تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-07-2013

روتی ہے بھنور کی آنکھ

فتح کے یقین اور اعتماد کے ساتھ جو میدان میں اترتے ہیں، وہی کامیاب ہوتے ہیں ۔ ژولیدہ فکری کا جو شکار ہو جائیں ، ان کے لیے ظفر مندی کیسی ؟ اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی آخری نتیجہ کچھ بھی ہو ، یہ آشکا رہے کہ الطاف حسین نے بالغ نظری اور اعتماد کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ وہ ہیجان کا شکار ہیں اور پے درپے غلطیوں کے مرتکب ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح قانونی مزاحمت کی بجائے ،انہوں نے سیاسی راہ اختیار کی ہے ۔ بجا کہ جسٹس مولوی مشتاق حسین بھٹو سے کد رکھتے تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق جانتے تھے کہ بھٹو اگربچ نکلے تو ان کی خیر نہیں ۔ ایک طوفان تو یقینا انہوںنے اٹھا دیا مگر زندگی نہ بچ پائی ۔ زیرِ بحث سوال تو بہرحال یہی تھا کہ سابق وزیر اعظم ،احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوّث ہیں یا نہیں ۔ بعد میں پیپلز پارٹی کے رہنما ہاتھ ملتے رہے کہ انہوںنے غلط راستے کا انتخاب کیا ۔ سپریم کورٹ نے فقط ایک ووٹ کی اکثریت سے سزا بحال رکھی ۔ مقدمہ قرینے سے لڑ ا ہوتا تو پورا امکان تھا کہ ایک اورجج شاید ہموار ہو جاتا۔ ہماری پارٹیوں کا تمام تر دارومدار ایک آدمی پرہوتا ہے ۔ ملوکیت کے اثرات سے ہم چھٹکارا نہیں پا سکے ۔ نجات دہندہ کا تصور ہمارے ذہنوں میں بہت ہی گہرا ہے ’’کون بچائے گا پاکستان‘‘… ’’اصغر خان ‘‘، ’’کون بچائے گا پاکستان‘‘… ’’عمران خان، عمران خان‘‘۔ اصغر خان تیس برس سے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں ۔ اکتوبر 1977ء کے آخری ایّام تھے ۔ برسوں کے بعد خان صاحب نے سوٹ پہنا اور ٹائی لگارکھی تھی ۔ شہنشاہِ ایران سے مل کر وہ شادمان لوٹے تھے ۔ لاہور سے بھاگم بھاگ میں پہنچااور راولپنڈی میں ان سے ملاقات کی ۔ ناشتے کی میز پر اس اعلان کا مسوّدہ انہوںنے مجھے دیا جو سہ پہر پریس کانفرنس میں جاری کرنے والے تھے… پاکستان قومی اتحاد سے علیحدگی! مودبانہ عرض کیا: خان صاحب! نو جماعتی اتحاد دو حصوں میں بٹ کر باہم برسرِ پیکار ہو گا تو تمام تر توانائی ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو گی ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر سمیت آپ کے بعض لیڈر ابھی سے خلجان کا شکار ہیں ۔ وہ ایک فاتح کی ہنسی ہنسے اور یہ کہا: آپ دیکھئے گا، چند ہفتوں میں ہوتا کیا ہے ۔ اکسٹھ سال کی عمر کا آدمی، جو اپنی صحت مندی اور تازگی سے چالیس کا نظر آتا تھا ، کامیابی کے نشے سے مخمورتھا۔ وہ اسے دہلیز پر دھری دکھائی دیتی تھی ۔ حالیہ الیکشن سے قبل عمران خان بھی کم و بیش ایسے ہی سرشار تھے ۔ میں ان سے کہتا : خان صاحب! گوجر خان میں ایسے امیداروں کو آپ ٹکٹ دے رہے ہیں ، جنہیں کوئی جانتاہی نہیں ۔ اسلام آباد سے ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے ۔ ڈھنگ کے کسی آدمی کو بھیجئے ۔ سرِ راہ دس بیس آدمیوں سے بات کرے تو حقیقت کھل جائے گی۔ میری باتیں سن کر وہ پریشان ہو جاتے ۔ کہتے : اچھا ، ٹھیک ہے ، کوئی راہ نکالتا ہوں ۔ آخر کار خود ان کی آمادگی پر ، پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملاقات کا بندوبست کیا۔ پروفیسر صاحب کو اس طرح کی چیزوں سے کم ہی دل چسپی ہوتی ہے ۔ پھر بات کریں توخود کو دلیل تک وہ محدود رکھتے ہیں ۔ اصرار ان کے مزاج میں نہیں۔ انہوںنے کہا: ووٹ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک پارٹی اور دوسرے امیدوار کے ۔اچھے امیدواروں سے آپ بے نیاز نہیں ہو سکتے ۔ ہارون الرشید جن لوگوں کی بات کرتاہے ، وہ محترم اور مقبول ہیں ۔ عوام میں گھل مل جانے والے ہیں اور حلقہ ٔ انتخاب میں حرکت پیدا کر سکتے ہیں ۔ عمران خان مان گئے : بالکل ٹھیک ہے پروفیسر صاحب ، بالکل ٹھیک۔ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں ، مجھے اس سے اتفاق ہے ۔ کسی نے یہ بات اس طرح مجھے سمجھائی نہ تھی ۔ ضرور انہیں ٹکٹ دیا جائے گا۔ اس کے سوا بھی کوئی حکم ہے ؟ ہارون الرشید سے کہیے ، علیم خاں کو نظر انداز کردے ۔ مسکراتے ہوئے دونوں کمرے سے باہر نکلے اور یہی بات مجھ سے کہی ۔ سوچا : ٹنٹنا ختم ہوا۔ اب دوسرے ضروری کام نمٹا ئے جا سکتے ہیں ۔ ٹکٹوں کا اعلان ہوا تو بالکل برعکس۔ ناراضی کی ایک بے کراں لہر اٹھی ۔ گوجر خاں میں تحریکِ انصاف کے امیدوار کو گنتی کے ووٹ ملے۔ برہم ہو کربا رسوخ حامیوںنے فیصلہ کیا کہ راجہ پرویز اشرف کی فتح گوارا کرنے سے بہتر ہے کہ نون لیگ کی حمایت کر دی جائے ۔ اخبار اور ٹیلی ویژن پر جیسے ہی میں نے رائے دی ، ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ تین چار دن تک یہی عالم رہا۔ٹی وی میزبانوں اور کالم نگاروں نے مصرعہ طرح پر کیسی کیسی گرہ لگائی ۔ آخری وقت میں ، میں نے صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کی اور پروفیسر صاحب کی ناراضی کا خطرہ مول لے کر ۔ ان کے چار پانچ لاکھ پڑھے لکھے ، معززاور تربیت یافتہ شاگردوں کے بیشتر ووٹ تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو مل ہی گئے ، وگرنہ صورتِ حال بدتر ہوتی ۔ خوشامدیوں کے لیڈر سے جب بعد میں پوچھا گیا تو اس نے یہ کہا: ہارون الرشید کی وجہ سے ہم ہار گئے۔ جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کی رٹ تو بہت لگائی جاتی ہے مگر یدھ میںپارٹی میں کارکن کھل کر بات کیوں نہیں کرتے ؟ غلط فیصلے جب صادر ہوتے ہیں تو وہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیوں نہیں کرپاتے ؟ یہ سوال میں نے تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلا س میں پوچھا ، جب کھانے کا وقفہ تھا۔ کسی کے پاس جواب نہ تھا۔ جاوید ہاشمی سمیت سب کی خواہش یہ تھی کہ میں چپ ہو جائوں۔ کیسے میں چپ ہو جاتا اور کیوں ؟ مرعوبیت انسانی ذہن کی قاتل ہے ۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کند کر دیتی ہے ۔ الطاف حسین کا فرمان ہے کہ انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ ان کی دشمن ہو گئی ہے ؟ ارے بھائی، کس بات پر ؟ اس خطّۂ ارض میں ان کا ایجنڈہ القاعدہ کو تحلیل کرنا ہے ۔ طالبان اور پاکستان میں ان کے نام پر بروئے کار دہشت گردوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے وہ ہر ممکن تدبیر پرتلے ہیں ؛حتیٰ کہ ڈرون حملے ۔ پاکستان ہی نہیں ، افغانستان کے برسرِ اقتدار ٹولے اور مغرب میں بھی جن کی تائید برائے نام ہے ۔ پاک بھارت مراسم کو ایک خاص ڈھب پر لانے کے لیے وہ سرگرم ِعمل ہیں۔ ان میں سے کس چیز کی ایم کیو ایم نے کبھی مخالفت کی ؟ پاکستانی میڈیا پہ الطاف حسین برہم ہیں ۔ خود اس ناچیز کے بار ے میں اس شب ہنگامہ خیز اجلاس میں نازیبا الفاظ برتے گئے جو بعض چینلوں سے نشر بھی ہو گئے ۔ یہ میڈیا وہ ہے جو برسوں الطاف حسین کی حمایت کا طعنہ سنتا رہا ۔ بوجوہ اب بھی اس قدر محتاط کہ کسی دوسری پارٹی کے بارے میںکبھی نہ رہا۔ رانا ثنا ء اللہ کہتے ہیں کہ الطاف حسین ضرور عمران فاروق قتل میں ملوّث رہے ہوں گے ۔ اس پارٹی کی روایت یہی ہے ۔ کسی ایک بھی اخبار نویس نے یہ بات نہ کہی۔ اس پر بھی ایسا اشتعال؟ خود الطاف حسین کی طرف سے اس اعلان کے بعد کہ برطانوی حکومت انہیں قتل کرا سکتی ہے ، اخبار نویس خاموش کیسے رہ سکتے ہیں ۔ فرض کیجئے ، ہو جائیں تو سوشل میڈیا کا علاج کیا؟ پھر یہ کیسی عجیب بات ایم کیو ایم کے لیڈر نے کہی کہ عدالت میں اپناوکیل وہ پیش نہ کریں گے ۔ اپنا مقدمہ وہ خود لڑیں گے۔ واضح طور پر ایم کیو ایم کی قیادت مخمصے کا شکار ہے ۔ کبھی برطانوی پولیس اورعدالتوں پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے اور کبھی یکسر عدم اعتماد ۔ کوئی الزام ثابت توہوا نہیں‘ ابھی سے یہ عالم کیوں ہے ؟ وہ اس نکتے پر کیوں غور نہیں کرتے کہ کبھی جو اخبار نویس شدّو مد سے ان کی حمایت کیا کرتے ، آج خاموش کیوں ۔ الطاف حسین کا دفاع کرنے سے کیوں انہوںنے انکار کر دیا؟ فتح کے یقین اور اعتماد کے ساتھ جو میدان میں اترتے ہیں، وہی کامیاب ہوتے ہیں ۔ ژولیدہ فکری کا جو شکار ہو جائیں ، ان کے لیے ظفر مندی کیسی ؟ اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved