تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     29-03-2021

دعا ہی کی جاسکتی ہے

عجیب دور ہے کہ سبھی ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالنے کے درپے ہوئے جاتے ہیں۔ مسائل سے بے نیاز سب مخالفت کی پگڈنڈی پر بگٹٹ بھاگے چلے جارہے ہیں۔باتیں سنیں اور زمینی حقائق کو پرکھیں تو چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں اعلیٰ ترین حکومتی سطح سے نوید سنائی گئی کہ ملک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے، ترقی کا سفر ملک کے انتہائی پسماندہ علاقوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ نئے دور میں داخل ہونے کے باوجود ہم بدستور خیراتی ویکسین کے انتظار میں کیوں ہیں؟ ہم اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں کہ کہیں سے کسی کی نظر کرم ہم پر پڑ جائے اور ہمارا کاروبارِزندگی چلے۔ دنیا کورونا سے بچاؤ کے لیے حصولِ ویکسین پر ساری قوتیں صرف کر رہی ہے ، ہرملک کی کوشش ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے شہریوں کی ویکسی نیشن کا عمل مکمل کرلے اور ہم کاروبارِ زندگی بند کردو، لاک ڈاؤن کر دو، یہ کردو‘ وہ کردو کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔یہ تسلیم کہ ایسے اقدامات بھی وقت کی ضرورت ہیں لیکن جب یہ طے ہوچکا کہ فی الوقت کورونا سے بچاؤ کا حل صرف ویکسین ہے تو پھر اِس طرف مناسب توجہ نہ دیا جانا عقل کے تقاضوں سے بعید ہے۔ حالت یہ ہے کہ اِس معاملے میں بھی ہم خطے کے دیگر تمام ممالک سے کہیں پیچھے ہیں۔ اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، ہماری کوئی سمت بھی ہے یا نہیں۔ جو جس کے جی میں آتا ہے کرگزرتا ہے۔
چینی مہنگی ہونے کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ کا جائزہ لے لیں،اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ یہاں کس طرح سے ہرکوئی لوٹ مار میں آزاد ہے۔ براڈ شیٹ ادائیگی کے معاملے میں عظمت سعید کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیں،اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اربابِ اختیار کس اندازمیں اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر عبدالباسط، وزارتِ قانون کے سابق عہدیدار غلام رسول اور اِن کے ساتھ ساتھ حکومت کے وکیل احمر بلال صوفی نے تسلیم کیا ہے کہ پہلے 15لاکھ ڈالر غلط کمپنی کو ادا کیے گئے تھے۔ یہ اُس رقم کے علاوہ ہے جو بعد میں حقیقی براڈ شیٹ کو ادا کی گئی۔ پٹرول مہنگا ہونے کے پس پردہ حقائق کا جائزہ لیں‘ اندازہ ہوجائے گا کہ لوٹ مار کے کیسے کیسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اور اُس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
کیا یہ سب کچھ صرف غلطیوں اور کوتاہیوں کی بنا پر ہورہا ہے؟ہرگز نہیں! پس پردہ دیگر بے شمار حقائق بھی کالے ناگ کی طرح پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ اب کورونا سے نمٹنے کے لیے ویکسین درکار ہے تو ہم ہونقوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔یہاں یہ بھی جائزہ لے لیجئے کہ خطے کے دیگر ممالک میں ویکسین کے حوالے سے کیا صورتِ حال ہے۔ ہم تو یوں بھی ہر معاملے میں اپنا موازنہ خطے کے دوسرے ممالک سے کرتے رہتے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہو تو فخریہ طور پر بتایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی پٹرول کے نرخ سری لنکا اور بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ چینی مہنگی ہوجائے تو بتایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش میں تو لوگوں کو چینی مل ہی نہیں پارہی‘ وغیرہ وغیرہ۔دوسروں سے موازنہ کرنا بھی عجیب طرزِ عمل ہے۔ ہر ایک ملک، خطے اور علاقے کے اپنے مسائل ہوتے ہیںجن کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے مسائل سے غرض ہونی چاہیے اور اِس بات سے کہ ہم اِن کو حل کرپارہے ہیں یا نہیں۔ خیر! جان لیجئے کہ چند دن پہلے تک کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق‘ ہمارے ملک میں ابھی تک صرف 0.16فیصد شہریوں کی ویکسی نیشن کی جاسکی ہے۔دوسری طرف خطے کے تمام ممالک اِس معاملے میں ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ نیپال جیسا انتہائی غریب ملک بھی اپنے5.49فیصد شہریوں کی ویکسی نیشن کرچکا ہے۔ سری لنکا کے 3.9فیصد شہریوں کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے۔ بھارت بھی اپنے شہریوں کی کورونا ویکسی نیشن کے معاملے میں ہم سے کہیں بہتر پوزیشن پر ہے جہاں 3.6فیصد شہریوں کی ویکسین تک رسائی ممکن ہوچکی ہے۔ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش کا ہے جہاں یہ شرح تین فیصد تک پہنچ چکی ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کتنے فیصد شہریوں کی ویکسی نیشن ہوچکی ہے‘ اِس کاجائزہ اِس لیے نہیں لیتے کہ یہ اعدادو شمار ہمیں مزید پریشان کر دیں گے،بس اتنا جان لیجیے کہ اسرائیل جیسے ملک میں بھی پچاس فیصد سے زائد شہریوں کی ویکسی نیشن کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اِس صورت حال کی بابت کچھ اربا بِ عقل ودانش سے بات ہوئی تو اُن کی طرف سے واضح طور پر آگاہ کیا گیا کہ ابھی ایسے مزید کئی مراحل آئیں گے‘ اُن کی طرف سے حوصلہ مجتمع رکھنے کی تلقین بھی سامنے آئی۔
پاکستان شاید دنیا کا پہلا ایسا ملک بھی بن چکا ہے جہاں نجی شعبے کو ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ الگ بات کہ اِس پر مختلف اداروں کی طرف سے تحفظات سامنے آئے ہیں۔ قیمت کے معاملے پر بھی شور مچا ہوا ہے کہ دس ڈالر والی روسی ویکسین کی دوخوراکوں کی قیمت ہمارے ہاں 8449روپے کیوں مقرر کی گئی ہے۔ اِس پر حکومت کا موقف تو یہ ہے کہ جناب جو لوگ ویکسین لگوانے کے لیے انتظار نہیں کرسکتے‘ اُن کے لیے یہ آپشن ہے کہ وہ قیمت دے کر ویکسین لگوا لیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ جس ادارے کو یہ ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ، اُس کے پس پردہ کچھ اعلیٰ حکام ہیں، واللہ اعلم!بتانے والوں کا تو یہ بھی بتانا ہے کہ نجی کمپنی کی طرف سے اعتراض کیا گیا ہے کہ حکومت نے ویکسین کی کم قیمت مقرر کی ہے حالانکہ کمپنی نے یہ ویکسین زیادہ داموں میں خریدی ہے۔ اِس اعتراض پر متعلقہ ادارے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قیمتوں کا دوبارہ جائزہ لے جس کے بعد خدشہ ہے کہ قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ گویا موقع کوئی بھی ہو‘ بس پیسے جیب میں آنے چاہئیں۔ اِس کے لیے کسی بھی حربے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اکثر اِس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف ہم ملک و قوم کے غم میں دبلے ہوئے جاتے ہیں اور اندرکھاتے ایسے نازک مواقع پر بھی دولت کمانے کے طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تو اکثریت کے نزدیک دولت کا حصول ہی اولین ترجیح ٹھہرا‘ بس غم خواری کے نقاب ہیں جو ہم نے اپنے چہروں پر پہن رکھے ہیں‘ جب یہ نقاب اُترتے ہیں تو پھر سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے۔ کورونا ویکسین کے حوالے سے بھی وہی صورتِ حال پیدا ہونے جارہی ہے جیسی گزشتہ سال ماسک، سینی ٹائزر اور آکسی میٹر وغیرہ کے معاملے میں پیدا ہو چکی ہے۔
اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ کسی بھی گفتگو اور تحریر کا اختتام اِسی پر ہوتا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں‘ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ اُمید بھی صرف کہنے کی حدتک ہوتی ہے ورنہ حالات میں بہتری کی توقعات ایک کے بعد ایک دم توڑتی چلی جارہی ہیں۔ سو ہم بھی یہی اُمید کرتے ہیں کہ کوئی تو دن آئے گا جب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔کوئی پل تو ایسا ہوگا جب عوام اور حکمرانوں کے درمیان ٹوٹتا ہوا اعتماد کا رشتہ دوبارہ سے بحال ہونا شروع ہوجائے گا۔ کبھی تو ہم بھی وہ وقت دیکھیں گے جب عام آدمی کو مسائل سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوششیں ہوں گی... مگر یہ سب کچھ ہو گا کیسے‘ یہاں پر آکر عقل جواب دے جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ طاقتوروں کو قانون کے تابع کردیا گیا ہے لیکن حقیقت کیا ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ بھینس آج بھی اُسی کی ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ اِن حالات میں صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ یا اللہ! جس طرح تُو نے پہلے ہمیں بڑی حد تک کورونا سے محفوظ رکھا ہے‘ آئندہ بھی ہم پر اپنا کرم جاری رکھنا اور ہمیں ہر طرح کے دکھ، تکلیف اور آزمائش سے محفوظ رکھنا، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved