تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     27-03-2021

چین مخالف رباعی اتحاد

گزشتہ دس برسوں میں چین دنیا کے نقشے پر دوسری سپر پاور کے طور پر ابھرا ہے۔ چین کی اکانومی پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ عسکری طاقت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ چین کا وہ عظیم منصوبہ ہے جو درجنوں ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ سی پیک اسی انٹرنیشنل منصوبے کا ایک پروجیکٹ ہے۔ چین ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک سے اقتصادی اور تجارتی رابطے استوار کرنے کا خواہاں ہے۔ گو کہ بیلٹ اینڈ روڈ بنیادی طور پر اقتصادی منصوبہ ہے لیکن بیرون ملک تجارت اور بندر گاہوں کے دفاع کے لئے عسکری وجود کا پھیلاؤ بھی ضروری ہوتا ہے۔ جبوتی میں چین کا ملٹری بیس اسی رجحان کا غماز ہے۔ بحرِ ہند میں تناؤ میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔
چین مخالف رباعی اتحاد کا عندیہ سب سے پہلے جاپانی وزیر اعظم شینزو ایبے (Zhinzo Abe) نے 2007 میں دیا تھا۔ اس اتحاد میں امریکہ، انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔ ان ملکوں کا پہلا اجلاس دس سال بعد یعنی 2017 میں منیلا میں ہوا تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک آن لائن سربراہ اجلاس ہوا ہے جس میں امریکی صدر بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی شرکت کی تھی۔ اس تنظیم کا کوئی باقاعدہ ہیڈ کوارٹر یا سیکرٹریٹ نہیں ہے‘ ممبر ممالک اسے غیر رسمی سکیورٹی ڈائیلاگ کا نام دیتے ہیں۔ اس تنظیم کا اولین مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود رکھنا ہے۔
چین سے متعلق صدر جو بائیڈن کے افکار میں صدر ٹرمپ کے خیالات سے مشابہت بھی ہے اور اختلاف بھی۔ دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ چین ایک بڑے حریف کے طور پر ابھر رہا ہے‘ لیکن اختلاف یا فرق یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا رویہ چین کے بارے میں بڑا جارحانہ تھا جبکہ صدر جو بائیڈن بات چیت کے ذریعے اختلافات کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کو اس بات کا احساس بھی ہو چلا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں اُس کا اپنا بھی نقصان ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی برقی کاریں بنانے والی کمپنی ٹیسلا (Tesla) کے لئے چین بہت بڑی مارکیٹ ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2019 میں ٹیسلا نے اپنی تیس فیصد کاریں چین میں فروخت کی تھیں۔
اس رباعی اتحاد کو چند دیگر علاقائی ممالک کی ہمدردیاں بھی حاصل ہیں اور ان ممالک میں ویت نام، فلپائن اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ الاسکا میں اپنے چینی ہم منصب اور اس کے وفد سے ملاقات سے پہلے امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے جاپان اور جنوبی کوریا کا دورہ کیا تھا تاکہ ان سے چین کے بارے میں بریفنگ لے سکیں اور اس بات کا امریکی وزیر خارجہ نے الاسکا میٹنگ میں برملا اظہار کیا تھا کہ جاپان اور جنوبی کوریا میں انہیں چند معاملات پر چین مخالف آرا سننے کو ملیں۔
الاسکا میں ہونے والے اس وزارتی اجلاس میں چین اور امریکہ‘ دونوں نے ایک دوسرے کو کھری کھری سنائیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ چینی وفد نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ قتل ہوئے ہیں اور یہ کہ مشرق وسطیٰ میں مداخلت کر کے حکومتیں بدلی گئی ہیں۔ انڈیا اور امریکہ کے مابین سٹریٹیجک تعلقات کی بنیاد 2008 میں پڑی جب دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی تعاون کا سمجھوتہ ہوا تھا۔ 2016 میں امریکہ نے انڈیا کو اپنا بڑا عسکری ساتھی گردانا۔ اس سے پہلے 2011 میں امریکہ کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے مدراس میں کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا مشرق بعید اور بحر الکاہل تک اہم کردار ادا کرے۔ پھر دونوں ممالک میں لوجسٹک (Logistic) تعاون کا معاہدہ ہوا۔ دونوں ممالک میں اب تک 2+2 یعنی وزرائے خارجہ اور دفاع کا مشترکہ اجلاس تین مرتبہ ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک اب گلوبل سٹریٹیجک پارٹنر شپ میں بندھے نظر آتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے شہریوں کو ویزہ دینے میں امریکہ انڈیا کے ساتھ ترجیحی برتاؤ کرتا ہے۔ صدر جو بائیڈن کے مشیروں میں کئی انڈین اوریجن کے لوگ شامل ہیں۔ پچھلے ایک عشرے سے انڈیا اور امریکہ شیر و شکر ہیں۔
تو کیا امریکہ کی انڈیا پر نوازشات بے غرض ہیں۔ جی نہیں۔ امریکہ یقینا انڈیا کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور چین کی روز افزوں عسکری طاقت کے سامنے ڈھال بنانا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا امریکہ کی خاطر چین سے ٹکر لینے کو تیار ہو جائے گا؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ انڈین لیڈر شپ بہت ہوشیار ہے‘ یہ لوگ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا جانتے ہیں۔ یہ امریکہ سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے مگر چین کے خلاف امریکہ کی جنگ کبھی بھی نہیں لڑیں گے۔ امریکہ، جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا کے ساتھ چین کی تجارت اچھی خاصی ہے۔ اگر چین کے ٹاپ تجارتی شراکت داروں کا شمار کیا جائے تو یہ چاروں ممالک اُن میں آتے ہیں۔ تجارت میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں لیکن یہ یعنی تجارت‘ تجارتی پارٹنرز کو بڑی جنگوں سے محفوظ بھی رکھتی ہے۔ وہ ایسے کہ دونوں طرف سے تاجر طبقہ امن کا داعی بن جاتا ہے کیونکہ ان کی نفع بخش تجارت امن سے جڑی ہوتی ہے۔
2020 میں انڈیا اور چائنا کے دو طرفہ تعلقات بہت تناؤ کی حالت میں رہے‘ لداخ میں عسکری جھڑپ بھی ہوئی‘ لیکن اس کے باوجود باہمی تجارت جاری رہی۔ جاپان اور چین میں مخاصمت کی ایک لمبی تاریخ ہے لیکن تجارت اور سیاحت میں تعاون جاری ہے۔ آسٹریلیا بحرالکاہل کے خطے کا بڑا ملک ہے‘ مگر چین کی بڑھتی ہوئی نیول پاور سے خائف نظر آتا ہے۔ امریکہ کے تینوں اتحادیوں میں عسکری طور پر سب سے بڑا انڈیا ہے‘ اسی لئے امریکہ کی نوازشات اُس پر جاری ہیں۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ بحر ہند میں انڈیا اور چین کا نیول مقابلہ جاری رہے گا بلکہ بڑھے گا۔ چین کی برتری کو روکنے کے لئے امریکہ چاہتا ہے کہ ساؤتھ چائنا سی (South China Sea) میں چین کے خلاف ایک متحدہ محاذ کھڑا کیا جائے‘ جس میں چار بڑے ملک بھی شامل ہوں اور ان کے علاوہ ویت نام، فلپائن اور تائیوان وغیرہ کی ہمدردیاں رباعی اتحاد کو حاصل ہوں۔ چین نے اپنے دفاع کی خاطر ساؤتھ چائنا سی میں اپنے علاقائی پانیوں میں چند مصنوعی جزیرے بنا کر نیول بیس بنا دیئے ہیں۔ اس علاقے میں سب سے اہم سپارٹلی جزیرے (Spartly Islands) ہیں جن کے ارد گرد تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ان جزیروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ چین اور ویتنام‘ دونوں کا کلیم ہے کہ یہ جزیرے تاریخی طور پر ہمارے ہیں۔
پچھلے ہفتے اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ منعقد ہوا‘ جس میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر (Cameron Munter) نے بھی آن لائن شرکت کی۔ سابق سفیر کا کہنا تھا کہ اب امریکہ کی نظر میں مشرق وسطیٰ اور افغانستان کی اہمیت کم ہو گئی ہے‘ لہٰذا پاکستان کی علاقائی اہمیت بھی کم ہوئی ہے۔ اس نئے سیناریو میں انڈیا اور مشرق بعید کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
پچھلے ہفتے امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن (Loyed Austin) نے انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنے انڈین ہم منصب راج ناتھ سنگھ کے علاوہ وزیر اعظم مودی سے بھی ملے۔ رباعی اتحاد اور بحرالکاہل میں عسکری تعاون ان کی بات چیت میں سرفہرست رہے۔ ان حالات میں یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل میں انڈیا اور امریکہ کا تعاون مزید مضبوط ہو گا۔ ہمیں اپنی حکمت عملی اس حقیقت کو مدِ نظر رکھ کر بنانا ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved