تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-03-2021

آپ، تم، وہ، مگر …

یہ کائنات دو اور دو چار کے اصول پر استوار ہے۔ قدرت کے قائم کردہ نظام میں سبھی کچھ بالکل سیدھا اور سادہ ہے۔ کائنات پر جس قدر بھی غور کیجیے گا، یہی منکشف ہوتا رہے گا کہ معاملات سادگی سے شروع ہوکر سادگی پر ختم ہوتے ہیں۔ کسی ایک معاملے میں بھی دو اور دو سوا چار ہیں نہ پونے چار۔ جس نے دو اور دو چار کے اصول کو اپنالیا اُس نے دنیا پالی۔ اللہ نے ہمیں جن باتوں کی زیادہ اور سختی سے تاکید کی ہے اُن میں حق گوئی نمایاں ہے۔ حق گوئی وہ وصف ہے جو انسان کو حقیقی ذہنی رفعت اور روحانی بالیدگی عطا کرتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں حق گوئی اور صاف گوئی کی راہ پر گامزن رہنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ اس راہ پر چلنے سے انسان تنہا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جہاں جھوٹ کا چلن عام ہو وہاں سچ کو اپنانا اور حرزِ جاں بنانا تو بہت دور کی بات ‘ اُسے آسانی سے قبول بھی نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں لوگ عمومی سطح پر یہی بہتر جانتے ہیں کہ جھوٹ بول کر معاملات کو اصل سے ہٹ کر کوئی رنگ دیتے رہیں۔ بہت سے لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے مگر جو کچھ اُن کے منہ سے نکلتا ہے وہ سچ بھی نہیں ہوتا۔ یعنی بات بَین بَین رہتی ہے۔ ایسی (یعنی تذبذب کی) حالت میں بھی معاملات مزید الجھتے ہیں۔
کوئی کتنی ہی کوشش کرلے‘ سچ کو چھپا سکتا ہے نہ اِس کے اثرات کو روکنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یہ دنیا جھوٹ کے بل پر چل ہی نہیں سکتی۔ غور کیجیے تو کسی بھی معاملے کی خرابی میں جھوٹ ہی دکھائی دے گا۔ جس معاملے میں جھوٹ داخل کیا جائے وہ خرابی کی طرف چل دیتا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے کہ جہاں ہر طرف جھوٹ کا بازار گرم ہو وہاں سچ کا سکہ کیسے چلایا جائے جبکہ سچ یہ ہے کہ سچ کا سکہ چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ خود بخود چلتا ہے اور معاملات کو اُن کی اصلیت کی طرف لاتا چلا جاتا ہے۔ سچ بولنے والوں کو آپ بالعموم تنہا پائیں گے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جو بھی جھوٹ کے ذریعے معاملات کو الجھانے پر یقین نہیں رکھتا وہ اُن سب کے لیے ناقابلِ قبول ہوتا چلا جاتا ہے جو جھوٹ کے ذریعے اپنے معاملات کو کچھ کا کچھ بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے میں بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہر اُس انسان سے جان چھڑائی جائے جو سچ کے ذریعے معاملات درست کرنے کی کوشش کرتا پایا جائے۔
آپ نے سُنا ہوگا جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ کو چلنے کے قابل بنانا ہو تو بیساکھیوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ جھوٹ کو چلانے کے لیے مزید جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ اِسی بات کو یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ جب ہم کسی معاملے کو چھپانا چاہتے ہیں تو جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جھوٹ کا سہارا لینا ہی بے عقلی کی دلیل ہے کیونکہ سچ اپنی اصل میں چاہے جتنا بھی تلخ اور ناقابلِ قبول دکھائی دے، معاملات کو درست رکھنے کا ضامن ہوتا ہے۔ ہم جھوٹ کی دل کشی اور رنگینی سے مرعوب ہوکر اُسے محض اپناتے نہیں بلکہ حرزِ جاں بنانے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی بے عقلی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ جھوٹ کی رنگینی کے جھانسے میں آکر اُسے اپنا بیٹھے اور سوچ سے گریزاں رہنے کی روش پر گامزن ہو۔ کبھی تنہائی میں اس نکتے پر غور کیجیے کہ جھوٹ چاہے جتنا بھی رنگین اور پُرکشش ہو، حتمی تجزیے میں ہمیں نقصان ہی پہنچاتا ہے جبکہ سچ اپنی ساری تلخی اور سنگینی کے باوجود حتمی تجزیے میں ہمارے لیے صرف سودمند ثابت ہوتا ہے۔ ہاں! سچ کی راہ پر چلنے کی صورت میں بعض ایسے فوائد ہمیں نہیں مل پاتے جو دراصل ہمارے ہوتے ہی نہیں جبکہ جھوٹ بولنے سے ایسی بہت سے سہولتیں میسر ہو پاتی ہیں جن پر ہمارا کوئی حق نہیں ہوتا۔ عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے اگر کوئی سہولت (استحقاق کے بغیر) مل سکتی ہے تو اُسے حاصل کرنے سے گریز کیوں کیا جائے۔
ہم روزمرہ معاملات میں جھوٹ بہت آسانی اور لاپروائی سے بولتے ہیں۔ بعض معاملات میں معمولی سا جھوٹ کسی بڑے نقصان کا باعث نہیں بنتا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے جھوٹ سمجھنے سے گریز کیا جائے۔ جھوٹ اپنی اصل میں تو جھوٹ ہی ہوتا ہے یعنی سچ کی ضد۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ بلا جواز یا غیر ضروری طور پر بولا جانے والا جھوٹ ہمیں حتمی فیض پہنچائے۔ حتمی اور اصلی فیض تو سچ ہی سے پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں مصلحتاً جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ کبھی کسی کی دل آزاری ٹالنے کے لیے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ اگر کسی کو بلا جواز نقصان سے بچانا جھوٹ کے ذریعے ممکن ہو تو جھوٹ بول دیا جاتا ہے۔ ایسا ہر جھوٹ در حقیقت جھوٹ ہوتا ہی نہیں۔ ایسے معاملات کا مدار نیت پر ہوتا ہے۔
ہمارے عمومی یعنی روزمرہ کے معاملات میں پیچیدگی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب جھوٹ کا زیادہ سہارا لیا جائے۔ عمومی معاملات میں جھوٹ بول کر معمولی سا دردِ سر ٹالنے کی کوشش ہماری الجھنوں میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔ ہچکچاہٹ کے بغیر سوچ بول دینے سے بہت سی الجھنیں ٹل جاتی ہیں۔ ہاں! کسی کو سچ بولنے پر مائل کرنا اور سچ بولنے کے فوائد کا قائل کرنا ایک بڑا دردِ سر ہے۔ لوگ ماحول کو دیکھتے ہوئے چلتے ہیں۔ یہ بھیڑ چال کا معاملہ ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی سچ بولنے سے گریز اور جھوٹ بولنے میں عافیت محسوس کرنے کی روش انسان کو بالآخر کسی نہ کسی بڑے بحران سے دوچار کرکے دم لیتی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جھوٹ کو پسند کرنے اور جھوٹ بولنے پر مائل ہونے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ روزمرہ معاملات میں اس قدر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ کیا اِس قدر جھوٹ بولنا لازم ہے؟ اور یہ کہ کیا جھوٹ بولے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا؟ ہم اس نکتے پر غور کیوں نہیں کرتے کہ کسی بھی معاملے میں سچ بولنا ہی بہترین طریقہ ہے؟ ہم پر یہ حقیقت کیوں منکشف نہیں ہوتی کہ جھوٹ بولنے سے کسی بھی معاملے کی ساخت یا ہیئت محض بگڑتی ہے‘ سنورتی نہیں؟ زندگی کا حسن سوچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے ہی میں پوشیدہ ہے۔ جھوٹ بولنے سے معاملات کی دل کشی ختم ہوتی جاتی ہے۔ جھوٹ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر کوئی جھوٹ بولنے کا عادی ہو تو آخرِکار اُس کا سچ بھی قبول نہیں کیا جاتا۔ جھوٹ سے انسان کی ایک ایسی شناخت قائم ہوتی ہے جو اُس کے پورے وجود کو مسخ کردیتی ہے۔ جھوٹ سست رفتاری سے، غیر محسوس طور پر کام کرنے والے زہر کی طرح ہوتا ہے۔ ہمیں اس زہر کی سنگینی کا اور مہلک ہونے کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب یہ کام کرچکا ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمیں جو زندگی عطا کی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ جھوٹ اور تصنّع کی چوکھٹ پر قربان کردی جائے۔ یہ زندگی ہم سے قدم قدم پر حق پسندی کا تقاضا کرتی ہے۔ جو کچھ واقعتاً ہے بس وہی اصل ہے، باقی سب کچھ یا تو نقل ہے یا پھر ہے ہی نہیں۔
زندگی سی نعمت اس لیے نہیں بخشی گئی کہ ہم جھوٹ بول بول کر اُسے پیچیدہ تر بناتے رہیں، اُس کا حُسن غارت کردیں۔ جھوٹ ہمیں بے حد رنگین دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی ساری رنگینی سچ کی سادگی میں چھپی ہوئی ہے۔ سچ بولنے سے وقتی طور پر تھوڑی سی الجھن کا سامنا ہوسکتا ہے مگر اِس کا فائدہ کہیں زیادہ ہے۔ یہ سچ ہی تو ہے جس نے دنیا کا نظام سنبھال رکھا ہے۔ جھوٹ چاہے نہ چاہتے ہوئے یا مصلحتاً بولا جائے، بالآخر مشکلات پیدا کرتا ہے۔ مصلحتاً بولے جانے والے جھوٹ کی بھی بہرحال ایک حد تو ہوتی ہے۔ جون ایلیا نے کہا ہے ؎
آپ، تم، وہ، مگر... یہ سب کیا ہے؟
تم مِرا نام کیوں نہیں لیتیں!
غیر ضروری تذبذب زندگی کا حسن غارت کردیتا ہے۔ ہمیں بھی سچ کے معاملے میں غیر ضروری اور لاحاصل قسم کے تذبذب کو خیرباد کہنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved