آج جو کچھ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے مابین دیکھنے میں آرہا ہے اس سے مجھے اگست 2007 کے لندن کے دن یاد آگئے۔ شریف برادران کو داد دیں‘ انہیں یہ فن خوب آتا ہے کہ کب مظلوم بن کر ہمدردیاں سمیٹنی ہیں اور موقع بنتے ہی ڈیل مارکر اقتدار بھی لے لینا ہے۔ اس وقت سینیٹ میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے شریف خاندان تو بڑا اصول پسند ہے‘ لیکن اس کے مخالفیں سیاسی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ شریفوں ساتھ بڑا ظلم ہوتا ہے اور ہر کوئی انہیں استعمال کرجاتا ہے اور یہ بے چارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔
زرداری صاحب کو تیز‘ چالاک بناکر پیش کیا جاتا ہے کہ 'زرداری سب پر بھاری‘ ہے۔ شریف جب چاہیں ڈیل کر لیں، جب چاہیں اصولی موقف کے نام پر پہاڑ پر چڑھ جائیں‘ کوئی کچھ نہیں کہتا۔ وہ جس زرداری کو دن رات ایک ولن کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کی سیاسی چالاکیوں سے فیضیاب بھی ہوتے ہیں۔ گالیاں پیپلزپارٹی کے حصے میں آتی ہیں‘ من و سلویٰ کھانے کی باری نوازلیگ دسترخوان پر بیٹھی ہوتی ہے۔ آج کل پھر وہی موسم آیا ہوا ہے کہ نوازشریف مظلوم اور آصف زرداری بہت ظالم ہے‘ جس نے بیچ دریا انہیں دھوکا دے دیا اور شریف خاندان بیچارہ اکیلا رہ گیا ہے۔
مجھے یاد ہے لندن میں یہی ڈرامہ کھیلا جارہا تھا جب بینظیر بھٹو پرویز مشرف سے ڈیل کرکے وطن واپس لوٹنے کی کوشش کررہی تھیں۔ بینظیر بھٹو ہر دفعہ کہتیں کہ وہ پاکستان واپس جارہی ہیں چاہئے نتائج کچھ بھی ہوں‘ نواز شریف کو بھی پاکستان واپس جانا چاہئے۔ اس پر نواز شریف کے حامی چپ کر جاتے کہ سعودیوں کے ساتھ معاہدہ کررکھا ہے‘ پاکستان واپس نہیں جاسکتے۔ نوازشریف کیمپ کو پوری طرح پتا تھا پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو کی خفیہ ملاقاتیں دوبئی میں ہورہی ہیں جبکہ میثاق جمہوریت میں دونوں نے لکھا تھا کہ سرونگ جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں نہیں ہوں گی۔ نواز شریف صاحب کو علم تھاکہ ان کی پرویز مشرف سے ڈیل نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں کے درمیان ذاتی لڑائی تھی۔ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے مابین ایسی ذاتی لڑائی نہیں تھی‘ لہٰذا ان کی ڈیل آسان تھی۔ نواز شریف کو علم تھا کہ بینظیر بھٹو واپس گئیں تو ان کا واپسی کا راستہ کھلے گا۔ سعودی پرویز مشرف پر دبائو ڈال چکے تھے کہ وہ نواز شریف کو واپس آنے دیں لیکن مشرف ہر دفعہ سعودیوں کو جواب دیتے کہ پھر بینظیر بھٹو کو بھی اجازت دینا پڑے گی۔ اس پر سعودی چپ کرجاتے۔ اسی لیے مشرف کسی قیمت پر بینظیر بھٹو کو پاکستان واپسی کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کی نئی کتاب میں بڑا واضح لکھا ہے کہ پرویز مشرف بینظیر بھٹو کی سب شرائط مانتے تھے لیکن وہ ان کو پاکستان واپس لوٹنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے۔ بینظیر بھٹو نے بہت اصرار کیا تو مشرف اس حد تک تیار ہوئے کہ جب الیکشن ہو جائیں تو وہ پھر واپس آسکتی ہیں اور انہیں سینیٹر بنوایا جاسکتا ہے۔ پرویز مشرف کو پتا تھا کہ اگر 2007 کے الیکشن سے پہلے بینظیر بھٹو واپس آگئیں تو دوکام ہوں گے۔ ایک تو نوازشریف کو روکنا مشکل ہوجائے گا دوسرے ق لیگ الیکشن نہیں جیت پائے گی جس پر پرویز مشرف کا اپنا انحصار تھا‘ لیکن بی بی کو علم تھا کہ وہ اگر واپس نہ گئیں تو پھر وہ دُبئی‘ لندن میں ہی رہیں گی۔ نواز شریف نے جوا کھیلتے ہوئے واپسی کا اعلان کیا۔ انہیں پورا پتا تھا کہ پرویز مشرف نہیں آنے دے گا۔ وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ دیکھا‘ نواز کو نہیں آنے دیا جبکہ بینظیر بھٹو کو اجازت مل گئی تھی۔ وہی ہوا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کو دس ستمبر کو واپس بھیج دیا‘ لیکن جب بینظیر بھٹو پاکستان پہنچ گئیں تو کچھ دنوں بعد سعودیوں نے نواز شریف کو بھی واپس بھجوا دیا۔
انہی نواز شریف نے زرداری سے ہاتھ ملایا۔ پنجاب اور مرکز میں نواز شریف اور زرداری کی پارٹیوں نے وزارتیں بانٹ لیں اور شیروشکر ہوگئے۔ نواز شریف نے زرداری سے ایک بڑا کام ابھی لینا تھاکہ مشرف دور کی آئینی ترمیم کو ہٹانا تھا جس کے تحت نوازشریف تیسری دفعہ وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ یوں نوازشریف کو تیسری دفعہ وزیراعظم بنانے کیلئے پیپلزپارٹی نے ترامیم کرائیں۔ جونہی یہ راہ ہموار ہوئی نواز لیگ نے چہرے پر ڈالا نقاب اتار کر پھینکا اور نواز شریف کو تیسری دفعہ بنوانے کے لیے مقتدرہ سے خفیہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ دوسری طرف نوازشریف اور شہبازشریف کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تاکہ میموگیٹ پر زرداری، گیلانی اور حسین حقانی کو غدار قرار دلواکر‘ ان کی حکومت ختم کراکے‘ نئے الیکشن کراکے نوازشریف کو وزیراعظم بنوانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ زرداری یقیناً پچھتا رہے تھے کہ کیوں نواز شریف کو 2008 کا لیکشن لڑنے پر راضی کیا کہ وہ تو بائیکاٹ کیے بیٹھے تھے۔ زرداری نے ہی نواز شریف کو سمجھایا تھاکہ اگر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے الیکشن نہ لڑا تو مشرف پانچ سال تک مزید بیٹھے گا اور ق لیگ کو الیکشن جتوا دیا جائے گا۔ زرداری کا خیال تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اتنی خودمختاری لے دیں گے کہ پھر اسلام آباد پر حکومت یا پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ووٹر کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ سندھ پر حکومت کریں گے جہاں سے کوئی نہیں ہٹا پائے گا۔ ان کا اصل ہدف سندھ کی خودمختاری تھی تاکہ انہیں ہرسال اربوں روپے این ایف سی ایوارڈ کے نام پر ملتے رہیں جس کی کوئی پوچھ گچھ نہ ہو گی۔
اب سینیٹ میں بھی زرداری نے 2008 والی حکمت عملی کو استعمال کیا ہے۔ نواز شریف پھر دو ہزار آٹھ کی طرح سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ کیے بیٹھے تھے۔ زرداری صاحب کو لگا‘ ایسی صورت میں وزیر اعظم اٹھارہویں ترمیم ختم کر دیں گے‘ جس پر انہوں نے بڑی محنت کی تھی لہٰذا سینیٹ میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہونا ضروری تھا۔ گیلانی سینیٹ کا الیکشن لڑنے پر تیار نہیں تھے۔ انہیں راضی کیا گیا۔ وہ سینیٹ کی سیٹ غیرمتوقع طور پر جیت گئے۔طے ہواتھا کہ گیلانی کے چیئرمین بننے کی صورت میں اپوزیشن لیڈر نواز لیگ کا ہوگا۔ گیلانی کے ہارنے کے بعد زرداری انہیں اپوزیشن لیڈر بنوانا چاہتے تھے جبکہ نواز شریف نئے سینیٹر اعظم تارڑ کو بنوانا چاہتے تھے۔
یوں بظاہر لگتا ہے پیپلزپارٹی اور نوازشریف میں ایک ماہ پہلے تک جاری دوستی ختم ہوگئی ہے۔ ایک دوسرے پرپھر حملے ہورہے ہیں۔ ویسے اس سیاسی ڈرامے پر قوم ڈسٹرب نہ ہو۔ اگر یاد ہوتو اسی نواز لیگ کے گیارہ وزیر مشرف سے حلف لے کر گیلانی کی کابینہ میں بیٹھے تھے۔
نواز شریف اور زرداری نے مدت ملازمت کیلئے لائے گئے قانون میں اکٹھے ووٹ ڈالا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دیے تھے اور فائدے بھی اٹھائے ۔ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب محمد زبیر فیصلہ سازوں سے ملنے بھیجا گیا تاکہ مریم نواز کو بھی لندن بھیجا جائے۔ بات نہ بنی تو اچانک انقلابی بننے کا فیصلہ کیا گیا۔ تسلی رکھیں جو تبرہ زرداری پر پڑھا جارہا ہے انہی زرداری صاحب سے شریف برادران اس طرح فائدہ اٹھائیں گے جیسے بینظیر بھٹو کی مشرف سے ڈیل کا اٹھایا تھا۔ بدنام زرداری صاحب ہوتے ہیں اور فائدے ان کی ڈیلوں کے شریف اٹھاتے ہیں۔
گھوڑے چھائوں میں باندھیں۔ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ وہی پرانا لطیفہ۔ ایک گھر میں بندر اور گھوڑا تھا۔ بندر رات کو کچن میں جا کر آٹا کھا جاتا اور واپسی پر کچھ آٹا لاکر گھوڑے کے منہ پر مل دیتا۔ اگلی صبح مالک گھوڑے کی پٹائی کرتا اور بندر معصوم منہ بناکر گھوڑے کو پٹتا دیکھتا۔یہی حال اس وقت زرداری کا ہورہا ہے جو پٹ رہا ہے اور شریف جو اپنے تئیں سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ کیے بیٹھے تھے وہ اس زرداری کی وجہ سے پنجاب سے اپنے پانچ سینیٹرز بنوا کر الٹا لندن بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔