یہ کورونا بہت تکلیف دہ بیماری ہے اور جن کے پیارے اس بیماری میں دنیا سے چلے گئے ہیں‘ وہی اس غم کو بہتر جان سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے، آمین!