تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     25-03-2021

شعبان المعظم اور شبِّ برأ ت…(1)

شعبان المعظم اسلام کی رو سے ایک مقدّس اور متبرک مہینہ ہے۔ نبی کریمﷺ نے دعا فرمائی: ''اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمیں برکت عطا فرما اور (برکتوں کے ساتھ) ہمیں رمضان تک پہنچا‘‘ (شعب الایمان: 3534)۔ (2) آپﷺ نے فرمایا: ''رمضان، اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان پاک کرنے والا ہے اور رمضان گناہوں کو معاف کرنے والا ہے (یعنی اس کا سبب ہے)‘‘ (کنزالعمال: 23685)۔ یہی سبب ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ''میں نے (کبھی) نہیں دیکھا کہ سوائے رمضان کے رسول اللہﷺ نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور آپﷺ سب سے زیادہ نفلی روزے شعبان میں رکھتے تھے‘‘ (سنن ابی داؤد: 2434)۔
شعبان المعظم کے بارے میں رسول اللہﷺ سے جو احادیث روایت کی گئی ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ''میں نے مشاہد ہ کیا ہے کہ آپﷺ (رمضان المبارک کے علاوہ) کسی بھی دوسرے مہینے کے مقابلے میں شعبان کے زیادہ روزے رکھتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا (عظیم المرتبت) مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں (بندوں کے) اَعمال ربُّ العالمین کے حضور پیش کیے جاتے ہیں تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمالِ (صالحہ) اس حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں‘‘ (سنن نسائی:2357)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی کریمﷺ پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے، میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا نفل روزے کے لیے آپ کو شعبان تمام مہینوں سے زیادہ پسند ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اس سال وفات پانے والے تمام افراد کے نام (قبضِ ارواح پر مامور فرشتوں کے رجسٹر میں) لکھ دیتا ہے، تو میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میری وفات (اگر مقدر ہے تو) روزے کی حالت میں نصیب ہو‘‘ (مسند ابی یعلٰی:4911)‘‘۔
شعبان کی پندرہویں شب:
بعض تفاسیر میں اسے ''لَیْلَۃُ الْبَرَائَ ۃْ ‘‘، ''لَیْلَۃُ الرَّحْمَۃ‘‘ ،''لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘ اور ''لَیْلَۃُ الصََّکّ‘‘ بھی کہا گیا ہے، قرآنِ کریم میں ''لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘کا ذکر آیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''حٓمٓ ، روشن کتاب کی قسم ، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں، اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، (یہ) ہمارے پاس سے حکم ہوتا ہے، بے شک ہم ہی (رسولوں) کو بھیجنے والے ہیں، (یہ) آپ کے رب کی طرف سے رحمت (ہے) ، بے شک وہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے‘‘ (الدخان:1تا 6)۔ جمہور مفسرین کے نزدیک ''برکت والی رات‘‘ سے مراد ''لیلۃُ القدر‘‘ ہے؛ تاہم عکرمہ اور بعض مفسرین نے اس سے ''شبِ برات‘‘ مراد لی ہے، لیکن پہلا قول ہی راجح ہے۔ جن مفسرین نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے، انہوں نے دونوں اقوال میں تطبیق کی ہے۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب یعنی شب برات کے بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: (1) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی درمیانی (پندرہویں) شب کوخاص توجہ فرماتا ہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ (مغفرت کے طلبگار) اپنے سب بندوں کو بخش دیتا ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 1390)۔ (2) ''حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: جب شعبان کی درمیانی شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی جانب (خصوصی) توجہ فرماتا ہے، پھر (مغفرت کے طلبگار) مومن کو بخش دیتا ہے اور (سرکشی میں مبتلا) کافروں کو مہلت دیتا ہے اور کینہ رکھنے والوں کو اُن کے کینے کے سبب چھوڑ دیتا ہے تاوقتیکہ وہ کینہ چھوڑ دیں (یعنی اپنے دلوں کو کینے سے پاک کر دیں)‘‘ (شعب الایمان: 3551)۔
مجرم کو ڈھیل دینا بھی ایک طرح کی سزا ہے تاکہ وہ سرکشی میں انتہا کو پہنچ کر شدید ترین عذاب کا سزاوار قرار پائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (1): ''ہم تو اُن کو صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ اُن کے گناہ بڑھتے چلے جائیں اور اُن کے لیے ذلّت آمیز عذاب ہے‘‘ (آل عمران: 178)۔ (2): ''بے شک کافر اپنی چالیں چل رہے ہیں اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں، سو آپ کافروں کو ڈھیل دے دیں (اور) اُن کو تھوڑی مہلت دیں‘‘ (الطارق: 15 تا 17)۔
(3) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب شعبان کی درمیانی شب آئے، تو رات کو نوافل پڑھو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ (اس رات کو) غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے (جیساکہ اس کی شان کے لائق ہے ) اور ارشاد فرماتا ہے: کیا ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں اسے بخش دوں، ہے کوئی رزق (کی کشادگی) کا طلبگار کہ میں اسے رزقِ (واسع) عطا کروں، ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کی مصیبت کا درماں کروں، الغرض بندوں کی تمام حاجات کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیضانِ رحمت طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 1388)۔
(4) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ''شعبان کی درمیانی شب رسول اللہﷺ میرے بستر سے (اٹھ کر) تشریف لے گئے، (آگے چل کر) فرماتی ہیں: مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ کسی زوجۂ مطہرہ کے پاس گئے ہیں، میں گھر میں آپﷺ کو تلاش کرنے لگی، تو میرے پائوں آپﷺ کے مبارک قدموں پر پڑے، آپﷺ حالتِ سجدہ میں تھے، مجھے یاد ہے، آپﷺ فرما رہے تھے: (اے اللہ!) میرے جسم وجاں تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں، میرا دل تجھ پر ایمان لایا، میں تیری تمام نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوں، میں نے اپنے آپ پر زیادتی کی، سو تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ہے، میں تیری سزا سے بچ کر تیرے عفو وکرم کی پناہ میں آتا ہوں، میں تیرے غضب سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہوں ، میں تیری ناراضی سے بچ کرتیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری گرفت سے بچنے کے لیے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، (اے اللہ!) میں تیری حمد وثنا کا حق ادا نہیں کر سکا، تیری کامل ثنا وہی ہے جو تو نے خود اپنی ذات کی فرمائی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: نبی کریمﷺ مسلسل عبادت میں مشغول رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور کثرتِ عبادت سے آپ کے پائوں مبارک پر ورم آ گیا تھا۔ میں آپﷺ کے پائوں مَل رہی تھی، میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ نے تو اپنے آپ کو تھکا دیا، اللہ تعالیٰ نے تو آپﷺ کو پہلے ہی مغفرتِ کُلّی کی یقینی بشارت دیدی ہے، آپ پر تو اللہ تعالیٰ کے بے شمار رحمتیں ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: یقینا اے عائشہ! تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں، تمہیں معلوم ہے آج کی رات میں کیاکیا برکتیں ہیں، انہوں نے عرض کی: حضور! بتائیے ،تو آپﷺ نے فرمایا: اس رات کو (آنے والے سال) کے دوران) بنی آدم کے ہر پیدا ہونے والے بچے اور ہر وفات پانے والے شخص کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اس رات کو بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں اُن کا رزق نازل ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اور آپ بھی نہیں؟ تو نبی کریمﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا اور تین مرتبہ فرمایا: میں بھی نہیں، سوا اس کے کہ اللہ مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں ڈھانپ لے‘‘ (فضائل الاوقات: 26، الدر المنثور للسیوطی، جلد: 7، ص: 350)۔
اس طویل حدیث سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سید المرسلین، رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور کس قدر عَجز ونیاز فرماتے تھے، آپﷺ کے دل پر اللہ تعالیٰ کی جلالت کا کتنا غلبہ تھا، آپﷺ کس قدر انہماک سے عبادت کرتے تھے اور اتنی کثرتِ عبادت کے باوجود آپﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلبگار رہتے تھے۔ آپﷺ امت کو تعلیم دینا چاہتے تھے کہ اللہ کا بندہ کثرتِ عبادت سے چاہے انتہائی بلندی پر پہنچ جائے، لیکن اُسے اپنی عبادت اور تقوے پر ناز نہیں کرنا چاہیے، بندہ عبادت کر کے اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا، یہ تو بندگی کا فریضہ ہے، ان عبادات کو شرفِ قبولیت عطا کرنا اور انعامات سے نوازنا اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل وکرم پر موقوف ہے، یعنی یہ بندے کا اللہ پر حق نہیں ہے۔ جو لوگ فرطِ عقیدت میں شانِ الوہیت اور مقامِ نبوت کا تقابل کرتے ہیں، انہیں صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار نبی کریمﷺ کے تواضع اورعجز وانکسار سے لبریز اِن مبارک کلمات کو پڑھتے رہنا چاہیے، یہ سب کچھ تعلیمِ امت کے لیے ہے۔ آپﷺ نے متعدد روایات میں فرمایا: ''اس عظیم رات کو مشرک، قتلِ ناحق کرنے والے، ماں باپ کے نافرمان، سود خور، عادی شرابی، عادی زناکار، قطع رحمی کرنے والے، چغل خور اور کینہ پرور کی بخشش نہیں ہوگی‘‘، یعنی ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے شریعت میں بیان کی ہوئی توبہ کی قبولیت کی شرائط پوری کیے بغیر اﷲ تعالیٰ کی مغفرت اور معافی کے حق دار نہیں بن سکتے۔
الغرض پندرہویں شبِ شعبان کے فضائل حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوہریرہ، حضرت عوف بن مالک، حضرت ابو موسیٰ اشعری ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص، حضرت ابو ثعلبہ اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں، یہ روایات اگر چہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، لیکن اِس پر علماء کا اجماع ہے کہ ''فضائلِ اعمال‘‘ میں ضعیف روایات معتبر ہوتی ہیں۔
مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں: ''رہا شب برأ ت کی فضیلت کا معاملہ، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے، جو بعض روایاتِ حدیث میں منقول ہے، وہ اکثر ضعیف ہیں، اسی لیے قاضی ابوبکر بن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے۔ لیکن شب برأت کی فضیلت کی روایات اگر چہ بااعتبار سند کے ضعیف ہیں لیکن تعدّدِ طُرق اور تعَدُّدِ روایات سے اُن کو ایک طرح کی قوت حاصل ہو جاتی ہے، اس لیے بہت سے مشایخ نے اِن کو قبول کیا ہے، کیونکہ فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے‘‘ (معارف القرآن ، جلد: 7، ص:758)۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved