آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالرز قرض بحالی کے بعد حکومت پاکستان نے دو بلین ڈالرز مالیت کے یورو بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ سے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے مثبت اشاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد اس وقت شروع ہوا جب آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستانی معیشت کے اکتوبر 2019ء سے مارچ 2021ء تک چار زیرالتوا نظر ثانی جائزوں کی منظوری دے دی۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے دو روز قبل کہا تھا کہ پاکستانی حکام نے مالی سپورٹ پروگرام کے تحت تسلی بخش کارکردگی دکھائی ہے۔ یہ بیان حوصلہ افزا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ ریٹ بھی اچھا مل سکے گا۔ اگر بین الاقوامی مارکیٹ کی بات کی جائے تو پوری دنیا میں اس وقت سرمایہ کاری کے لیے اچھے ریٹ نہیں مل رہے ہیں۔ سرمایہ کار ہروقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کسی ملک کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر زیادہ ریٹ پر سرمایہ کاری کر لی جائے یا ہاٹ منی کے نام پر بینکوں سے زیادہ شرح سود حاصل کی جائے جیسا کہ 2019 ء میں ہوا تھا۔ اُس وقت دنیا میں شرح سود اعشاریہ پانچ فیصد سے ایک فیصد تھی لیکن حکومت پاکستان نے تقریباً ساڑھے تیرہ فیصد شرح سود پر 800 ملین سے زیادہ ڈالرز حاصل کیے تھے۔جیسے ہی ریٹ کم ہونے کی خبریں آنے لگیں تو مارچ 2020ء میں 824 ملین ڈالرز صرف بارہ دنوں میں نکال لیے گئے۔ بانڈز کے ساتھ اس طرح کی صورتحال کم ہی ہوتی ہے اور دوسری طرف اس مرتبہ حالات مختلف ہیں۔ پاکستان کو بظاہر کوئی بڑی ادائیگی نہیں کرنا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قرضوں میں ایک سال کی توسیع ہو چکی ہے۔ بیرونی ممالک سے ترسیلات ِزر میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے آٹھ ماہ سے مسلسل دو بلین ڈالرز سے زیاد ترسیلات موصول ہو رہی ہیں جس کی وجہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس ہیں۔اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کے مطابق پالیسی ریٹ سات فیصد ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ماہرین یہ امید ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت بہترین ریٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ امید زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بانڈز میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو کمائے گئے منافع پر 30 فیصد تک ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ جنوری میں کابینہ نے اس وقت ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب وزارت خزانہ کی جانب سے وزرا کو بتایا گیا کہ ٹیکس کم یا ختم کیے بغیر بانڈز میں کسی کو دلچسپی نہیں ہو گی۔
جب سے تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت گلوبل مارکیٹ ٹرانزیکشن کرنے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے نومبر 2017 ء میں پاکستان نے گلوبل کیپٹل مارکیٹ سے اڑھائی بلین ڈالرز اکٹھے کیے تھے۔ ایک بلین ڈالرز پانچ سالہ سکوک اور ڈیڑھ بلین ڈالرز دس سالہ یورو بانڈز کے ذریعے۔ سکوک بانڈز 5.6 فیصد اور یورو بانڈز 6.8 فیصد پر حاصل کیے گئے تھے۔ گو کہ پچھلی حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دیتی رہی ہے لیکن اس کا صحیح اندازہ اس وقت لگایا جا سکتا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت دو بلین ڈالرز کا ریٹ ظاہر کرے گی۔
آئیے ایک نظر آئی ایم ایف قرض بحالی کے اعداوشمار اور اثرات پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ اگر اعدادوشمار کی بات کریں تو مکمل پروگرام چھ ارب ڈالرز کا ہے جس میں سے اب تک 1.45 بلین ڈالرز موصول ہو چکے ہیں۔ موجودہ منظوری کے بعد یہ بڑھ کر دو بلین ڈالرز تک پہنچ جائے گا۔ تقریباً ایک سال سے زیادہ عرصہ تک معطل رہنے کے بعد قرض کی بحالی آسان نہیں رہی ہے۔یہ پروگرام اس وقت التوا کا شکار ہوا تھا جب پچھلے سال فروری میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کی تجویز دی گئی تھی لیکن وزیراعظم نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس وقت دوسرا نظر ثانی جائزہ ہونا ابھی باقی تھا جو نہ ہو سکا تھا۔ اس کے بعد کورونا کی صورتحال کے پیش نظر بھی معاملہ زیادہ زیر بحث نہ آسکا بلکہ عمران خان نے غریب ممالک کے قرض معاف کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔ قرض تو معاف نہ ہوسکے لیکن کچھ عرصے کے لیے ادائیگیاں مؤخر کر دی گئیں ۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 1.4 ارب ڈالر بھی پاکستان کو کورونا ریلیف فنڈ کے طور پر دیے تھے۔ یہ اس پروگرام کا حصہ نہیں تھے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حکومت ممکنہ طور پر بڑے جرمانے اور پابندیوں سے بچ گئی ہے جس کا ذکر آئی ایم ایف نے ایک پریس ریلیز میں کیا ہے۔ اس کی وجہ شرائط کا پورا نہ ہونا نہیں بلکہ غلط یا نامکمل معلومات فراہم کرنا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جو ملک عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لیتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ سو فیصد درست اور مکمل معلومات فراہم کرے۔ خلاف ورزی کی صورت میں پروگرام معطل کرنے کا بھی آپشن موجود ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے آرٹیکل آٹھ کی خلاف ورزی کی۔357 ارب روپے کی گورنمنٹ گارنٹی سے متعلق 2016ء کا ڈیٹا غلط رپورٹ کیا گیا لیکن بچت اس لیے ہو گئی کہ آئی ایم ایف کے اعتراض اٹھانے سے پہلے حکومت پاکستان نے خط لکھ کر خود ہی اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا بلکہ نظام کی کمزوری کی وجہ سے ایسا ہوا ہے‘ لیکن اب حکومت نے ضروری اقدامات کر کے کمزوریوں پر قابو پا لیا ہے۔ ادارے نے بھی ان اقدامات پر تسلی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ قرض بحالی کے لیے حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی سخت شرائط پر عملدرآمد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ طے یہ ہوا ہے کہ عوام کو دی گئی ایک سو چالیس ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے گی۔ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے گی۔ فروری میں پہلے ہی بجلی کی قیمتوں میں 16 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے جو کہ ممکنہ طور پر مستقبل کے وعدوں پر عمل درآمد کا یقین دلانے کے لیے ٹوکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ صرف ٹریلر ہے پکچر ابھی باقی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ سرکاری کاغذات کے مطابق اپریل سے اکتوبر 2021 ء تک بجلی کی قیمتوں میں مزید 36 فیصد اضافے کی یقین دہانی کروا دی گئی ہے۔ اگر16 فیصد فروری والا اضافہ شامل کر لیا جائے تو یہ 52 فیصد بنتا ہے۔یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب پاکستان میں ڈالرز آ رہے ہیں اور روپیہ مضبوط ہو رہا ہے تو آئی ایم ایف قرض بحالی کی کیا ضرورت تھی؟ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے۔ ذہن نشین رکھیے کہ پاکستان پر اس وقت ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔بھارت نے عالمی سطح پر پھر لابنگ شروع کر دی ہے ۔پچھلے ریویوز میںبھی وہ آئی ایم ایف پروگرام معطلی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہاہے۔ چھوٹی سی غلطی تین سال کی محنت پرپانی پھیرنے کا سبب بن سکتی ہے۔اس موقع پر قرض بحالی پاکستان کے معاشی نظام پر اعتماد کا اظہار ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں منتقل کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی بحالی کے بعد بہت سے اداروں کی کریڈٹ سہولت ملنے کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔ آنے والے دنوں میں ورلڈ بینک کے کچھ زیرالتوامنصوبوں میں بھی پیش رفت ہونے کی امید ہے۔ یاد رکھیے کہ آئی ایم ایف کو دنیا کاسب سے سخت مالیاتی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔اگر یہ اعتماد کا اظہار کر دے تو پوری دنیا کا اعتماد حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔