کچھ دنوں سے ایک کتاب میری میز کے دائیں کونے میں رکھی ہوئی مجھے کن انکھیوں سے دیکھتی رہتی ہے۔ میں بھی وقتاً فوقتاً چوری چوری اسے دیکھتا ہوں اور نظریں چار ہونے سے پہلے دوسری طرف دیکھنے لگتا ہوں۔ ایک احساس سا ہے کہ اس کتاب کا اور مصنفہ کا حق میں نے ادا نہیں کیا۔ جلد ان سے ملاقات کی خواہش بھی تھی اور ضروری بھی تھی مگر یہ ملاقات زندگی کے دوسرے دھندوں کی نذر ہوکر رہ گئی۔ لگتا ہے زندگی کے معمولات نے خواہش کو پیچھے دھکیل دینا معمول ہی بنا لیا ہے۔
سلمیٰ اعوان نے جب یہ کتاب ''عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ مجھے بھیجی تو کتاب ایک نظر دیکھنے تک میں یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ بھی اس بنجارن کا ایک اور سفرنامہ ہے‘ اور پڑھنے پر محسوس ہوا کہ زیادہ غلط بھی نہیں سمجھا تھا۔ بنجارن کا لفظ سلمیٰ اعوان پر جچتا ہے۔ ان کے پاؤں میں چکر ہے جو بنجارن کو قرار نہیں لینے دیتا۔ سالہا سال پہلے کی بات ہے‘ میں ادب کی دنیا میں نووارد تھا۔ گندمی رنگ کی اس خاتون سے کسی محفل میں پہلی بار مکالمہ ہوا۔ سادہ، بے تصنع، دیسی، بے غرض اور بے ضرر خاتون جو بناوٹی، مفاد پرست، پُرفریب اور زہر میں بجھے لوگوں میں علیحدہ نظر آتی تھی۔ بات چیت ہوئی تو لگا‘ میرے لیے محبت سلمیٰ اعوان کے دل سے نکل رہی ہے؛ چنانچہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ محبت بھی بڑی بہنوں اور آپاؤں جیسی۔ میں نے سلمیٰ اعوان کو کبھی آپا یا باجی نہیں کہا‘ نہ کہنے کا ارادہ ہے لیکن ان کی محبت کی چاشنی کا دل میں عنوان بہرحال یہی ہے۔ میں جب بھی سلمیٰ اعوان سے ملا یا ان سے فون پر بات ہوئی محبت کے اس نیلگوں غلاف نے مجھے ڈھانپ لیا۔
رسالوں اور جریدوں میں سلمیٰ کی تحریریں پڑھی تو حیرت ہوئی۔ ہمارے معاشرے میں ذاتی، سماجی، معاشی، تدریسی اور انتظامی مسائل متوسط گھرانے کی ایک عورت کو کب یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے سیروسفر کے شوق کی تکمیل کرسکے یا ناول، افسانے اور سفرنامے تحریر کرسکے۔ یہ تمام مسئلے سلمیٰ اعوان کے ساتھ بھی تھے لیکن جب اور جتنا موقع ملا وہ نکل کھڑی ہوئیں۔ کبھی تنِ تنہا، کبھی سہیلیوں کے ساتھ۔ مصر، روس، عراق، ترکی، سیلون، بھارت، اٹلی، شام، چترال، گلگت، ہنزہ، سکردو۔ یہ سلمیٰ اعوان کے چند پڑاؤ ہیں جہاں انہوں نے خیمہ لگایا اور اپنے مشاہدات لکھ ڈالے۔ سلمیٰ کی تحریر میں وہی بات ہے جو ان کی شخصیت میں ہے یعنی سادہ، بے تصنع، رواں اور پُرتاثیر۔ دونوں جہات میں آورد کا نشان بھی نہیں۔
اس سیروسفر اور مطالعے نے سلمیٰ اعوان کی زندگی کو بہت زرخیز کیا۔ محبت کے رنگ ان کی ذات میں اور پھیل گئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم کیلئے گزارا ہوا وقت اور بنگال کا جادو آج بھی بنجارن کے خون میں گردش کرتا ہے۔ ان کا لکھا ہوا دیکھا تو تعجب ہواکہ ان کے علاوہ عہدِ حاضر میں کم کم کسی خاتون تخلیق کار نے اتنا لکھا ہوگا۔ کم و بیش پچیس کتابوں کی مصنفہ نے زندگی کے تاریک اور روشن پہلوؤں کو قریب سے دیکھا، برتا، چکھا اور پھر کاغذ پر اتار دیا ''بیچ بچولن‘‘ اور ''شیبا‘‘ ا ن کے ناولوں میں وہ دو نام ہیں جو ذہن پر مرتسم رہتے ہیں۔
''عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ یوں تو دنیا بھر کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے سوانحی خاکوں، ادبی، سیاسی نظریات اور تخلیقات کے تعارف پر مشتمل کتاب ہے‘ لیکن سلمیٰ اعوان کے ذوقِ سفرنامہ نگاری نے اسے اپنی پُرلطف تحریر کے ساتھ گوندھ کر اس طرح یک جان کردیا ہے کہ اس ملک یا شہر کا منظر بھی سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ اور بات صرف ان ناموروں کی نہیں، دمشق کا احمد فاضل اور زکریا محمد کبرت، پیٹرزبرگ کی ساشا، ماسکو کی داشا، ڈھاکہ کی حبیب فاطمہ، بغداد کا افلاق اور بے شمار گمنام کردار بھی آپ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور پس منظر میں موجود رہتے ہیں۔ منظر نگاری، مشاہدہ اور کیفیت کی ترسیل ہمہ وقت ساتھ ساتھ۔ ذرا دیکھیے۔ یہ ابونواس نامی شاعر کا 780عیسوی کا بغداد ہے اور ہارون الرشید کی سلطنت۔
''شام کی سنہری کرنوں میں خلیفہ کا محل، دجلہ کے پار برامکیوں کے شاندار محل، فن تعمیر کے وہ نادر نمونے جو بندے کو رک کر دیکھنے پر مجبور کرتے تھے۔ باغ میں دنیا جہان کے درختوں کی نادر قسمیں۔ کیاریوں میں کھلے سینکڑوں اقسام کے پھولوں کی مہکار، جھاڑیوں کی قطع برید۔ کہیں سانپوں، شیروں، چیتوں، موروں کی صورت باغ بانوں کی فنکاری کے عکاس۔ گھاس کے قطعات میں موتی بکھیرتے حوض، جن میں ناچتی مچھلیاں۔ دجلہ کے اوپر مرغابیوں کی ڈاروں کو پر پھڑپھڑاتے ہوئے قطاروں کی صورت اڑتے شام کی زرنگار کرنوں میں دیکھنا۔ واللہ کس قدر دل خوش کن منظر تھا۔‘‘
''میں بک گائیڈ ہاتھ میں پکڑے پکڑے استقبالیہ پر چلی گئی۔ وہاں پرہر دوسرے دن ایک نئی لڑکی ہوتی۔ آج کو کھڑی تھی وہ پونے چھ فٹی سرو کے بوٹے جیسی قامت والی تھی۔ اس کی صراحی دار گردن پر جو سر ٹکا تھا اس پر ایک گلاب چہرہ سردیوں کی چاندنی راتوں کی طرح سنجیدہ اور اداس سا جھلملاتا تھا۔ ایک تو مجھے ان روسی لڑکیوں کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کم بختیں مسکراہٹ کیلئے اتنی کمینی اور کنجوس کیوں ہیں؟ منحوس ماریاں کلیوں کے اس چٹکاؤ کو سات تالوں میں قید کیوں رکھتی ہیں؟ بھلا اس پر کوئی زور خرچ ہوتا ہے، کوئی پیسہ لگتا ہے؟ کون انہیں سمجھائے کہ باچھوں کو ذرا سا کھول دینے سے ان کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔‘‘
دیکھی آپ نے زبان کی روانی اور بے تکلفی؟
روم کے اس کمرے کا حال جہاں جوان مرگ شاعر جان کیٹس نے زندگی کے آخری دن گزارے۔ ''ode to a nightingale‘‘ اور ''ode on a grecian urn‘‘ والا کیٹس۔
''کمرہ اس وقت کتنا چمکتا دمکتا ہے۔ کھڑکی کے پردے کھنچے ہوئے ہیں۔ ڈیتھ ماسک سامنے دیوار پر آویزاں ہے۔ ساتھ ہی چھوٹا سا شوکیس سجا ہے۔ ذرا فاصلے پر ایک بڑا شوکیس اور آتش دان ہے۔ تب یہ کمرہ یقینا ایسا شاندار تو نہ تھا۔ عام سی دیواروں، چھت اور کھڑکی والا تھا۔ گلاب کے پھول بکتے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتا تھا۔ پھول تو آج بھی ہیں۔ یہ ہاتھوں میں ہاتھ دئیے جوڑے اس وقت بھی تھے جب نومبر کی سنہری اترتی شاموں میں وہ اپنے اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اتر کر سیر کیلئے بورگیز باغ میں جاتا۔ تب نیلے آسمان پر پرندوں کی اڑانیں دیکھتے ہوئے کبھی اس کا دل غم سے بھر جاتا اور کبھی امید اسے خواب دکھانے لگتی۔‘‘
کیسے کیسے چہرے ہیں اس کتاب کے چہرے میں۔ نزار قبانی، مونا عمیدی، بورس پاسترک، الیگزنڈر پشکن، لیو ٹالسٹائی اور صوفیہ ٹالسٹائی، دوستووسکی اور اینا دوستووسکی، مولانا جلال الدین رومی، یونس ایمرے، رابندر ناتھ ٹیگور، سعدی یوسف، ابو نواس، جرٹروڈ بیل، جان کیٹس، گوزیوکاردوسی اور محمود درویش جیسے لوگ۔ پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر۔
سلمیٰ اعوان کے سفرنامے پڑھیں تو وہ گلیوں، محلّوں، مکانوں اور طعام گاہوں سے عام کردار اٹھا لیتی ہیں۔ یہ کردار تاریخی، جغرافیائی، ادبی اور تہذیبی حوالوں سے بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ سلمٰی تو بس ان کرداروں سے گفتگو آپ تک پہنچاتی ہیں۔ 'عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘ میں بھی سلمیٰ نے ان بڑے کرداروں سے باتیں کی ہیں۔ لکھنے والوں کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا ہے اور پڑھنے والے کو دکھایا ہے۔ ایک اضطراب، ایک بے کلی۔ ایک بے قراری سب میں مشترک ہے۔ چاہے وہ عراق کا سعدی یوسف ہو یا روس کی صوفیہ ٹالسٹائی۔ اظہار کے پیرائے کتنے مختلف ہوتے ہیں لیکن کتنے یکساں۔ طبیعت آزاد چہکتے پرندوں کی، مقدر بنجاروں کا۔
سلمیٰ! کیسے کیسے بڑے لوگوں سے ملاقات کرا دی آپ نے۔ کتاب بند کی تو دل نے سرشار ہوکر کہا: اللہ آپ کو آزاد پرندے کی طرح چہکتا رکھے اور بنجارن کو سیلانی طبیعت اور رزقِ سفر میسر رہے۔ آمین!