تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-03-2021

کیا عجیب ملک ہے

سچ تو یہ ہے کہ یہ بات 23 مارچ کی وجہ سے میرے دل میں پھانس بن کر چبھی ورنہ میں اب ایسی باتوں کو بس تھوڑی دیر کے لیے ہی دل پر لیتا ہوں اور پھر نظر انداز کر دیتا ہوں۔ اس کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں کہ مجھے پاکستان عزیز نہیں یا میں بے حس ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ اب اس سلسلے میں مجموعی قومی بے حسی کو دیکھتے دیکھتے اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ ایسی باتوں پر دل جلانا اور کڑھنا صرف اور صرف اپنا ہی نقصان ہے۔ کسی پر اس بات کا رتی برابر اثر نہیں ہو رہا تو ایسے میں ان فضولیات کو نظر انداز کرنے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ سو ایسی حرکتوں اور باتوں کو ذہن سے جھٹک کر کوشش کرتا ہوں کہ اپنے کام اور ذمہ داری کو ایمانداری سے سرانجام دوں۔
ایک دوست پریشان بیٹھا تھا۔ جب اس سے دوسرے دوست تے وجۂ پریشانی پوچھی تو وہ اسے حکومت کی حماقتیں اور خرابیاں بتانے لگ گیا۔ ساری بات سن کر وہ دوست اسے کہنے لگا: کیا یہ ساری خرابیاں تم نے پیدا کی ہیں؟ جواباً پہلے دوست نے انکار میں سر ہلایا۔ پھر اسی دوست نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ان خرابیوں اور حماقتوں میں کسی حد تک حصہ دار ہے؟ جواباً پھر انکار سننے کو ملا۔ آخر میں پوچھنے لگا: کیا تم یہ خرابیاں ٹھیک کر سکتے ہو؟ اس دوست نے پھر انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہاکہ میں یہ خرابیاں دور بھی نہیں کر سکتا۔ اس پر وہ دوست بڑے اطمینان سے کہنے لگا: تو پھر تم پریشان کیوں ہو؟ نہ تم ان خرابیوں کے ذمہ دار ہو، نہ حصے دار ہو اور نہ درست کر سکتے ہو تو پھر تمہیں پریشانی کیا لاحق ہے؟ ایسے میں تم صرف یہ کر سکتے ہو کہ جس حد تک ان خرابیوں کی روک تھام میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہو ڈالو۔ اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے بہتری کے لیے جو کر سکتے ہو کرو۔ عملی طور پر جس حد تک، جو کچھ کر سکتے ہو! کرو۔ اور پھر اطمینان رکھو کہ تم نے اپنا کام اور فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے۔
جو تمہارے بس میں نہیں، اس پر صرف کڑھنے، پریشان ہونے، افسردہ رہنے اور غمزدہ ہونے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ‘ لہٰذا یہ کام چھوڑو اور اپنی حد تک جو کرتے ہو وہ کرو‘ اور رات کو مطمئن ہو کر سو جائو کہ تم نے اپنا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دے دیا ہے۔ تم سے سوال صرف تمہارے ذاتی اعمال کا، تمہارے زیرِ کفالت لوگوں کا، تمہارے دائرۂ کار کے اندر تمہارے افعال کا اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دی گئی صلاحیتوں اور اختیارات کے مطابق ہوگا۔ جو چیز تمہارے بس سے باہر ہے اور تمہاری Domain میں نہیں ہے اس کے بارے میں نہ تو تم سے سوال ہو گا اور نہ ہی تم اس کے لیے جوابدہ ہو گے۔
سو یہ عاجز اپنے دائرۂ کار اور اپنی Domain کے اندر رہتے ہوئے حتی المقدور کوشش کرتا ہے کہ روز محشر اپنے مالک کے روبرو کم از کم بے ایمان ہونے کے جرم میں نہ کھڑا ہو۔ اس گنہگار کو یہ بھی ادراک ہے کہ روز حساب صرف اور صرف اس رحیم کے کرم کے صدقے بخشش ممکن ہے وگرنہ انصاف کے تقاضے پورے ہونے لگے تو سوائے تہی دامنی کے اور کچھ زاد راہ نہ ہوگا۔ کہاں ہم، اور کہاں ہمارے اعمال۔ لیکن کوشش ہے کہ کم از کم اپنے پیشے کے حوالے سے خائن اور بے ایمان نہ ٹھہروں۔
قارئین! نہایت ہی معذرت کہ بات کہیں کی کہیں چلی گئی‘ لیکن میرا خیال ہے جو قارئین مجھے کچھ عرصے سے پڑھ رہے ہیں ان کو بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ میں اکثر اسی طرح بہک کر کہیں اور نکل جاتا ہوں، اور وہ اب کسی طور اس کے عادی بھی ہو چکے ہوں گے؛ تاہم کیا کروں؟ عادت اپنی جگہ اور معذرت اپنی جگہ۔ لگتا ہے دونوں کام اسی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے‘ بلکہ لگے ہاتھوں قارئین سے پیشگی معذرت بھی طلب کروں گا کہ وہ مجھے اس پر معاف کر دیں کہ میں یقینا آئندہ بھی یہی کچھ کرتا رہوں گا۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے، عادتیں سروں کے ساتھ ہی جاتی ہیں یعنی جب تک زندگی ہے، عادتیں قائم رہتی ہیں۔
بات 23 مارچ یعنی قراردادِ پاکستان والے دن کے حوالے سے تھوڑی زیادہ محسوس ہوئی۔ بات گو نئی نہیں ہے اور اب ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں میں لیڈروں سے ذاتی وفاداری جس حد کو چھو رہی ہے اس کو سامنے رکھوں تو یہ بات نہ تو نئی ہے اور نہ ہی شاید غیر معمولی۔ ہماری سیاست میں لیڈروں کی ذات سے وفاداری غلامی کے قریب قریب والے درجے تک پہنچ چکی ہے۔ دو تین روز قبل مریم نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ نواز شریف کے خلاف بات کرنے والے کی زبان کھینچ لی جائے گی۔ سچ پوچھیں تو مجھے بیان پر افسوس ہوا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اس بیان کا 23 مارچ سے کیا تعلق ہے؟
کیا عجیب ملک ہے جہاں نواز شریف کے خلاف بات کرنے والے کی زبان کھینچنے کا بیان آتا ہے۔ کیا عجیب ریاست ہے جہاں بھٹو خاندان کے خلاف بات کرنے والے کی زبان کھینچنے والے جانثار اور جیالے موجود ہیں اور جہاں مولانا فضل الرحمن کی ذات بارے کچھ کہنے والے راندہ درگاہ ہیں اور جہاں عمران خان کو کچھ کہا جائے تو عاشقانِ عمران خان کے تن من میں آگ لگ جاتی ہے‘ لیکن پاکستان کے خلاف کوئی دشنام طرازی کرے تو لبرل داد کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ جہاں شیخوپورہ کا گیس چور اور تین عشروں میں ککھ پتی سے ارب پتی ہونے والا سیاسی غلام یہ کہتا ہے کہ اگر میری لیڈر کو کچھ ہوا تو وہ 'پاکستان کھپے‘ نہیں کہے گا۔ ظاہر ہے اپنے لحاظ سے ٹھیک ہی کہا۔ اسے پاکستان نے دیا ہی کیا ہے؟ کوٹ رنجیت سنگھ شیخوپورہ کے اس رہائشی کے پاس سیاسی غلامی سے قبل تو صرف دو ایکڑ زمین تھی۔ یہ دو ایکڑ بھی اس کا آبائی وراثتی رقبہ تھا۔ اس کی ذاتی ملکیت شاید دو چار کنال ہی ہو گی۔ جب تک وہ محض پاکستانی تھا اس کا کل کاروبار جناح پارک میں گارمنٹس کا ٹھیلا تھا۔ سیاست میں آنے کے بعد ہی اسے سارا رنگ لگا۔
جعلی کرنسی اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مقدمہ اسی وفاداری کے عوض گول ہوا۔ فلور ملز اور سی این جی سٹیشنوں کی بھرمار بھی اسی وفاداری کے طفیل ہوئی۔ گیس چوری پر الٹا ریڈ کرنے والی ٹیم کو اسی ذاتی وفاداری کے زور پر معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں جو کچھ بھی ملا ہے اسی ذاتی وفاداری کے عوض ملا ہے پاکستان نے انہیں دیا ہی کیا تھا؟ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں رنگ لگانے والوں کو بذات خود سارا رنگ اس مملکت خداداد کے طفیل ملا وگرنہ امرتسر کے نواحی گائوں میں جو حال تھا وہ ادھر اُدھر سے ہم کئی بار سن چکے ہیں۔
آپ ملکی تشخص کا مذاق اڑا سکتے ہیں‘ کوئی آپ کی زبان نہیں کھینچتا۔ آپ مملکتِ خداداد کی تخلیق کے بارے میں جو جی میں آئے کہہ سکتے ہیں‘ آپ ریاست کے خلاف دشنام طرازی کر سکتے ہیں۔ آپ اداروں کے خلاف یاوہ گوئی کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں۔ نظریہ پاکستان کا مذاق اڑا سکتے ہیں۔ اس ملک کے قیام کو گناہ کہہ سکتے ہیں‘ کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ کوئی زبان کھینچنے کی بات نہیں کرتا۔ کسی کے پیٹ میں مروڑ نہیں اٹھتا۔ جونہی آپ ان کے کرپٹ، لٹیرے، چور، مفرور، جھوٹے اور اقتدار کے بھوکے لیڈروں کے بارے میں کچھ کہنے کی جرأت کریں آپ کی زبان کھینچنے والے میدان میں آ جاتے ہیں۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے، کسی اور ملک میں کوئی ایسی بات کرے تو لوگ اس کی زبان کھینچ لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved