''کون نہیں جانتا کہ بنگلہ دیش میں بے انتہا کرپشن کے باوجود اس کی معیشت پاکستان سے زیادہ مضبوط ہے؟ بھارت میں کرپشن کی داستانیں گھر گھر سنائی دینے کے باوجود بھارتی معیشت دنیا بھر میں اپنا لوہا منوائے ہوئے ہے۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ کرپشن کوئی مسئلہ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ترقی کا راستہ روکتی ہے؟ وزیراعظم صبح و شام کرپشن کرپشن کی رٹ لگا کر احتسابی اداروں پر دبائو ڈالتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پر کرپشن کے الزامات ہیں‘ لیکن لاہور سے ملتان، ہزارہ ایکسپریس اور پھر ملتان سے سکھر تک سفر کرنے والوں سے بھی کبھی پوچھ کر دیکھیں کہ ان کیلئے نواز شریف نے سفر اب کتنا آسان کر دیا ہے؟‘‘۔
23 مارچ کو مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال علامہ محمد اقبالؒ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد مزارِ اقبال کے سائے میں وہاں موجود میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جب بھارت اور بنگلہ دیش میں کرپشن کے باوجود ان ممالک کی ترقی اور ''بہترین معیشت‘‘ کے قصے سنا رہے تھے تو مجھے چند برس قبل‘ اسی لاہور شہر کے ایک تعلیمی ادارے میں حمزہ شہباز شریف کی وہ مشہورِ زمانہ تقریر یاد آ گئی جس میں مستقبل کے معماروں کو یہ درس دیا جا رہا تھا کہ بچو! کرپشن‘ کرپشن ہوتی ہے اور یہ ہوتی رہتی ہے‘ اس کو زیادہ سیریس نہیں لیتے‘ ملک کا سفر جاری رہنا چاہیے۔ نجانے نواز لیگ کے اہم رہنما کو بنگلہ دیش اور بھارت میں بے انتہا کرپشن کے باوجود ان ممالک کی ترقی کا حوالہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی، شاید اس کے پیچھے کوئی مخصوص پس منظر تھا۔ ایک دہائی قبل کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب اسلام آباد کی ایک سدا بہار شخصیت‘ جو اب اس دنیا میں نہیں رہی‘ کے ہاں شام ڈھلتے ہی شہرِ اقتدار کی نمایاں شخصیات‘ جن میں دانشوروں، بیورو کریٹس اور سیاسی لیڈران سمیت سبھی موجود ہوتے تھے‘ کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ ایسی ہی ایک محفل میں ایک معروف اینکر کہنے لگے کہ ہم نے ہر طرح کے وسائل استعمال کرتے ہوئے پرویز مشرف کی کرپشن کا کھوج لگانے کی بے انتہا کوششیں کی ہیں لیکن ان کے اندازِ سیا ست سے ہزار اختلافات رکھنے کے باوجود ابھی تک ہمیں ان کی مالی بدعنوانی، کک بیکس اور کرپشن کا کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا، جس پر موصوف نے فی الفور جواب دیا کہ ''کرپشن فری ہونا کوئی اعزاز نہیں، اگر ایک شخص کرپشن کرتا ہے لیکن وہ ملک کو ترقی کی طرف لے کر جاتا ہے تو وہ شخصیت کرپشن نہ کرنے والے سے کئی گنا زیا دہ پاپولر اور فائدہ مند ہوتی ہے‘‘۔ اس پر ساتھ بیٹھے ایک سرکاری افسر‘ جو بعد میں وفاقی سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے‘ ان کی تائید کرتے ہوئے کہنے لگے: ہمارے ملک میں سب سے مقبول عوامی لیڈر وہی ہوتا ہے جو کرپشن بھی کرے اور نت نئے پروجیکٹس بھی شروع کرے‘ ایسے پروجیکٹس جو اس قوم نے اس سے قبل سن تو رکھے ہوں گے لیکن کبھی دیکھے نہ ہوں۔
23 مارچ کو جب لاہور میں احسن اقبال مزارِ اقبال پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے تو عین اسی وقت کراچی میں ایم کیو ایم کی ایک مرکزی شخصیت اوراسلام آباد میں ایک وفاقی وزیر یومِ پاکستان سے متعلق کسی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ لیکن کچھ ٹی وی سکرینیں صرف احسن اقبال کی میڈیا گفتگو اور ان کے ہی فرمودات سے بھری ہوئی نظر آ رہی تھیں، اس دوران وفاقی وزیر یا ایم کیو ایم رہنما کی فوٹیج تو چینلز پر دکھائی دیتی تھی مگر زیادہ تر چینلز پر صرف احسن اقبال کی گفتگو ہی سنوائی جا رہی تھی۔ دس منٹ تک ملکی میڈیا صرف احسن اقبال کی گفتگو دکھاتا رہا جس سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ شاید اس حوالے سے کچھ خاص ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اس بیان پر زیادہ فوکس کرنا ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے مزار کے سائے میں کھڑے ہو کر نئی نسل کو یہ بھاشن دیا جا رہا ہے کہ کرپشن ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوا کرتی اور اگر آپ میں سے کسی کو وزیراعظم کی باتوں اور تقریروں کی وجہ سے یہ شک پڑ گیا ہے کہ جس ملک میں کرپشن ہو‘ وہاں ترقی نہیں ہو سکتی اور وہ معاشرہ اور سوسائٹی تباہ ہو جاتے ہیں تو اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی زندہ مثال بھارت ا ور بنگلہ دیش ہیں، انہیں دیکھ لیجیے جن کی کرپشن کے قصے دنیا بھر میں شائع ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک کی کرنسی اور معیشت پاکستان سے کئی گنا زیادہ ترقی کر رہی ہے۔ کیا علامہ اقبال نے ایسے ملک کا خواب دیکھا تھا، کیا قائد نے ایسی مملکت کے قیام کے لیے کوششیں کی تھیں؟ویسے جب زمینی حقائق پر نظر پڑتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے، یہ ہمارا عمومی مائنڈ سیٹ ہے‘ جو انہوں نے بیان کیا۔ بعض سیاسی رہنمائوں‘ جن کی عوامی وجۂ شہرت ترقیاتی کام اور ان کاموں پر کک بیکس لینے کی ہے‘ کے متعلق آج بھی عوام کی زبان پر یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘۔ یہ کوئی شک والی بات نہیں کہ مہنگائی اور کرپشن کے باوجود اگر آپ نت نئی سڑکیں، پل بنا رہے ہیں، نئے پروجیکٹس شروع کر رہے ہیں تو کوئی آپ کی کرپشن کا برا نہیں منائے گا۔
چند ماہ ہوئے‘ ایک شادی کی تقریب میں چند تاجروں اور بزنس مین حضرات کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان کی باتوں سے یہی لگ رہا تھا کہ کرپشن پر پکڑ دھکڑ اور احتسابی کارروائیوں نے ملک کی معیشت کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ہر شے کی قیمت آسمان کی جانب پرواز کر رہی ہے۔ یہ اب ایک مائنڈ سیٹ بن چکا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ترقی کا راز یہ ہوتا ہے کہ پیسہ گردش میں رہنا چاہئے‘ اگر سرکاری دفاتر سمیت دیگر اداروں میں پیسے چل رہے ہیں تو چلتے رہیں، اگر احتسابی ادارے پکڑ دھکڑ کے بجائے تاجروں پر ہاتھ نرم رکھیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر کوئی اپنا چھپایا ہوا پیسہ کسی نہ کسی بزنس میں لگائے گا جس سے ملک کی چھوٹی سے چھوٹی صنعت سے لے کر بڑے سے بڑے سیکٹر چلے گا اور یوں ٹیکسٹائل کی صنعت، ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے چھوٹے بڑے ٹیلرنگ ہائوس، ہوٹل، ریسٹورنٹس سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں حرکت پیدا ہو گی، بازاروں میں گاہکوں کی بھیڑ ہو گی، نت نئے گھر بنائے اور خریدے جائیں گے، بیروزگاری نصف رہ جائے گی۔ زمینوں کی خریدو فروخت کا سلسلہ بڑھنے سے ملک بھر میں کنسٹرکشن کا کام زیادہ ہو گا جس سے مزید درجنوں صنعتیں چلیں گی۔ پیسہ مارکیٹ میں آئے گا اور پھر ایک چھوٹے سے گائوں سے لے کر بڑے بڑے شہروں کی دکانوں، پلازوں اور شاپنگ مالز میں خریداروں کے ہجو م دیکھنے کو ملیں گے۔ اس لئے اب عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کیلئے بہتر ہے کہ وہ اینٹی کرپشن اور احتسابی محکمے بند کر کے ان کے ملازمین کو کسی اور کام پر لگا کر بنگلہ دیش اور بھارت کا طریقہ اپناتے ہوئے ''ترقی‘‘ کریں، کرپشن پر آنکھیں بند کر لیں اور پھر دیکھیں کہ ''کرپشن کی برکت‘‘ سے ہمارا ملک کیسے آگے بڑھتا ہے۔ دیکھیں کہ وہ ملک جس کا علامہ محمد اقبال نے تصور پیش کیا تھا اور جس کی تشریح 23 مارچ کو ان کے مزار کے سائے میں کھڑے ہو کر مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما نے کی، بھارت اور بنگلہ دیش کی طرز پر کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ وزیراعظم تسلیم کر لیں کہ چینی کی قیمت 70 سے 115 روپے تک جانے یا آٹا، گھی اور دوسری چیزوں کے مہنگا ہونے کی اصل وجہ دراصل کرپشن پر واویلا کرنا ہے۔ جب چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہو تو ''نہیں چھوڑوں گا‘‘ کو چھوڑ کر ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘ کے سنہرے اصول پر عمل کریں۔ آٹے اور چینی سکینڈل پر کمیشن بنانے کے بجائے ''مٹی پائو‘‘ کی پالیسی اپنائیں اور اگر رپورٹس سامنے آ جائیں تو وزرا کو کابینہ سے نکالنے کے بجائے ماضی کی روایات کی روشنی میں ایسے تمام ثبوتوں کو نذرِ آتش کر کے سکون کی زندگی گزاریں۔ رہی بات ملک کی بنیادیں ٹھیک کرنے اور جوابدہی کے احساس کی تو ایل ڈی اے پلازہ اور کراچی کی بلدیہ فیکٹری کی آگ پر کسی کا کیا بگڑ گیا جو آپ خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں، یہ ملک جیسے چل رہا ہے، اسے ایسے ہی چلنے دیں‘ جلد یہ بنگلہ دیش اور بھارت جیسی ترقی کی رفتار پکڑ لے گا۔