مہنگائی اپنی جگہ‘ اپوزیشن اور حزبِ اقتدار کی باہمی کشمکش اپنی جگہ‘پی ڈی ایم کا انتشار اپنی جگہ‘ اصل مسئلہ جو اس وقت مملکت کو درپیش ہے یہ ہے کہ مولانا کو تمغۂ حسن کار کردگی دے دیا گیا ہے۔آدھی سے زیادہ قوم اس پر پریشان ہے۔ دلوں میں اضطراب پَل رہا ہے۔ جسموں کے اندر روحیں بے چین ہیں کہ یہ کیا نئی بات ہو گئی۔ ایک مولانا کو ‘ ایک صاحبِ دستار و ریش کو‘ جس کا لباس ٹخنوں سے اوپر ہے‘ اتنا بڑا ایوارڈ مل گیا ہے!! حد ہو گئی!! اس سے پہلے بھی مولانا بہت سوں کی دل آزاری کا سبب بنے ہیں۔ ایک فاؤنڈیشن بنا ڈالی تاکہ اس کی آمدنی سے مدارس چل سکیں اور چندہ نہ مانگیں۔ اس پر بھی بہت سوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ تو کیا مدرسے اب ہمارے چندوں کے بغیر چلیں گے ؟ چندہ دینے والوں کا سٹیٹس جیسے اس سے مجروح ہو نے کا خدشہ تھا۔ صرف یہی نہیں ‘ ایک دوبار مولانا کسی لینڈ کروز سے اترتے دکھائی دیے۔اس سے بھی بہت سے دل دُکھے۔ بہت طبیعتیں رنجیدہ ہوئیں۔ بہت پیشانیوں پر لکیریں پڑیں!
سچ پوچھئے تو یہ کالم نگار بھی ناخوش ہے! تو کیا اب اس ملک میں مولانا حضرات کی بھی عزت افزائی ہو گی؟ ارے ہم تو انگریز آقاؤں کے وارث ہیں! انہوں نے ہمیں جو کچھ سکھایا تو کیا ہم اسے بھول جائیں ؟ انگریز تو ہمیں یہ سبق پکّا پکّا یاد کرا کر گئے تھے کہ ہمارے علما‘ ہمارے خطیب‘ ہماری مسجدوں کے امام‘ ہمارے فقیہ‘ ہمارے مجتہد‘ معاشرے کے نچلے طبقوں میں سے ہیں۔ انگریز تو انہیں کوڑی کوڑی کا محتاج کر کے گئے تھے۔ روٹی کھائیں تو محلے والوں سے مانگ کر! تنخواہ لیں تو چندوں کی بنیاد پر! ہر لمحہ ہمارے محتاج ہوں! تو کیا ہم اپنے آقاؤں کا یہ سبق فراموش کر رہے ہیں ؟ کتنی محنت کی تھی ہمارے انگریز مالکوں نے! ہمیں ذلیل و رسوا کرنے کے کتنے طریقے نکالے تھے انہوں نے ؟ ہمارے شعائر کو‘ ہماری قدروں کو‘ہماری ثقافتی علامتوں کو‘ ہمارے ہر لقب اورہر خطاب کو کس طرح گھسیٹ کر نیچے لائے تھے وہ! ہمارے عہدوں کے نام کس طرح اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالے تھے ہمارے آقاؤں نے! صوبیدار جو گورنر تھا‘ کیسے اسے ایک لفٹین کا ماتحت کیا! رسالدار اور جمعدار جو بڑے عہدے تھے ‘ کیسے ان کی بے حرمتی کی۔ خانِ سامان جو ٹیپو کی حکومت میں سپلائی اور اجناس (provisions) کا وزیر ہوتا تھا‘کیسے اسے خانساماں بنا کر باورچی کر ڈالا‘ خلیفہ کا لقب حجام کو دے ڈالا اور آفرین ہے ہم پر کہ ہم ابھی تک اپنی عزت کے ان نشانوں کی تذلیل کیے جا رہے ہیں۔انگریز نے جوشِ انتقام میں اندھا ہو کر اپنے ویٹروں‘ بٹلروں‘ کو چوانوں اور چوبداروں کو ہمارے بلند مرتبہ عمائدین کا لباس پہنا دیا۔ ہمارے اسلاف‘ ہمارے سکالر‘ ہمارے حکمران ‘ ہمارے اشراف ‘ سر پر پگڑیاں باندھتے تھے۔ شیروانیاں اور واسکٹیں زیب تن کرتے تھے‘ انگریزوں نے یہ لباس نوکروں کو پہنا کر اپنی اَنا کو گنّے کا رس پلایا۔ مگر آفرین ہے ہم پر! ہمارے ایوانِ صدر میں‘ ہمارے حکمرانوں کے دفاتر اور محلات میں ‘ آج تک ہم اپنی تذلیل کیے جا رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے ملازم پگڑی واسکٹ اور شیروانی پہن کر غیر ملکی اور ملکی مہمانوں کے لیے دروازے کھولتے ہیں‘ جھُک کر سلام کرتے ہیں۔چائے اورکھانا پیش کرتے ہیں۔اس سے الحمدللہ ٹیپو‘ سراج الدولہ‘ جنرل بخت خان‘ حافظ رحمت خان روہیلہ اور دوسرے لیڈروں کی روحیں خوب تڑپتی ہوں گی اور کلائیو‘ ڈلہوزی اور جنرل اوڈوائر کو سکون ملتا ہو گا۔
مگر انگریز کا سب سے بڑا ٹارگٹ '' مُلّا‘‘ تھا۔ مُلّاکا لفظ جو مسلمانوں کے ہاں عزت و وقار کی علامت تھا! مُلّا کا لفظ جو علم کی نشانی تھا! مُلّا کا لفظ جو بہت بڑا منصب تھا! مسلمانوں کے معاشرے میں ممتاز ترین علما‘ مدرّسین اور سکالرز کومُلّا کہا جاتا تھا۔ ایران‘ ترکی ‘ وسط ایشیا‘ ہندوستان ہر جگہ ایسا ہی تھا۔ مُلّا صدرہ شیرازی کا فلسفہ آج تک نصاب میں شامل ہے۔مُلّا تفتا زانی‘ مُلّا فیض کاشانی‘مُلّاعلی قاری‘ اور کئی دوسرے مشہور سْنّی اور شیعہ علما مُلّاا کہلاتے تھے۔ شاہجہان کے عہد میںمُلّاعبدالحکیم سیالکوٹی کی شہرت مشرقِ وسطیٰ تک پہنچی ہوئی تھی۔ دو بار بادشاہ نے انہیں چاندی میں تولا۔ آگرہ اور لاہور کی یونیورسٹیوں کے وہ وائس چانسلر رہے۔انگریز کو بہت اچھی طرح معلوم تھا کہ عسکری ‘ علمی اور ثقافتی مزاحمت کا سب سے بڑا منبع ''مُلّا‘‘ہے چنانچہ اس نے ایک پلاننگ کے تحت مُلّاکے لفظ کو تمسخر اور استہزا کا نشانہ بنایا۔اس کی تضحیک اور توہین کی۔ دو سو سال تک مسلسل بر صغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جاتی رہی کہ مُلّا تمہارا ملازم ہے اور سٹیٹس میں اس کا درجہ سب سے نیچے ہے۔ مدارس اور مساجد کے ساتھ مسلمان حکمرانوں نے جن جاگیر وں کا الحاق کیا ہوا تھا‘ وہ انگریز سرکار نے چھین لیں یہاں تک کہ مدرسے اور علما چندوں اور عطیات کے محتاج ہو گئے۔ آپ خود غور کیجیے آج محلے میں مسجد کمیٹی کے ارکان خطیب اور امام کو کیا سمجھتے ہیں اور کیا رویہ رکھتے ہیں!
توپھر تعجب ہی کیا ہے اگر آج ایک عالم ِدین کو صدارتی ایوارڈ ملا ہے اور ہم اس پر گردابِ حیرت میں غوطے کھا رہے ہیں! ہم میں سے کچھ کو تو اس سے بہت ذہنی اذیت ہوئی ہے۔ کچھ تو باقاعدہ دردِ قولنج میں مبتلا ہیں! ہم تو اداکاروں‘ کھلاڑیوں‘ موسیقاروں اور صداکاروں ہی کو ان اعزازات کا مستحق سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہیرو تو وہ جینئس ہیں جو کبھی موٹر سائیکل '' جیتنے‘‘ کے لیے اچھے بھلے شریف لوگوں کو اپنے چہروں پر کیک کی کریم تھوپنے کا حکم دیتے ہیں اور کبھی ایک ریفریجریٹر کے لیے کسی بھی مرد یا خاتون کو مسخرہ بننے پر آمادہ کر تے ہیں۔ ہم تو گویّوں کو ایوارڈ دیتے یا دلوا تے وقت یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس نے گیت نئے گائے ہیں یا پہلے سے گائے ہوئے نغموں کی دیدہ دلیری سے جگالی کی ہے۔لیکن ایک عالم ِدین‘ ایک مقرر‘ ایک مبلّغ اور فرقہ واریت کے خلاف جدو جہد کرنے والے ایک سماجی رہنما کو ایوارڈ ملے تو پوچھتے ہیں کہ کیوں ملا ہے ؟ پھر فتویٰ دے دیتے ہیں کہ مولانا کو ایوارڈ وصول ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بجا! بالکل درست! مولانا کو کیا‘ کسی بھی عالمِ دین کو کوئی ایوارڈ نہیں ملنا چاہیے! کسی باعزت سواری پر بیٹھنے کا انہیں کوئی حق نہیں!ان حضرات کو تو لباس بھی پرانا اور میلا پہننا چاہیے۔انہیں کسی قسم کی فاؤنڈیشن بنانے کا‘ بزنس کرنے کا ‘ عطیات سے بے نیاز ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ان مراعات پر‘ اس معیار ِزندگی پر ‘ ان قال اللہ اور قال الرسولؐ پڑھنے اور پڑھانے والوں کا کیا حق؟ ان پر تو ہارورڈ اور برکلے پلٹ‘ مسٹر حضرات کا حق ہے جنہوں نے ریشمی نکٹائیاں لگا کر‘ ایک ایک فُٹ لمبے سگار پیتے ہوئے‘ مغربی علم اقتصاد کا آنکھیں بند کرکے اس ملک پر اطلاق کیا اور اسے اس حال تک پہنچا یا کہ آج یہ صومالیہ کے برابر کھڑا ہے! جو ایئر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر ‘ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے‘ خوراک کی پالیسیاں وضع کرتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے۔ جو مولوی پر حلوہ کھانے کا الزام عائد کرتے ہیں اور خود‘ چھری کانٹا استعمال کرتے ہوئے ‘ سینڈوچ اور پیسٹری کے ساتھ ‘ آدھا ملک بھی کھا جاتے ہیں! بقول ظفر اقبال ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت خاک اُڑا اور بہت