تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     29-03-2021

احتجاج کا ٹھنڈا پانی اور لمبے سانس

پاکستان ایشیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جن کی تاریخ میں لا تعداد مفاد پرست اور اَن گنت موقع پرست سیاسی اتحاد وجود میں آتے رہے ہیں۔ سیاسی اتحادوں کی تاریخ کا سب سے المناک پہلو ایک ہی رہا ہے اور وہ یہ کہ ایسے تمام پولیٹیکل الائنس یکے بعد دیگرے اپنے بھیانک انجام کے کوڑے دان میں پہنچتے چلے گئے۔
ملک کی اس سیاسی تاریخ کا سب سے مستقل پہلو ایک ہی ہے‘ یہی کہ مفاد اور موقع پرست سیاسی اتحادوں کی کھچڑی پکانے والے سیاسی عناصر‘ اِن کے انجام سے عبرت پکڑنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ جو اتحاد سیاسی نظریے یا قومی سوچ و فکر کے بجائے ایزی پیسہ‘ منی لانڈرنگ ویب اور سات سمندر پار پارک کی گئی دولت کو بچانے کی پریشانی کو سامنے رکھ کر بنائے جائیں‘ اِن کا انجام بھلا اور کیا ہو گا؟ ان دنوں ٹی وی چینلز‘ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں پی ڈی ایم کے حسرت ناک انجام کا بہت چرچا ہے۔ ظاہری طور پر ہم خیال ہونے والی پارٹیاں اپنے اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کے لیے ٹوئٹر اکائونٹس اور ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے ایک دوسرے پر لفظی گولا باری اور تیر اندازی میں مصروف ہیں۔ ایک طرف (ن) لیگ کی مریم نواز والی پی ڈی ایم اس وقت اپنی سیاسی زندگی کی آخری ہچکیاں لے رہی ہے تو دوسری جانب پی پی پی برانڈ پی ڈی ایم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے بہت بے تاب نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کی مفاداتی سیاست میں سیاسی الائنسز کے تجرباتی دنگل اور نمائشی کُشتی کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال سب سے اہم ہے کہ یہاں کے سیاسی اتحاد اس قدر تیزی سے اپنے آغاز سے اختتام کو کیسے پہنچ جاتے ہیں؟
کچھ روز قبل محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوانح حیات‘ جس کا ٹائٹل ''دخترِ مشرق‘‘ ہے‘ کا دوبارہ مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ اپنی خود نوشت میں محترمہ بی بی نے بہت دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔ یہ 1981ء کا سال ہے اور پی این اے کی باقیات جماعتوں نے اس سال بے نظیر بھٹو صاحبہ سے جنرل ضیا مخالف تحریک چلانے کیلئے رابطہ کیا تھا۔ توقع کے عین مطابق پوری کی پوری پی پی پی یہ سن کر تذبذب کا شکار ہو گئی۔ پی پی پی کے اندر سے کئی بڑی آوازیں سابقہ پی این اے سے کسی قسم کے اتحاد کی حامی نہ تھیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا خصوصی اجلاس بلایا گیا تا کہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے یا رائے قائم کی جا سکے ؛ چنانچہ ملک کے طول و عرض سے پارٹی رہنما 70 کلفٹن‘ کراچی پہنچ گئے۔ بی بی صاحبہ کے مطابق اجلاس شروع ہوا‘ پھر سب نے ایک کے بعد ایک اپنی اپنی رائے سے پی پی پی کی تب چیئر پرسن بیگم نصرت بھٹو کو آگاہ کیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر صاحبہ‘ دونوں ہی اس اتحاد کی کچھ خاص حامی نہ تھیں۔ جب پی پی پی کے سب مرکزی رہنما بول چکے تو پھر بابائے سوشل ازم شیخ محمد رشید صاحب سے ان کی رائے پوچھی گئی۔ شیخ محمد رشید صاحب نے بہت برجستہ جواب یوں دیا ''اگر جاپانی سامراجیت کے خلاف کمیونسٹ چیئرمین Mao Zedong اور اُن کے اَزلی دشمن بنیاد پرست رہنما Chiang Kai-Shek ایک ہو سکتے ہیں تو ہم اور ازلی دشمن یعنی PNA کی جماعتیں کیوں نہیں؟‘‘ بے نظیر بھٹو صاحبہ لکھتی ہیں‘ اور یوں ایم آر ڈی وجود میں آئی۔
اس واقعے کے 40 سال بعد 2020ء میں اسی طرح کا ایک دوسرا سیاسی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ یہ اسلام آباد کے ایک بڑے سیاسی گھر کا دالان ہے جہاں مختلف سوچ‘ نظریے‘ سیاست اور ریکارڈ رکھنے والی اپوزیشن پارٹیاں مشترکہ مفادات کی چھتری کے نیچے جمع ہیں مگر جماعت اسلامی ان میں شامل نہیں ہوتی۔ دوسری اہم بات یہ کہ اب نہ تو ضیا آمریت کا دور ہے اور نہ ہی دیوار کے دوسری طرف دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والا چیئرمین مائو زے تنگ جیسا کوئی انقلابی راہ نما‘ بلکہ ان شرکا میں لاہور کے ایک پرانے کاروباری خاندان کی متنازع سیاسی ولی عہد‘ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرتی ہیں۔ ہرے‘ پیلے‘ نیلے‘ کالے‘ سرخ اور سفید رنگوں کے‘ بہت سے سیاسی جھنڈے ایک ہی جگہ ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ ان کے کچھ مانوس دوست اور کچھ تجزیہ نگار عمران خان کی حکومت کی رخصتی کی تاریخ پہ تاریخ دیتے نظر آتے ہیں‘ کچھ دوسرے تجزیہ کار اس غیر فطری اتحاد کی جلد متوقع موت کی باتیں ابھی سے کر رہے ہیں۔ یہاں تجزیہ نگار اور تجزیہ کار میں فرق واضح کرنا ضروری ہے۔ ہم سب جانتے ہی ہیں کہ کسی زمانے میں نگار ایوارڈ ان کے حصے میں آیا کرتا تھا جو نغمہ نگار ہوتے‘ ڈرامہ نگار ہوتے یا ڈائیلاگ نگار ہوا کرتے تھے۔ یہ سب فکشن کے شعبے ہیں‘ جن میں حقیقت کا دور دور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ البتہ تجزیہ کار‘ کاشت کار سے ملتا جلتا لفظ ہے جس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہہ رکھا ہے:
چلو اُٹھو زمین کھودیں اور اس میں اپنے دل بو دیں
اسے سینچیں پھر اپنی آرزوئوں کے پسینے سے
کہ اس بے رنگ جینے سے نہ میں خوش ہوں نہ تم خوش ہو
پھر اس کے بعد پی این اے کے ہم وزن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے منتخب حکومت کی جمہوری بساط لپیٹنے کے لئے احتجاجی جلسوں کے سیاسی شیڈول جاری ہوئے۔ جب جلسے رنگ پکڑنے کے بجائے بھنگ پڑنے جیسے نتائج دینا شروع ہوئے تو پی ڈی ایم کی میڈیائی ساکھ والی ریٹنگ بحال رکھنے کے لیے ملک کی تمام اسمبلیوں سے ساری پارٹیوں کے ارکان کے استعفوں کے اعلانات ہو گئے۔ غیر فطری مفادات کی سیاست‘ میڈیائی ڈھول پر بھی جمع نہ ہوئی تو لانگ مارچ ون‘ لانگ مارچ ٹو‘ لانگ مارچ تھری اور پھر لانگ مارچ فری جیسی شعبدہ بازیوں کے ناٹک آتے اور جاتے رہے۔ پرائم منسٹر عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تذکرے بھی ہوئے۔
2020ء کے ستمبر سے لے کر مارچ 2021ء تک پی پی پی اور پی ایم ایل این کی سیاسی پارٹنرشپ میں کسی ایکشن فلم سے زیادہ Twists and turns آئے۔ پی ڈی ایم کی رخصتی کے مناظر ''رُلائو گے کیا‘‘ والے ہیں۔ ''پیپلز پارٹی زندہ باد‘‘ کے گلا پھاڑ نعرے لگانے والی نائب صدر (ن) لیگ مریم نواز اب پی پی پی کو سلیکٹڈ قرار دے رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے اکلوتے کراوڈ پُلر کے دشمنوں کی طبیعت ذرا ناساز ہے‘ بلکہ ناسازگار کہئے۔ پی پی پی والے بھائی صاحب نے (ن) لیگ والی بہن صاحبہ کو لمبے سانس لینے اور ٹھنڈا پانی پینے کا نادر نسخہ بھی بتا چھوڑا ہے۔
پی ڈی ایم کے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار نے عدالتی احتجاج پر ٹھنڈا پانی ڈال کر بہت لمبا سانس لیا۔ اتنا لمبا کہ جو اُنہیں کھینچ کر سلیکٹڈ چیئرمین کے پاس رسائی کے لئے لے گیا۔ رسائی ختم ہوئی تو باپ والی علمی بحث نے جنم لیا۔ ذرا سوچیں‘ اگر NAB سے نیب بنتا ہے تو پھر BAP سے باپ کیسے بن گیا؟ ویسے اتحاد کی ضرورت کے وقت کس کس نے کس کس کو باپ بنایا؟؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved