تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-03-2021

ہم خوش تھے بہت رات گزر جانے پہ لیکن

اللہ رب العزت میرے پیارے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی آمدنی میں اضافہ اور پیسے میں مزید برکت عطا کرے۔ جب سے ان کی رہائشی استطاعت بارتھی‘ تونسہ اور ڈیرہ غازیخان سے بڑھتے بڑھتے ملتان تک پہنچی ہے ان کے ملتان کے نجی دوروں میں بھی اسی نسبت سے اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو بخوبی علم ہے کہ حکمرانوں کے دورے خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی‘ مخلوقِ خدا کے تو بہرحال باعثِ آزار ہوتے ہی تھے؛ تاہم جب سے حکمرانوں نے اپنی کارکردگی سرکاری افسران کی معطلی سے ناپنے کا پیمانہ بنایا ہے شکر ہے تب سے یہ دورے سرکاری ملازمین کے لیے بھی مصیبت بن گئے ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ اپنے دورۂ ملتان کے دوران عثمان بزدار صاحب نے اپنا راستہ روک کر احتجاج کرنے والے چند افراد کی اس جرأتِ رندانہ پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے ملتان کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو فوری طور پر معطل کرتے ہوئے لاہور رپورٹ کرنے کا حکم جاری فرما دیا۔ مز ے کی بات یہ ہے کہ جس روز یہ وقوعہ ہوا ڈپٹی کمشنر اُس روز نہ صرف یہ کہ رخصت پر تھا بلکہ باقاعدہ سرکاری طور پر ''سٹیشن لیو‘‘ پر بھی تھا۔ یعنی وہ ملتان شہر سے باہر جانے کے لیے سرکاری طور پر چھٹی لے کر گیا ہوا تھا؛ تاہم واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ غصہ کسی اور بات پر تھا اور بہانہ یہ بنایا گیا۔ اردو زبان میں اس کے لیے محاورہ ہے کہ ''اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ‘‘ سو ڈپٹی کمشنر ملتان کے ساتھ تو یہی ہوا۔
وزیراعلیٰ کے حالیہ دورۂ ملتان کے دوران بڑا مزیدار واقعہ ہوا۔ وزیراعلیٰ صاحب کیونکہ نجی دورے پر تھے اس لئے سڑکوں پر مچنے والی ہاہاکار سے بچنے کی غرض سے یہ طریقہ اپنایا گیا کہ وردی والے پولیس اہلکاروں کی جگہ اتنے ہی بغیر وردی والے اہلکار اس ''خفیہ پروٹوکول‘‘ پر عملدرآمد کی غرض سے تعینات کر دیے گئے۔ شنید ہے کہ تین سو کے لگ بھگ پولیس اہلکار اور درجنوں ٹریفک پولیس وارڈنز کو یونیفارم کے بغیر وزیراعلیٰ کے اس نجی دورے کو ''پروٹوکول‘‘ کے بغیر سرانجام دلوانے کی خاطر سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا اور وہ بلاتعطل اس سارے دورہ کے دوران موبائل فونز اور وائرلیس پر ان کی لویکشن‘ نقل و حرکت اور روٹ کے بارے میں حکام بالا کو مطلع کرتے رہے تاکہ افسران اپنی اپنی جگہ قائم رہیں اور ضرورت پڑنے پر کسی متوقع بدمزگی کا سدباب کر سکیں۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ کو ہوائی اڈے سے اپنی نئی ذاتی رہائش گاہ تک پہنچنے کے لیے بوسن روڈ سے ہر حال میں گزرنا پڑتا ہے۔ یہ وہی بوسن روڈ ہے جو آج کل آم کے کٹنے والے درختوں کی لکڑی سے لدی ہوئی بیل گاڑیوں اور لوڈر گاڑیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہو چکا ہے؛ تاہم وزیراعلیٰ کو اپنے روٹ پر ا یسی فضولیات کبھی نظر نہیں آئیں کیونکہ حکمرانوں کی خوشنودی میں مصروف افسران ایسی ریہڑھیاں‘ بیل گاڑیاں اور لوڈر گاڑیاں حکمرانوں کی آمد و رفت کے دوران ان کی نظروں سے پرے ہی روک لیتے ہیں۔
اچھی خبر والے گزشتہ کالم کے حوالے سے کئی قارئین نے جنوبی پنجاب میں خاص طور پر ''ٹیلر میڈ‘‘ قسم کی بنائی گئی پوسٹ پر پنجاب کی ایک بہت بڑی شخصیت کے پھوپھا کی تعیناتی کے بارے میں کچھ سوالات کیے تھے۔ میں نے قارئین کو فرداً فرداً جواب دینے کے بجائے مناسب سمجھا کہ کالم میں ہی ساری سٹوری بیان کر دوں۔ تو عرض یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنز پر مشتمل اس کاغذی نو تشکیل شدہ انتظامی یونٹ میں کی جانے والی یہ تعیناتی اپنی نوعیت کی ایک نئی اور انوکھی مثال ہے۔
سب سے پہلے تواس نئی پوسٹ کی تخلیق ہی اپنی جگہ پر بڑی حیران کن ہے۔ بھلا سپیشل برانچ کے باقاعدہ سیٹ اَپ اور موجود تجربہ کار حاضر سروس افسران کی موجودگی میں مارکیٹ سے کسی ریٹائرڈ پولیس افسر کو Lump sumتنخواہ پر تین سال کے لیے کنٹریکٹ پر ملازم رکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا اس برانچ کے ڈائریکٹر کے طور پر (اگر اس کی واقعتاً کوئی ضرورت تھی) کسی حاضر سروس افسر کو تعینات کرنے میں کوئی حرج تھا؟ کیا کسی حاضر سروس سینئر افسر کو اس پوسٹ پر تعینات کرنے میں کوئی قباحت تھی ؟ کیا اس پوسٹ کے لیے پوری پولیس سروس میں کوئی اہل شخص موجود نہ تھا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹر سپیشل برانچ جنوبی پنجاب کے عہدے کے لیے دیے جانے والے اس اشتہار کی رو سے والی بال کے کھلاڑی ہونے کی بنیاد پر پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہو کر اپنی ریٹائرمنٹ سے بمشکل چند ماہ قبل باقاعدہ ایس پی پروموٹ ہونے والے اس پھوپھا کے علاوہ روئے ارض کا کوئی ریٹائرڈ پولیس افسر اس اسامی پر پورانہیں اترتا تھا۔ اس نئے عہدے کے لیے جو شرائط بنائی گئیں وہ ایسی تھیں کہ موصوف ریٹائر شدہ پھوپھا ہی ان شرائط پر پورے اترتے تھے ان کے علاوہ کوئی حاضر سروس افسر اپنی پکی سرکاری نوکری چھوڑ کر اس تین سالہ کنٹریکٹ پر اس عہدے کے لیے بھلا کیوں اپلائی کرتا؟
اشتہار میں لکھا تھا کہ پندرہ سالہ پولیس سروس کے حامل امیدوار کی عمر 55 اور 63 سال کے درمیان ہو‘ ایک شرط یہ لگائی کہ امیدوار تین اضلاع میں ایس پی رہ چکا ہو جن میں سے کم از کم ایک ضلع جنوبی پنجاب کا ہو۔ وہ سپیشل برانچ اور سی آئی ڈی میں کام کر چکا ہو اور اسے جنوبی پنجاب کی جغرافیائی حدود سے آگاہی ہو مزید یہ کہ اس نے مختلف محکمانہ کورسز میں ڈپلومہ کر رکھا ہو۔ یہ اشتہار چیخ چیخ کر اعلان کرتا تھا کہ اس میں نام اور تصویر کی کمی کے علاوہ صرف یہ لکھنا باقی رہ گیا ہے کہ امیدوار والی بال کا کھلاڑی بھی رہ چکا ہو۔
ادھر موصوف 9 جنوری کو ریٹائر ہوئے ادھر ایک اشتہار آگیا جس میں اس پوسٹ پر اپلائی کرنے کی آخری تاریخ یکم فروری تھی۔ یہ افراتفری بھی اس لیے مچائی گئی کہ آئندہ چند ماہ میں کچھ اور ایس پی بھی ریٹائر ہونے والے تھے لہٰذا خوامخواہ کے کمپی ٹیشن کا امکان ہی ختم ہو جائے۔ پھوپھا موصوف کو اس نہایت محنت اور عرق ریزی سے بنائے گئے اشتہار کے زور پر بعد از ریٹائرمنٹ تین لاکھ روپے ماہوار کنٹریکٹ پر دوبارہ برسر روزگار کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ موصوف دوماہ قبل اس سے آدھی تنخواہ پر ریٹائر ہوئے تھے۔ اس غرض سے پیشگی انتظامات کرتے ہوئے آئی جی پولیس پنجاب انعام غنی نے مورخہ 16اکتوبر کو ہی ایک سمری وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیجی جس میں جنوبی پنجاب میں ڈائریکٹر سپیشل برانچ کا عہدہ تخلیق کرنے اور نئی بھرتی پر عائد پابندی کو نرم کرتے ہوئے اجازت طلب کی۔ اس کے لیے جنوبی پنجاب سب سیکریٹریٹ کو فعال کرنے کی غرض سے دلائل کا انبار لگایا گیا۔ اس کے علاوہ سپیشل برانچ کی اہمیت پر بڑا زور دیتے ہوئے اس سمری کو جلد از جلد منظور کرنے کی درخواست کی۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے یہ سمری ایس اینڈ جی اے ڈی اور فنانس ڈیپارٹمنٹ بھیج دی۔ دو ہفتے بعد فنانس ڈیپارٹمنٹ نے یہ سمری منظوری کے نوٹ کے ساتھ وزیراعلیٰ کو بذریعہ چیف سیکرٹری کو بھجوا دی۔ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری نے اس پر نوٹ لکھا کہ وزیراعلیٰ نے سمری دیکھ لی ہے اور اس معاملے کو کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کرنے منظور کروانے کا کہا ہے۔ ابھی یہ معاملہ کابینہ کی قائمہ کمیٹی میں بھی پیش نہ ہوا اور پھوپھا محترم کو اپا ئنٹمنٹ لیٹر جاری ہو گیا۔ نئے پاکستان میں میرٹ کی سربلندی کے بڑے دعوے سنے تھے مگر بقول شوکت فہمی ؎
ہم خوش تھے بہت رات گزر جانے پہ لیکن
یہ دن تو وہی کل سا دوبارہ نکل آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved