یومِ پاکستان کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے نام پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تہنیتی پیغام میں دونوں ملکوں کے مابین خوشگوار تعلقات کا عندیہ دیا جبکہ دنیاجانتی ہے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے اس سے قبل ہی ماضی کو بھلا کردوطرفہ ڈائیلاگ کے دروازے کھولنے کی بات کی گئی؛ تاہم اس کیلئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت کی جانب سے پیش رفت ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان اور بھارت کے مابین سازگار ماحول استوار ہونا ممکن نہیں۔ بھارت نے دنیا کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے غیرقانونی زیرِتسلط کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہوئی ہے، کشمیریوں کے حقِ رائے دہی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھا ہوا ہے، مسئلۂ کشمیر پر امریکا‘ چین اور برطانیہ جیسے ممالک کی ثالثی کی ہر پیشکش رعونت کے ساتھ ٹھکرائی جا چکی ہے، ممبئی حملوں کے بعد سے اس نے پاکستان کے ساتھ ہر سطح کے دوطرفہ مذاکرات کے دروازے بھی بند کر رکھے تھے‘ اس تناظر میں بھارتی وزیراعظم کی ''پاکستان کے عوام‘‘ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش اسی صورت قابلِ عمل ہوگی جب بھارت پاکستان کے ساتھ باہم مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کشمیر اور پانی جیسے درپیش مسائل کے حل پر آمادہ ہو۔
اس سے قبل دونوں اطراف کی فوجی قیادت نے لائن آف کنٹرول پرفائربندی کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے 2003 ء کے معاہدے کو بحال کیا جس سے یقینا سرحدوں پر تنائو میں کمی واقع ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیش رفت صرف یہیں تک محدود رہے گی؟ درحقیقت مودی نے امن پیغام کی آڑ میں نیا ''پینترا‘‘بدلا ہے کیونکہ نہتے کشمیریوں کا محاصرہ ختم کئے بغیر مذاکرات بھارتی فریب کے سوا کچھ نہیں جو ''بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘کے مترادف ہے۔ خطے میں قیامِ امن کیلئے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی سے متعلق لاگو قانون کو منسوخ کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھا م وقت کا تقاضا ہے۔ سیکولر ازم کے نام پر دھبہ بننے والے بھارتی وزیراعظم مودی اکثریت کے بل بوتے پر بدترین فاشسٹ ثابت ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنانے اور عقوبت خانوں میں لے جا کر شہیدکرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ موجودہ دور میں ''ہالو کاسٹ‘‘ کی اس سے بدتر مثال کیا ہو سکتی ہے؟ بھارت کی 8 لاکھ سے زائد جدید اور مہلک اسلحے سے لیس افواج کی جارحیت و بربریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لہٰذا حکومتِ پاکستان کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کے کسی فریب و جھانسے میں نہ آئے۔ دراصل مودی کی کشیدگی اور دہشت گردی سے پاک اعتماد سازی کی بات کا مقصود پاکستان کو نشانہ بنانا ہے اور ہمیں اپنی سالمیت کے حوالے سے اس خطے میں سب سے زیادہ خطرہ بھارت ہی سے لاحق ہے جو مہابھارت والے اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کی بنیاد پر پاکستان ہی نہیں‘ چین اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کا ارادہ رکھتا ہے۔ امن کا راگ الاپنے والی مودی سرکار نے اپنے پہلے دور میں بھی پاکستان کے خلاف سرحدی کشیدگی بڑھا کر جنونیت کی آگ بھڑکائے رکھی تھی، اب بھی اس کے پاکستان مخالف عزائم میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ نریندر مودی خود پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے اور اسے سقوطِ ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحے سے دوچار کرنے کی گیدڑ بھبکیاں دیتے رہے ہیں۔
کشمیر سے لے کر افغانستان تک ' را ‘نے ہر جگہ دہشت گردی کا نیٹ ور ک پھیلارکھاہے۔ نریندر مودی کی مسلم عناد پر مبنی اور پاکستان دشمن پالیسیوں نے خطے کو منفی طور پر متاثر کررکھا ہے۔ ایک طرف مودی نے ایک ہی وار سے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر لیا تودوسری جانب بھارتی مسلمانوں کو زچ کرنے کے لیے نیا شہریتی قانون (CAA) متعارف کروایا ۔ مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگِ بنیاد بھی رکھا جا چکی ہیں۔ ایک خاص ہدف کے حصول اور پاکستان کا ناطقہ بند کرنے کی غرض سے سارک ممالک کے دروازے دانستہ بند کئے جا چکے ہیں۔ 2001ء سے اب تک پاکستان کو اپنی سرزمین پر بھارت کی جانب سے 19 ہزار سے زیادہ دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، 83 ہزار سے زائد شہریوں اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئی ہیں، ان حملوں سے پاکستان کو پہنچنے والے براہِ راست معاشی نقصان کا حجم 126 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے برعکس بھارت ریاکاری اور شرانگیزی سے خود کو دہشت گردی کے متاثرین میں شمار کرتا اور دہشت گردی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالتا آیا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں اوراندرونِ ملک فالس فلیگ آپریشن کئے اور افغان امن عمل کی راہ میں حائل ہوتے ہوئے افغان سرزمین کو بھی پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بروئے کار لاتا رہا ہے۔ دوسری جانب دنیا بھر میں امن وامان کے حوالے سے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا جا تا ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ نے بھی پاکستان کی امن کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔بہتر یہی ہے کہ بھارت تمام مذموم کارروائیوں کو ترک کرے تاکہ دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب اور عرب امارات کی در پردہ مصالحت پسندی کی کا وشوں سے امن عمل پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ اب سب کی نظریںتاجکستان کے شہر دوشنبہ میں منعقدہ علاقائی کانفرنس پر لگی ہیں جہاں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہونا طے پائی ہے، مذکورہ مثبت اشاروں کے باوجود ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کشمیریوں کے قاتل بھارت کے فوجی پاک فوج سے انسدادِ دہشت گردی کی تربیت حاصل کریں اور مشترکہ جنگی مشقوں کا حصہ بنیں۔
بھارت کا فطری حلیف امریکا بھارت کی بحرانوں کے گرداب میں ہچکولے کھاتی کشتی کو استحکام دینے کے لئے پوری طرح متحرک ہو چکا ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا گزشتہ دنوں نئی دہلی کا ہنگامی دورہ ہے۔ قبل ازیںا لائیڈ آسٹن اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جاپان اور جنوبی کوریا کا دورہ بھی کیا جس کے دوران چین کے خلاف قائم ہونے والے عسکری اتحاد ''کواڈ ‘‘ کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ چونکہ امریکا‘ جاپان، آسٹریلیا، جنوبی کوریا کے ساتھ بھارت بھی ''کواڈ ‘‘ کا ایک اہم رکن ہے اس لئے پینٹاگون کے چیف کادورۂ دہلی اتنا غیر موقع نہیں تھا۔ لائیڈ آسٹن نئی دہلی میں مودی سرکار کو چین کے خلاف آمادۂ جنگ کرنے کے بعد فوری طور پر افغانستان چلے گئے تاکہ افغان سرزمین پر بھی بھارتی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ واضح رہے کہ بھارتی معیشت اس وقت بدترین گراوٹ کا شکار ہے، نیز دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریہ کو بدترین آمریت اور نازی ازم کے فروغ کا براہِ راست ذمہ دار بھی قرار دیا جارہا ہے۔ اگست 2020 ء سے کسانوں کے طویل ترین احتجاج نے بھارتی زراعت کا مستقبل مخدوش کردیا ہے۔ اسی لئے جو بائیڈن انتظامیہ نے مودی سرکار پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ کئے گئے جنگ بندی کے معاہدے کو ازسر نو پائیدار بنائے ۔ ادھریورپی یونین نے بھی دھمکی دی کہ اگر اندرونِ بھارت ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری رہا تو وہ تجارتی پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔
دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکا کو یکم مئی تک اپنی تمام افواج افغانستان سے نکالنی ہیں‘یہی وہ بنیادی شرط ہے جس پر طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ہامی بھری تھی لیکن تاحال جہاں اس معاہدے پرعملدرآمد سست روی کا شکار ہے‘ وہیں فریقین کے باہمی مذاکرات میں بھی زیادہ پیشرفت نہیں ہوسکی لہٰذا جوں جوں ڈیڈ لائن قریب آتی جا رہی ہے‘ بے یقینی اور خدشات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن کے مطابق یکم مئی کو امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا مشکل ہو گا۔ دوسری جانب طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ ''معاہدے کے مطابق یکم مئی تک امریکا نے فوج نہ نکالی تو پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں‘‘۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘ کے مصداق افغان امن عمل تبھی پروان چڑھے گا جب فریقین امن معاہدے کی پاسداری کریں گے۔