تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     30-03-2021

افغان امن عمل

جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ امن جنگ کی عدم موجودگی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ممالک دوسرے ملکوں کے ساتھ جنگ نہ کر رہے ہوںوہ آپس میں امن سے رہ رہے ہوں۔ آج امن کا مطلب ریاستوں یا ممالک کے درمیان فوجی تنازع سے بڑھ کر کچھ ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے قوموں کے اندر ہم آہنگی اور آسودگی۔ یہی امن ہے جس کی افغانستان کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ جاری افغان جنگ کے پورے عرصے میں بنیادی مسئلہ یہ نہیں رہا کہ یہ جنگ کس طرح لڑی جائے بلکہ یہ رہا ہے کہ اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے گا۔ اس معاملے میں فوجی تاریخ کا جو بنیادی سبق نظرانداز کیا گیا‘ یہ ہے کہ آپ کو جنگ شروع نہیں کرنی چاہئے جب تک آپ کو یہ نہ معلوم ہوکہ اسے ختم کیسے کرنا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے تناظر میں افغانستان پر حملہ کر دیا‘ دہشت گردی کے خلاف ایک غیرمتعلق جنگ شروع کر دی‘ اس نے افغان طالبان کو اقتدار سے ہٹا دیا‘ لیکن وہ انہیں کبھی شکست نہ دے سکا۔آج بیس سال بعد‘ افغانستان سے انخلا کا راستہ تلاش کرتے ہوئے‘ امریکہ اب بھی ایک ایسے 'تزویراتی توقف‘ کی تلاش میں ہے جس کی آڑ میں وہ پیچھے ہٹ سکے‘ لیکن مکمل طور پر نہیں۔ وہ 'انسدادِ دہشت گردی‘ مشن کے تحت افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ کم و بیش نصف صدی سے افغانستان بدامنی کا شکار ہے۔ نقصانات جو بھی ہوں‘ افغانستان میں امن طویل عرصے سے واجب العمل ہے‘ لیکن افغانستان میں امن صرف حقیقی افغان مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی قائم ہوگا۔ ہم پاکستان کے رہنے والے ایک مستحکم‘ خودمختار اور متحد افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنے طور پر اور اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن ہو‘ لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ افغان پاکستان کی آزادی اور سالمیت کا احترام کریں‘ اور بھارت کو پاکستان کیخلاف تخریبی سرگرمیوں کیلئے افغان سرزمین استعمال نہ کرنے دیں۔ درحقیقت پاکستان ہمیشہ افغانستان میں امن کا خواہاں رہا ہے‘ کیونکہ افغانستان میں امن کا مطلب ہے‘ پاکستان میں امن۔یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے کہ اسکے پڑوس میں تنازع تسلسل سے جاری رہے۔
دنیاافغان امن اور مفاہمتی عمل میں سہولت پیدا کرنے کے حوالے سے پاکستان کے ناگزیر کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے معاملے میں 2014ء سے تمام نظریں پاکستان پر مرکوز تھیں۔ کابل حکومت خاص طور پر آرزو مند تھی کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے سلسلے میں ان کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات بروئے کار لائے۔ جولائی 2015 میں ہم مری میں ایک بے مثال چار فریقی امن کوشش کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات کی میز پر تھے جبکہ پاکستان‘ امریکہ اور چین نے مبصر کی حیثیت سے بات چیت کے اس عمل میں شرکت کی۔ یہ کابل حکومت اور طالبان کے مابین پہلا براہِ راست رابطہ تھا۔ پاکستان کی ہی حمایت اور مدد سے بالآخر امریکہ اپنے نمائندے زلمے خلیل زاد کے توسط سے طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تقریبا دو دہائیوں کی طویل جنگ کے بعد بالآخر امریکہ اور افغان طالبان نے 29 فروری 2020ء کو دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدے سے پاکستان کے موقف کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ افغانستان میں امن صرف مذاکرات کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔
حتمی تجزیے میں‘ صرف افغان ہی اپنے مقدر کے حتمی ثالث ہیں‘ لیکن اسی خطے میں ایسی قوتیں بھی موجود ہیں جو افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے کام کر رہی ہیں مگر تمام ہمسایہ اور علاقائی ممالک کو عدم مداخلت اور عدم رکاوٹ کے اصولوں کا احترام کرنا چاہئے اور کسی تیسرے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنیوالی سرگرمیوں کیلئے افغان سرزمین کو استعمال کرنے سے باز رہنا چاہئے۔ علاقائی دشمنیاں آسانی سے تنازع کو ہوا دے سکتی ہیں اور یہ آگ پاکستان کے دامن تک بھی پہنچ سکتی ہے‘ اس لئے ان تفرقہ پرست قوتوں پر قابو پانا ضروری ہے۔ کئی دہائیوں سے‘ پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کا گھر رہا ہے‘ اور اب وہ چاہتا ہے کہ یہ مہاجرین جلد سے جلد امن کی حالت میں اور وقار کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ ہم پاکستانی افغان عوام کے خیر خواہ ہونے کے ناتے یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک ہموار‘ پُرامن منتقلی کے ذریعے افغانستان بیرونی اثرورسوخ سے آزاد ایک خود مختار اور متحد ملک بن جائے۔ ہم ایک ایسے امن عمل کی حمایت کرتے ہیں جس کی ملکیت اور قیادت خود افغانوں کے پاس ہو۔ یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام اس خطے‘ یہاں تک کہ وسیع تر عالمی تناظر میں تمام ریاستوں کی سلامتی کے خدشات سے پوری طرح واقف اور آگاہ ہے۔ افغان حکومت کو بھی اپنی گورننس کو بہتر بنانے اور بیرونی اثرورسوخ کو روکنے کیلئے قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کے سلسلے میں اپنے عملی انداز کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اہم ہے کہ افغانستان میں امن عمل خطے کی تمام ریاستوں کی سلامتی کے خدشات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ایک حقیقی افغان امن عمل میں دو متوازی ٹریکس پر کام ہونا چاہئے: پہلا‘ گورننس کے داخلی مسائل پر توجہ دینا‘ اور دوسرا‘ افغانستان کی غیر جانبدارانہ حیثیت اور علاقائی سلامتی کی یقین دہانیوں کے معاملات طے کرنا۔ افغان ثقافت کی پیچیدگیوں کو پیش نظر رکھا جائے تو بین الافغان مفاہمتی عمل کوئی ہموار سفر نہیں ہو گا۔
لیکن افغان جانتے ہیں کہ اس بار 'اب یا کبھی نہیں‘ والا معاملہ ہے۔ انہیں متحد ہونے اور ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کیلئے اپنی تفرقہ انگیز دھڑے بندیوں والی سیاست سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ افغانوں کو اپنی ثقافت اور روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اندرونی معاملات طے کرنا ہوں گے۔ جہاں تک علاقائی ضمانتوں کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کو کسی مناسب کثیر جہتی فورم کے ذریعے اور افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کی مدد سے علاقائی اور عالمی سلامتی کے خدشات کو ختم کرنے کیلئے اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہئے۔ اس پس منظر میں‘ واشنگٹن کا تازہ ترین اقدام خوش آئند پیشرفت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے صدر اشرف غنی کے نام دوٹوک الفاظ میں لکھے گئے ایک خط میں آئندہ ہفتوں میں ان کی ''ارجنٹ لیڈرشپ‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ نے اب طالبان کے ساتھ ایک سیاسی حل کے حوالے سے ''معاملات کو بنیادی لحاظ سے اور تیزی کے ساتھ‘‘ آگے بڑھانے کے سلسلے میں اقدامات‘ جن میں فائر بندی اور علاقائی انتظامات بھی شامل ہیں‘ کی منصوبہ بندی کی ہے۔ بائیڈن نے زلمے خلیل زاد کو برقرار رکھا ہے کہ وہ اپنا افغان مشن جاری رکھیں۔ اس سے بائیڈن کی امریکہ کو تاریخ کی سب سے طویل جنگ سے نکالنے میں سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ بلنکن نے اشرف غنی کو بتایا کہ وہ ان منصوبوں کے بارے میں عبداللہ عبد اللہ کے ساتھ بھی بات کریں گے۔ یاد رہے کہ عبداللہ عبداللہ اس وقت افغانستان کی قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ہیں‘ اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔ امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کیلئے مئی کی حتمی حد کے پیشِ نظر بائیڈن اشرف غنی کو تیزی سے کام کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
ایک مستحکم اور متحد افغانستان کو محفوظ بنانے کیلئے افغانستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے دنیا بھر کے کارپوریٹ سیکٹر کے ایک اہم کردار کی ضرورت ہوگی۔ ضروری ہے کہ امریکہ‘ چین اور روس اس عمل کی حمایت کرتے رہیں۔ پاک چین پارٹنرشپ میں پاک افغانستان بارڈر کو وسطی ایشیا میں کھلنے والے اقتصادی گیٹ وے میں تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved