چھ ماہ سے زیادہ مدت ہوئی کہ کراچی سے پھر کچھ نئے وعدے کیے گئے تھے‘ کچھ دلاسے دیئے گئے تھے۔ یقین دلایا گیا تھا کہ سب کچھ درست کردیا جائے گا۔ اور یہ یقین دہانی نچلی سطح سے نہیں کرائی گئی تھی۔ خود وزیر اعظم نے کراچی آکر کہا تھا کہ کراچی کے تمام معاملات درست کردیئے جائیں گے یعنی کوئی مسئلہ باقی نہ رہے گا۔ اس حوالے سے 1100 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ یہ نئے وعدے کہاں کھوگئے‘ کچھ پتا نہیں چل سکا۔ دلاسوں کا کام وقتی طور پر دل بہلانا ہوتا ہے اور اب کے بھی یہی ہوا۔ کیا کراچی کے مقدر میں صرف مسائل رہ گئے ہیں؟ کیا وعدے اور دلاسے صرف وعدے اور دلاسے ہی رہیں گے؟ کیا یقین دہانیاں دل بہلانے کی منزل سے آگے نہ بڑھیں گی؟ ایک زمانے سے معاملہ یہ ہے کہ حکومتیں دل بہلانے کی باتیں کرتی ہیں‘ مسائل حل کرنے کی یقین دہانیاں کراتی ہیں اور پھر سب کچھ ''گم تاڑے‘‘ کی نذر ہو جاتا ہے۔ ایک مدت گزر جانے پر حکومت کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ کچھ وعدے کیے گئے تھے‘ کچھ دلاسے دیئے گئے تھے‘ کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں۔ اب اگر حکومت کو کچھ یاد آجائے تو ٹھیک ورنہ معاملات وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
جولائی اور اگست 2020ء کے دوران کراچی میں جو طوفانی بارشیں ہوئیں اُنہوں نے شہر کا حلیہ بدل کر رکھ دیا تھا۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ شہر کے خاصے ''ترقی یافتہ‘‘ علاقے بھی اُس طوفانی بارش کے ہاتھوں پس ماندگی کا مزاچکھنے پر مجبور ہوئے۔ بارش کے موسم میں دو دن ایسے بھی گزرے جب لوگوں کو کام سے گھر واپسی میں دس دس گھنٹے لگے! حقیقت یہ ہے کہ اہلِ کراچی سہم کر رہ گئے تھے۔ شہرِ قائد کا بنیادی ڈھانچا اب انتہائی کمزور ہوچکا ہے۔ ملک بھر سے آکر بسنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ کسی بھی مرحلے پر تھما نہیں۔ اس کے نتیجے میں شہر کے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ عام سے علاقوں میں چھوٹے سے پلاٹس پر کئی منزلہ عمارت قائم کرکے اس میں مجموعی طور پر چالیس پچاس افراد کو بسایا گیا ہے جس کے نتیجے میں پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ یہی معاملہ بجلی اور گیس کی فراہمی کا بھی ہے۔ یہ دونوں بنیادی سہولتیں بھی اب شہرِ قائد کے مکینوں کو ڈھنگ سے میسر نہیں ہو پاتیں۔ ایک طرف تو پیداوار کم ہے اور دوسری طرف چوری کا معاملہ ہے۔ پانی کا بھی یہی کیس ہے۔ شہر کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم نہیں کیا جارہا یا یوں کہیے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق پانی کی فراہمی ممکن ہی نہیں ہو پارہی۔ اور اُس پر چوری کا سلسلہ ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ شہر کے کئی علاقوں کے کوٹے کا پانی چراکر کچی آبادیوں کو دیا جارہا ہے۔ بعض علاقوں میں پانی غیر ضروری طور پر بہت زیادہ آتا ہے اور کہیں حالت یہ ہے کہ ایک ایک ماہ تک پانی نہیں دیا جاتا۔
شہر کے لیے باضابطہ منصوبہ بندی جب کی گئی تھی تب کی گئی تھی۔ اُس کے بعد سے تو پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی گزر چکا ہے۔ شہر کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جو ماسٹر پلان کا باضابطہ حصہ ہی نہیں۔ جب ماسٹر پلان سے ہٹ کر لوگوں کو بسایا جائے تو بنیادی سہولتیں کہاں سے دی جائیں؟ شہر کے لیے جو کچھ مختص کیا جاتا ہے وہ محض اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ یا اس سے کچھ زیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شہر کی آبادی ڈھائی سے تین کروڑ کے درمیان ہے۔ 2018 ء کی مردم شماری کے نتائج اب تک متنازع ہیں۔ اس مردم شماری میں کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے آس پاس دکھائی گئی تھی۔ جماعتِ اسلامی سمیت کئی جماعتوں نے مردم شماری کے حوالے سے کراچی کے نتائج کو مسترد کردیا ہے۔ اب غیر سیاسی تنظیمیں بھی میدان میں ہیں۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن‘ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین اور کراچی کے سابق ناظم اعلیٰ سید مصطفٰی کمال‘ انٹلیکچوئل فورم آف پاکستان کے چیئرمین اور کراچی واٹر بورڈ کے سابق ڈی ایم ڈی محمد اسلم خان سمیت بہت سے محبانِ کراچی کا مطالبہ ہے کہ کراچی کو اس کا حق دیا جائے۔ جماعتِ اسلامی کراچی نے اس حوالے سے باضابطہ تحریک چلائی ہے جس میں شہر کے مختلف علاقوں کے مسائل اجاگر کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے پر متوجہ ہو اور جلد از جلد مطلوب فنڈز مختص کرے۔
کراچی کسی ترتیب کے بغیر پھیل رہا ہے۔ ملک بھر میں بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرنے والے دو تین شہر ہیں۔ راولپنڈی اور لاہور میں اس حوالے سے زیادہ سکت نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں کراچی ہی مرکزِ نگاہ ٹھہرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہتر روزگار اور معیاری زندگی کی تلاش میں ملک بھر سے لوگوں کی آمد جاری رہتی ہے۔ یوں شہر کی آبادی بے ہنگم طور پر بڑھتی جارہی ہے اور شہر کسی واضح ترتیب اور منصوبہ بندی کے بغیر پھیلتا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ چونکہ بڑھتا ہی جارہا ہے اس لیے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ میں بھی کسی مرحلے پر کمی واقع نہیں ہو رہی۔ ہر پاکستانی کا ملک کے ہر حصے پر حق ہے۔ کوئی کہیں بھی آباد ہوسکتا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ ملک کے تمام حصوں کو زیادہ سے زیادہ متوازن رکھنے پر توجہ دے اور کوشش کرے کہ ملک کا ہر حصہ اتنی ترقی کرے کہ روزگار کے مواقع تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو کہیں جانا نہ پڑے۔ کراچی کے دامن میں ملک کے ہر حصے کے لوگ سمائے ہوئے ہیں۔ شہر کو مِنی پاکستان کا غیر اعلانیہ درجہ ملا ہوا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شہر کو ترقی دینے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ کراچی کا نظام درست رکھنا مقصود ہے۔ شہر پر آبادی کا دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے اور رقبے میں مستقل پھیلاؤ کے باعث نظم و نسق میں بھی شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔
کراچی چونکہ پورے ملک کے لیے بہترین معاشی مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اس لیے اس کے استحکام پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو زیبا نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کو یوں نظر انداز کرے کہ مسائل بڑھتے ہی جائیں اور اس کے مکین الجھنوں کا شکار رہیں۔ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی مناسبت سے منصوبہ بندی اور ترقیاتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس کے لیے زیادہ فنڈز بھی درکار ہیں۔ موجودہ ماسٹر پلان تو کب کا غیر متعلق ہوچکا۔ نیا ماسٹر پلان اس طور تیار کیا جائے کہ شہر کی تمام بنیادی ضرورتیں بہ طریقِ احسن پوری ہوں۔ گزشتہ سال کی طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہی نے صرف اہلِ کراچی کو نہیں بلکہ باقی ملک کو بھی پریشانی سے دوچار کردیا تھا۔ اگر ملک کا سب سے بڑا اور معاشی مرکز کا درجہ رکھنے والا شہر درست حالت میں نہ رہے تو باقی ملک کے لیے امید کا مرکز کیسے بنا رہے گا؟ شہرِ قائد کے مکین اس بات کے منتظر ہیں کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے جو یقین دہانیاں کرائی تھیں اُن پر عمل ہو اور شہر کے مسائل حل ہوں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے ؎
غلط ہو آپ کا وعدہ کبھی‘ خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی
پھر دل یہ سوچ کر سنبھل سا جاتا ہے کہ شاید اب کے کچھ انوکھا ہو‘ وعدے نبھادیئے جائیں‘ یقین دہانیوں پر عمل کرہی لیا جائے۔ گزشتہ برس جب وزیر اعظم نے اہلِ کراچی سے کچھ وعدے کیے تھے تب ذہنوں میں یہ بات ابھری تھی کہ ؎
تو اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے
امید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے
وعدے اتنی بار کیے گئے ہیں کہ اعتبار مشکل سے آتا ہے۔ وفاق بھول جاتا ہے تو صوبائی حکومت کو بھی کراچی یاد نہیں رہتا۔ لوگ حالات کا جبر سہتے جاتے ہیں اور ہر وعدے یا یقین دہانی کو بے دِلی سے قبول کرتے ہیں۔ کہیں غالبؔ کا کہا ذہنوں سے چمٹ کر نہ رہ جائے ع
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا