مرزا اسد اللہ خان غالب کو آموں سے بڑی رغبت تھی۔ خود تو غالباً انہوں نے آم کے باغات نہ لگائے‘ کہ آبائواجداد کا پیشہ سپہ گری تھا‘ مگر ان کے احباب‘ نواب اور شاہی خاندان انہیں تواتر سے آموں کے تحفے بھیجا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: آم میٹھے بھی ہوں اور بہت زیادہ بھی ہوں۔ اس ایک مختصر جملے میں آم شناسوں اور پھلوں کے اس بادشاہ پھل سے ان کی فطری میلان‘ دلچسپی اور نفسیات کا اس سے بہتر‘ خوبصورت اور جامع نثر کی صورت میں شاید ہی کوئی بیان نظر آیا ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ سامنے آم ہوں تو نہ ہاتھ رکتا ہے‘ نہ دل بھرتا ہے۔ آخری دانے تک نظر وہیں ٹکی رہتی ہے۔ ملتان میں آم کے باغات کی تباہ کاریوں کی خبریں سن کر دل گرفتہ ہوں‘ لیکن ساتھ ہی سوچتا ہوں‘ ہماری کمزور آواز زور و زر کے مضبوط قلعوں سے کسی اڑتے ہوئے خاشاک کے پرزے کی مانند ٹکرا کر خاک میں مل رہتی ہے‘ واویلا کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ پھر سوچا‘ اپنا فرض تو پورا کر دوں کہ میرا خمیر آموں کی دھرتی سے اٹھا ہے‘ اور دعا ہے کہ آخری ٹھکانہ بھی وہیں ملے کہ روح کے پرواز کر جانے کے بعد جسمانی باقیات مٹی میں گندھ جائیں اور ان باغوں کو حسبِ مقدور زرخیزی کے سامان فراہم کریں۔
آم کا درخت کیسے اگایا جاتا ہے‘ پالا پوسا اور جوان کیا جاتا ہے‘ یہ فن نہیں عشق ہے۔ اس عشق کی شدت کا ان سے پوچھیں‘ جنہوں نے آم کے درختوں کے ساتھ اور باغات میں زندگیاں بسر کی ہیں۔ ان کا ہر سانس آموں کی مختلف رنگوں میں آنکھ کھولتی کلیوں‘ خوشبو دار پھولوں‘ اور سینکڑوں طرح کے ذائقوں کے ساتھ بندھی رہی۔ کئی جگہوں پر میں نے آم کے اجڑے ہوئے باغات دیکھے‘ تو دوسری اور تیسری نسل سے چند بچے کھچے آم کے درختوں کے بارے میں بات چھڑی کہ کون سا آم ہے اور کب اور کس نے لگایا تھا؟ ایک ہی جواب کہ دادا جی نے لگائے تھے اور پتا نہیں کون سی قسم ہے‘ مگر ہیں بہت میٹھے۔ کاش ایسے بابے ہمیشہ زندہ رہتے اور باغات ان کی نگہبانی میں محفوظ رہ سکتے۔ ملتان کے وہ بزرگ‘ جو اس تمام علاقے کو وسیع و عریض باغات کا تحفہ دے کر گزر گئے‘ تہہ زمین تڑپ رہے ہوں گے۔ دعا ہے کہ خالق و مالک ایسی روحوں کو اپنے جوارِ رحمت میں رکھے۔ کاش ان کی نا خلف اولاد ان کے ورثے کی حفاظت کر سکتی۔ ہمارے معاشرے میں مادیت پرستی‘ ہوسِ زر اور مسابقت کی وبائیں عام ہو چکی ہیں‘ جنہوں نے سب کو گھیرا ہوا ہے۔ نئے شہر آباد کرنا دنیا کی بہت بڑی سرمایہ کاری‘ تجارت اور منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ پاکستان ہی نہیں اکثر ممالک‘ جہاں افزائش زر ہوئی‘ تو نودولتیوں اور نئے متوسط طبقے نے جدید طرزِ زندگی کے نام پر محلات تعمیر کرنے شروع کر دیئے۔ مغرب میں تو باغات کو اس قدر مقدس خیال کیا جاتا ہے کہ ان ملکوں کی ساری آبادی سڑکوں پر آ جائے اگر کوئی کسی باغ کو ''ترقی‘‘ کے نام پر اجاڑنے کی کوشش کرے۔ وہاں تو عوام‘ حکومت‘ زمین اور شہری کا رشتہ اتنا مربوط اور مضبوط ہے کہ رہائشی منصوبہ بندی اشتراکی عمل ہے۔ برطانیہ میں تو دور دراز کے دیہاتوں میں قدیمی گھر تک نہیں گرا سکتے‘ نئے تعمیر کرنا ہوں تو طرزِ تعمیر تبدیل نہیں کرنے دی جاتی۔ بڑے چھوٹے فارمز فائدہ مند نہ بھی ہوں‘ تو انہیں کسی اور مقصد کے لئے استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ ہمارے ہاں‘ قانون کی حکمرانی ہوتی‘ یا حکمرانوں کا تعلق عوام اور زمین سے ہوتا‘ تو لاہور میں گلبرگ اور راولپنڈی میں مری روڈ کی وہ حالت نہ ہوتی‘ جو آپ اس دور میں دیکھ رہے ہیں۔ ملتان ایسا تاریخی اور ثقافتی شہر تو نہ جانے کس نوع کے حریصوں کی گرفت میں دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ نام لینے سے کوفت ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں اس خوب صورت‘ دل موہ لینے والے شہر کے نقش و نگار اس کے ثقافتی امتیاز اور عظمت کے نشان تھے۔ سب آہستہ آہستہ بے ہنگم پھیلائو اور بے ترتیبی میں دب چکے ہیں۔ اس کی بڑی پہچان مضافات میں آموں کے باغات تھے‘ جو کچھ ابھی باقی ہیں‘ کبھی جا کر تو دیکھیں‘ جنت کا نظارہ ہیں۔ نہ جانے کب ان پر نظرِ بد پڑے اور آریاں چلنا شروع ہو جائیں۔ باغات کاٹنے اور ان کی جگہ رہائشی کالونیاں بنانے کی شروعات تو کافی عرصہ سے ہو چکی تھی‘ ملتان ہی نہیں‘ سرائیکی وسیاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں‘ مگر جس پیمانے پر اور جس انداز میں اب ملتان کے ارد گرد باغات اور زرعی زمین خرید کر نئی آبادیوں کے لئے چٹیل میدان ہموار کئے جا رہے ہیں‘ وہ سب دیکھ اور سن کر دل بے بسی پر خون کے آنسو روتا ہے۔ محترم کپتان صاحب! ایک طرف آپ نے اربوں کی تعداد میں نئے درخت لگوانے کے منصوبے جاری کر رکھے ہیں‘ جن کا میں معترف ہوں‘ دوسری طرف آموں کے باغات‘ جن کے لئے کم از کم دو نسلوں کی محنت درکار ہوتی ہے‘ برباد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جن ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں آپ دیتے ہیں‘ وہاں زمین کے استعمال کے بارے میں قوانین ہوتے ہیں۔ ملکیت کا مطلب یہ کہیں نہیں ہے کہ جو جی میں آئے کریں۔ زرعی زمین زرعی ہی رہے‘ باغات باغات ہی رہیں اور آم کے درخت کو کاٹنا جرم ٹھہرے۔
گزشتہ کئی برسوں میں جب بھی ملتان میں رات بھر ٹھکانہ رہا‘ یا ایک آدھ دن قیام کیا‘ تو آم کے باغوں کو پھیلتی ہوئی کالونیوں کی زد میں دیکھا۔ مسافر‘ مسافرت میں ہو تو دلآزار لمحے ایک چوٹ لگا کر گزر جاتے ہیں‘ مگر کچھ کا درد رگ و ریشے میں سما جاتا ہے۔ ہماری زندگیاں سفر ہی ہیں۔ وقت کے بیکراں سمندر میں کبھی تیرتی کشتیاں‘ کبھی ویرانوں میں منزلیں‘ کبھی جلوتیں‘ کبھی خلوتیں‘ کبھی شہروں کی تیز روی‘ شور و غل‘ کبھی دیہاتوں کا دھیما پن اور کبھی بل کھاتے ندی نالوں کے کنارے۔ ہم سب خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اپنا اپنا حصہ ضرور ملتا ہے‘ مگر ذرا رک کر‘ دم سادھ کر غور و فکر کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ باغات کے نظارے تو جنتِ ارضی سے کم نہیں‘ ابنِ آدم کا فطری لگائو ہے۔ وہاں قدم رکھتے ہی روح میں شگفتگی آ جاتی ہے۔ صنعتی دور کی کثافت‘ شور شرابے اور مشینی طرزِ کی مصروفیات کے زہریلے اثرات کم کرنے کے لئے مغرب کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں پارکس کا جال بچھایا گیا ہے۔ نہ جانے نیو یارک کے سنٹرل پارک میں کتنی بار گزر ہوا‘ اور لندن کے پارکس کس فطرت کا تحفہ اور انسان کی کاوش کا مظہر ہیں۔
ملتان کے باغات ہماری ثقافت اور پُرانے طرز کے زمین داروں کی آموں سے محبت اور کاوش کی پیداوار ہیں‘ کسی سرکار کی دین نہیں۔ یہ خاکسار ستائیس برسوں سے آم کی کاشت اور نگہداشت میں مصروف ہے۔ کہیں بھی ہوں‘ دل وہاں اٹکا رہتا ہے۔ تقریباً روزانہ خبر گیری ہوتی ہے۔ کس چلچلاتی دھوپ‘ گرمی اور نا مساعد حالات میں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کوسوں دور سے آم کے پودے لایا تھا‘ یہ میں جانتا ہوں۔ یہ سلسلہ رکا نہیں‘ جہاں اچھے پودے کی خبر ملتی ہے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہر نئی قسم ڈھونڈ لانا اب محال نہیں۔ یہ ایک نشہ سا ہے‘ جو کبھی ٹوٹا نہیں۔ آج کل تو آم کے پھولوں نے بہار لگا رکھی ہے۔ ان کی خوشبو ہر سو پھیلی دن رات فضا کو معطر رکھتی ہے۔ خوش نصیب ہوں کہ فطرت نے شرفِ قبولیت بخشا ہے‘ اپنی محبت سے نوازا ہے اور اپنی رعنائیوں میں مسحور رکھا ہے۔ دعا ہے کہ اسی کی قید میں رہیں‘ اس سے کبھی رہائی نہ ملے۔ دکھ ہے کہ ملتان کے باغات اجڑتے رہے اور وہاں کے سیاست باز‘ شہری و ریاستی حکمران تماشا دیکھتے رہے‘ یوں کہئے کہ سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ کسی کو کچھ احساس نہیں کہ کس نعمت سے محروم کیا جا رہا ہے۔