دانش کے کئی تقاضے ایسے ہیں جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اپنے لیے مصیبت کا سامان کرتا ہے۔ دانش کا ایک بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے وسائل، صلاحیت اور سکت کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ ایسی زندگی ہر اعتبار سے معقول اور متوازن ہوتی ہے۔ آسرے تلاش کرنے کی ذہنیت انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ پاکستانی معاشرے میں دوسرے بہت سے عیوب کی طرح آسرا پسندی اور آسرا طلبی کا عیب بھی غیر معمولی حد تک سرایت کرچکا ہے۔ عمومی نفسی ساخت میں یہ عیب پیوست ہوچکا ہے۔ عام آدمی اپنے مسائل سے ہار مان کر جیتا ہے۔ فلموں اور ڈراموں کے مصنفین اس نفسی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو بہت پریشان ہے اور حالات کو شکست دینے کی پوزیشن میں آہی نہیں پارہا۔ ایسے میں کہیں سے کوئی آتا ہے اور اُسے سہارا دیتا ہے۔ راتوں رات سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اگر کوئی نہ آئے تب بھی حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ تمام پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ایسا دور شروع ہوتا ہے جس کا ہر لمحہ خوشیوں اور آسائشوں سے مزین دکھائی دیتا ہے۔ عام آدمی جب فلموں میں مشکلات کا خاتمہ دیکھتا ہے تو سوچنے لگتا ہے کہ حقیقی زندگی میں بھی ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے کہ سنیما کی سکرین پر اُس نے جو کچھ بھی دیکھا‘ وہ فرضی دنیا ہے، محض کہانی اورفکشن۔ فکشن میں کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ذرا سا قلم چلانے سے کوئی بھی کام ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ کہانی میں کسی غریب کو راتوں رات ارب پتی بنتے بھی دکھایا جاسکتا ہے۔ حقیقی دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اِس دنیا میں ہر تبدیلی انسان کو نچوڑنے پر تُلی رہتی ہے۔ اس دور میں حقیقت اور فکشن ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوچکے ہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی انسان خود کو فکشن سے الگ نہیں کر پاتا اور حقیقت کی دنیا انتہائی سفاک ہے۔ اِس دنیا میں صرف صلاحیت، سکت اور محنت کا سکہ چلتا ہے۔ کوئی لاکھ کوشش کر دیکھے، حقیقت کی دنیا میں کسی بھی موڑ پر کوئی رعایت نہیں دیتی۔ کہانیوں کی دنیا میں ہمیں ایسے رحم دل لوگ ملتے ہیں جو کسی پر ترس کھاکر اُس کی زندگی بدلنے کا سوچتے ہیں، حقیقت کی دنیا میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ لاکھوں میں کوئی ایک فرد ایسا ہوتا ہے جسے زندگی بدل دینے والے حالات آسانی سے نصیب ہو پاتے ہیں۔
عام آدمی کی نفسی ساخت میں یہ بات پیوست ہوچکی ہے کہ کبھی نہ کبھی اچانک کچھ ایسا ضرور ہوگا جو اُس کی تمام مشکلات دور کردے گا اور زندگی کو دائمی مسرت کی راہ پر ڈال دے گا۔ نفسی ساخت میں پیوست ہو جانے والی یہ ''آسرا پسندی‘‘ انسان کو حقیقت پسندی اور عمل نواز طرزِ فکر و عمل سے دور کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ آسرا پسندی ہی تو ہے جس کے باعث انسان اپنے زورِ بازو کے ذریعے کچھ کرنے سے زیادہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور تمام مسائل حل کرنے میں مدد کرے گا۔ عقل و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سب سے بڑھ کر اپنے وجود پر بھروسا رکھے اور جب اپنے وجود پر بھروسا رکھنے کا مزاج پنپ جائے تو کسی اور کی ضرورت ہی کہاں باقی رہتی ہے؟ کسی بھی معاشرے میں بہتر زندگی بسر کرنے والوں کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے گا تو پائیے گا کہ وہ اپنے زورِ بازو ہی کی مدد سے کچھ بن پائے ہیں۔ کسی کا انتظار انسان کو محض تساہل پسند بناتا ہے، بے عملی کی طرف دھکیلتا ہے۔
آج اگر پاکستانی معاشرے کی نچلی سطح کا جائزہ لیں تو کروڑوں افراد اپنی صلاحیت و سکت میں اضافے کے ذریعے بہتر زندگی یقینی بنانے سے کہیں زیادہ توجہ اس بات پر دیتے ہیں کہ کہیں سے کوئی آئے اور معاملات درست کردے۔ معاملات درست کرنے میں فیصلہ کن حد تک مدد کرنے والا کسی کسی کو ملتا ہے یعنی لاکھوں میں چند ہوتے ہیں جو اس طور اپنے معاملات درست کر پاتے ہیں، اپنے مسائل حل کرنے میںکامیاب ہوتے ہیں۔ آسرے تلاش کرنے کی روش پر عام آدمی تو عام آدمی، ہماری حکومتیں بھی گامزن رہی ہیں۔ جب مسائل بڑھ جاتے ہیں تو اُنہیں حل کرنے کی حقیقی تگ و دَو کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے عالمی اداروں سے امداد مانگنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ یہ روش جب اعلیٰ ترین سطح پر اپنائی جائے گی تو عام آدمی بھلا کیوں متاثر نہ ہوگا؟ ہمارے ہاں حکومتوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے امداد اور قرضے لے لے کر معاملات کو مزید الجھایا ہے۔ عام آدمی دیکھتا ہے کہ بیرونی امداد سے بھی کچھ نہیں ہوتا یعنی مسائل حل ہونے اور زندگی کو آسان بنانے کا نام نہیں لیتے مگر پھر بھی وہ کوئی سبق نہیں سیکھتا اور وہی روش اپناتا ہے جس پر حکومتیں گامزن رہتی ہیں۔
لکھنے والوں پر لازم ہے کہ وہ قوم کو ایسی تحریورں کا تحفہ دیں جن کی مدد سے زندگی کو زیادہ بامقصد انداز سے اور عزتِ نفس برقرار رہتے ہوئے بسر کرنا ممکن ہو۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ عام آدمی کی ذہنی تربیت کی جائے، اُسے سمجھایا جائے کہ اُس کے مسائل در حقیقت اُسی وقت حل ہوسکیں گے جب وہ خود ایسا کرنے کی کوشش کرے گا۔ کوئی اور اُس کے لیے اگر کچھ کر بھی سکتا ہے تو اُس کی ایک حد ہے۔ وقتی طور پر تھوڑی سی مدد مل جانے سے اُس خاص وقت یا موقع کو سنبھالا جاسکتا ہے، زندگی بہرحال نہیں گزاری جاسکتی۔ ہر انسان کو زندگی بھر گوناگوں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسائل صرف اس کی زندگی میں تو یہ سوچ بالکل بے بنیاد ہے۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جن کے پاس بہت دولت ہے اُن کی زندگی میں مسائل نہیں۔ ایسا نہیں ہے! ہر انسان کو اپنی مالی اور سماجی حیثیت کے مطابق مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قدرت کے اُس کلیے کی دستبرد سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ سوال صرف نوعیت کا ہے۔ جن کے پاس دولت ہے اُن کے مسائل کی نوعیت مختلف ہے۔ عام آدمی چونکہ مالی مشکلات کا شکار رہتا ہے اِس لیے اُس کی نظر میں ہر وہ انسان اچھا ہے جو اُس کی مالی مشکلات دور کرنے میں مدد کرے۔ جن کے پاس بہت دولت ہوتی ہے اُن کے مسائل چونکہ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اس لیے انہیں مدد بھی مختلف نوعیت ہی کی درکار ہوتی ہے۔
معاشرے کی الجھنوں کے بارے میں چاہے جتنا بھی سوچیے، گھوم پھر کر معاملہ اپنے وجود تک آتا ہے۔ انسان اگر معیاری زندگی بسر کرسکتا ہے تو صرف اپنے زورِ بازو کی مدد سے۔ کسی بھی انسان کو جتنے بھی مسائل درپیش ہوتے ہیں اُن کا حل گھوم پھر کر اُس کی ذات سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ سوچنا کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور ہمارے تمام مسائل حل کرکے ہمیں پُرسکون اور خوش حال زندگی کی طرف گامزن کرنے میں مدد دے گا محض خام خیالی ہے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ ہم جب کسی سے کچھ پانے کی امید رکھیں تو سوچیں کہ اُس کی زندگی میں بھی تو کچھ نہ کچھ مسائل ہوں گے۔ ایسے میں قرینِ دانش یہی ہے کہ انسان اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پر متوجہ رہے۔ قدرت کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور کام کرنے کی سکت یعنی توانائی میں اضافے کے ذریعے ہر انسان اپنے بہت سے مسائل حل کرسکتا ہے۔
اپنے مسائل اپنے زورِ بازو سے حل کرنے کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ انسان عزتِ نفس برقرار رکھنے پر توجہ دے۔ کسی سے غیر ضروری طور پر کچھ مانگنا غیرت یعنی عزتِ نفس کے منافی ہے۔ پھیلایا ہوا ہاتھ انسان کو اپنی ہی نظر میں تھوڑا بہت ضرور گراتا ہے۔ دوسروں سے اُمیدیں وابستہ کرنے کی صورت میں انسان اپنے وجود سے مستفید ہونا بھول جاتا ہے۔ آسرے تلاش کرنے کی عادت انسان کو تساہل یعنی کاہلی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسی حالت میں ذات کو زنگ لگ جاتا ہے۔ سوچنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے تو عمل کا جذبہ بھی سرد پڑتا جاتا ہے۔ یوں اچھا خاصا باصلاحیت انسان بھی کنویں کے مینڈک کی طرف ہو جاتا ہے یعنی ایک خاص حد تک ہی دیکھ پاتا ہے، اپنے وجود سے زیادہ استفادہ یقینی نہیں بنا پاتا۔