گلگت بلتستان تین پہاڑی سلسلوں قراقرم‘ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش کے سنگم پر واقع ہے اور بونجی کے مقام پر آ کر یہ تینوں پہاڑی سلسلے آپس میں مل جاتے ہیں۔ بونجی سے شمال مشرق میں دریائے سندھ کے دائیں طرف گول تک اور گول سے دریائے شیوک کے دائیں طرف آخر تک کوہ قراقرم ہے۔ بونجی سے مغرب کی طرف داماس تک دریائے گلگت اور داماس سے قرمبر تک دریائے اشکومن کے بائیں طرف ہنزہ‘ پونیال‘اشکومن‘ رونددسکردو‘ شگر‘ مشہ بروم اور خپلو کا علاقہ قراقرم میں آتا ہے۔ چینی ترکستان کا علاقہ سنکیانگ اور تبت کا کچھ حصہ بھی قراقرم میں واقع ہے۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی آئینی‘ جمہوری تاریخ اور بھارتی تسلط کے پنجوں میں سسکتی ہوئی کشمیریوں کی آزادی کی تاریخ بہت مختلف ہے ۔ آزادی ہند اور تقسیم کا عمل اس اصول پر ہوا تھا کہ مسلم اور ہندواکثریت رکھنے والی ریاستیں بالترتیب پاکستان اور ہندوستان کا حصہ بن جائیں گی جبکہ خود مختار ریاستوں کو الحاق کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گامگر حیدر آباد اور جونا گڑھ کے حکمرانوں کی مرضی اور خواہش کے با وجودانگریزی سرکار نے ان ریا ستوں کو پاکستان میں شامل ہونے سے روک دیا لیکن کشمیری راجہ کو روکنے کی بجائے اس کی مدد کو پہنچ گئے۔
قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ تیز ہو گیا جبکہ گلگت بلتستان سکائوٹس کے مسلمان جوانوں‘ افسران اور معززین نے باہمی مشاورت سے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی حکمت عملی طے کی جس کے تحت31 اکتوبر 1947ء کی شب گلگت میں گورنر گھنسارا سنگھ کی رہائشگاہ ( گورنر ہائوس) کا محاصرہ کر لیا گیا۔ گھنسارا سنگھ نے سخت مزاحمت کی اور رات بھر دونوں اطراف سے شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا تاہم صبح ہوتے ہی گھنسارا سنگھ نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر تے ہوئے خود کو گرفتاری کیلئے پیش کر دیا۔ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کے ساتھ ہی گلگت ایجنسی میں ڈوگرہ راج کا خاتمہ ہو گیا اور چند گھنٹوں بعد شاہ رائس خان کی قیادت میں'' اسلامی جمہوریہ گلگت‘‘ کی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جس کی فوج کا سربراہ کرنل حسن مرزا کو مقرر کر دیا گیا جن کی قیا دت میں ڈوگرہ فوج کے چند مسلمان افسروں نے کرنل حسن کی قیا دت میں بغاوت کر تے ہوئے کرنل حسن کی سربراہی میں ایک طویل اور صبر آزما جدو جہد کے بعد گلگت بلتستان کا28 ہزار مربع میل علا قہ نہ صرف آزاد کرا لیا بلکہ جب بھارت نے قانونِ آزادی ہند اور ریاستی مسلمانوں کی خواہشات کو پامال کر کے27 اکتوبر1947ء کو اپنی افواج کشمیر میں داخل کر کے ننگی جارحیت شروع کی تو کرنل حسن کی کمانڈ میں ان کے ساتھیوں نے عوام کو ساتھ ملا کر گلگت کی جانب بھارتی افواج کی پیش قدمی روک دی۔آ زادیٔ گلگت بلتستان کایہ عظیم ہیرو 19 فروری 1919 ء کوگلگت میں پیدا ہوا۔مرزا حسن رونو یعنی رانا خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی اس کے بعد میٹرک پونچھ سے پاس کیا۔ سری پرتاب کالج سے ایف اے اور1937ء میں تھرڈائیر پاس کرنے کے بعد فوج میں بھرتی کیلئے ٹیسٹ دیااور ان کو بطور کیڈٹ سلیکٹ کر لیا گیا۔ اگست 1938 ء میں انہیں انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون کیلئے منتخب کیا گیا۔ ملٹری اکیڈمی کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے کے بعد وہ یکم مارچ 1940 ء کو پاسنگ آؤٹ پریڈ کے بعد لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز کئے گئے اور پھر فوراً ان کو فورتھ کشمیر انفینٹری میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کو جہلم چھاؤنی اور پھر نوشہرہ چھاؤنی میں تعینات کیا گیا۔ یکم جون 1941ء کو انہیں کیپٹن کے عہدے پر ترقی دی گئی اور کمپنی کمانڈر بنا دیئے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے پونا سے ٹیکٹیکل کورس پاس کیا۔3 نومبر 1943ء کو انہیں میجرکا عہدہ ملا۔اس کے بعد سٹاف کالج کوئٹہ میں Demonstration Campusکے کمپنی کمانڈر بنا دئیے گئے۔ کرنل مرزا حسن کی صلاحیتوں اور بہادری کے جوہر اُس وقت اور زیادہ کھل کر سامنے آئے جب جنگ ِبرما شروع ہوئی ‘یہ 1944ء کا دور تھا۔ جنگِ برما میں جاپانیوں کے خلاف نبردآزما مرزا حسن اور ساتھیوں نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیااور اہم ترین مورچوں کو جاپانیوں کے تسلط سے آزادکروایا۔جنگ ِبرما کے دوران انہوں نے محاذپر جس طرح بہادری اور شجاعت کے کارنامے انجام دئیے انہیں اس بہادری اور جانبازی کے بدلے میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ملٹری کراس سے نوازا گیا جو جرأت و بہادری کا ایک اعلیٰ ترین اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو کرنل مرزا حسن کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کے اس عظیم ہیرو کرنل مرزا حسن نے 19 نومبر 1982ء کو انتقال کیا‘ وہ چنار باغ گلگت میں آسودۂ خاک ہیں۔
نہتے مجاہدوں نے ایک باقاعدہ مسلح ڈوگرہ فوج کو استور‘ چلاس اور گلگت ‘ بلتستان کے دیگر محاذدں پر شکست فاش دی اور ان علاقوں کو آزادکروایا اور آخر کار یہاں کے لوگوں کی خواہش کے مطابق مملکت خدادادپاکستان کے ساتھ الحاق کر دیاگیا‘ لیکن آئین ِپاکستان1956ء اور1973ء میں گلگت بلتستان کے28 ہزار مربع میل اور آزاد کشمیر کے ساڑھے چار ہزار مربع میل کو اپنا حصہ قرار دینے میں نہ جانے کیوں تساہل اور تذبذب کا مظاہرہ کیا گیا۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم ممتاز حسین راٹھور کی آزاد کشمیر اسمبلی سے منظور کرائی گئی قرار داد پر بھی غور نہ کیا گیا جس میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے کی اپیل کی گئی تھی۔یہ آواز بار بار اٹھائی جاتی رہی کہ مظفر آباد اور باغ کو ہزارہ جبکہ پلندری‘ راولا کوٹ اورکوٹلی کو راولپنڈی اور بھمبر سمیت میر پور کو گجرات کے ساتھ شامل کر کے پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے اور اس کیلئے1973ء کے آئین میں اتفاق رائے سے ترمیم کرا لی جائے۔بہرکیف8 مارچ2021ء کو گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ قرار دینے کیلئے دستور پاکستان میں ترمیم کی جائے ۔یہ قرار داد قائد ِایوان اور قائد حزب اختلاف نے مشترکہ طو رپر پیش کی جسے منظور کر لیا گیا ۔ اس قرار داد میں وفاقی حکومت اور وزیر اعظم پاکستان اور ریاستی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ گلگت بلتستان کو قومی سمبلی اور سینیٹ سمیت دیگر تمام وفاقی ا داروں میں منا سب نمائندگی دی جائے۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کرتے ہوئے یہ خیال رکھا جائے کہ اس سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا کیس کسی طرح بھی متاثر نہ ہو کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام کشمیری بھائیوں کی سیا سی اور اخلاقی حمایت ہر فورم پر جاری رکھنے کے حق میں ان کے دوش بدوش ہیں۔غالباً 1995ء میں گلگت بلتستان کے کچھ سیا سی کارکنوں نے آزاد جموں کشمیر ہائیکورٹ میں ایک رٹ دائر کرتے ہوئے یہ حق حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس علا قے کو آزاد کشمیر اسمبلی میں نمائندگی دی جائے ۔ اُس وقت کے چیف جسٹس ہائیکورٹ عبد المجید ملک نے ان کے حق میں جب فیصلہ دیا تو دنیا بھر کے میڈیا پر اس فیصلے پر تبصرے اور تجزیے شروع ہو گئے‘ لیکن اُس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان کی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس نے حکومتی مؤقف کی حمایت میں فیصلہ دیتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔
گلگت بلتستان کی سرحدیں بھارت‘ تاجکستان‘ چین سے ملتی ہیں اور اس میں تو کسی قسم کا شبہ نہیں کہ گلگت ‘ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے ۔1970ء تک یہاں پر '' سٹیٹ سبجیکٹ رول ‘‘ نافذ تھا جس کے تحت یہاں صرف مقای لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے‘ سیا سی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا لیکن 70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے ختم کر دیا۔اگر پاکستانCPEC کو مکمل کرتے ہوئے اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ ملک کی سلامتی اور مفادات کی تکمیل کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ بھارت اس سلسلے میں ہر ممکن شور اور ڈرامہ کرنے کی کوشش کرے گا‘ وہ پہلے بھی یہ بے بنیاد دعویٰ کرتاہے کہ جموں و کشمیر‘ لداخ اور گلگت بلتستان کے علاقے 1947ء میں طے پانے والے معاہدے کے تحت انڈیا کے حصے ہیں لیکن اس پر توجہ دینے کی بجائے پاکستان کو اپنی منزل کی جانب بڑھنا ہو گا۔ نریندر مودی او راجیت ڈوول سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی بھارت کو خبر ملی کہ پاکستان گلگت بلتستان کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کرنے کا سوچ رہا ہے تو ایک دن اچانک اس نے دور درشن اور دوسرے قومی ٹی وی چینلز پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے موسموں کا حال بیان کرنا شروع کر دیا جس پر سب حیران تھے کہ یہ اچانک کیا ہوا۔ اس سلسلے میں ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ دیکھنا ہو گی جس میں بتا یا گیا ہے کہ موسم کا حال سنانے جیسی یہ دور کی کوڑی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے حکم سے لائی گئی۔مگرگلگت بلتستان کو کشمیر کے ساتھ نتھی کرنا حقائق کو دھواں دھواں کرنے کے سواکچھ نہیںکیونکہ بھارتی مؤقف کے بر عکس چودہ اگست1947ء کو گلگت بلتستان ڈوگرہ مہاراجہ کشمیر کے ماتحت نہیں تھا اورا سے گلگت بلتستان کے عوام نے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے آزاد کرالیا ۔بد قسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان بننے کے بعد اسے پاکستان کا باقاعدہ حصہ ڈکلیئر کرنے میں تساہل سے کام لیا جاتا رہا ۔اب جبکہ پانچ اگست2019 ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آزاد حیثیت ختم کر کے اسے دو یونین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے تو جوابی قدم اٹھانے میں پاکستان کس انتظار میں ہے؟