طویل مدت کے دوران پروان چڑھنے والی خرابیاں راتوں رات کہاں ختم ہوتی ہیں؟ سوچنے اور لکھنے والوں کے ذہن میں ایک خیالی دنیا پائی جاتی ہے جس میں سب کچھ درست چل رہا ہوتا ہے۔ خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی یہ دنیا بہت دکھ دیتی ہے۔ سوچنے اور لکھنے والے چاہتے ہیں کہ حقیقی دنیا بھی ویسی ہی ہو جائے جیسی اُن کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا۔حقیقی دنیا میں سفاکی ہے، تلخی ہے، سختی ہے۔ کوئی اگر آنکھیں بند کرکے جیے تو اور بات ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ذہنوں میں پائی جانے والی دنیا کی طرز پر حقیقی دنیا کو تبدیل کرنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ مرزا تنقید بیگ کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ماہِ صیام کی آمد پر بے چینی؟ کیا کیجیے کہ ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے۔ جوں جوں ماہِ صیام نزدیک آتا جاتا ہے، مرزا کے فشارِ خون کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔ مرزا کی زندگی کا واضح مقصد صرف ایک ہے‘ کھانا پینا۔ رمضان المبارک کی آمد میں جب پندرہ بیس دن رہ جاتے ہیں تو اُنہیں صرف یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اشیائے خور و نوش کا کیا بنے گا حالانکہ ہر سال جو کچھ ہوتا ہے وہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے کہ یہ ماہِ مبارک کھانے پینے سے نمایاں احتراز کا مہینہ ہے تاکہ جسم کی پیچیدگیاں دور ہوجائیں اور طبیعت میں زبردستی کا اضمحلال پیدا نہ ہو مگر وہ کہاں مانتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماہِ صیام میں وہ معمول سے کہیں زیادہ کھاتے ہیں اور وہ بھی خاصے تنوع کے ساتھ۔ پکوڑے، شربت، فروٹ چاٹ، دہی بڑے، بریانی، پلاؤ، فرنی، کھیر، کھٹے آلو، تلی ہوئی مرچیں،گویا ع
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
ایسے میں طبیعت کا مکدّر ہو جانا فطری امر ہے۔ مرزا کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ وہ افطار کے وقت سے شروع ہوتے ہیں تو سحری تک کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے ہی رہتے ہیں۔ اور ''کچھ نہ کچھ‘‘ تو ہم روانی میں لکھ گئے ورنہ وہ تو بہت کچھ کھا جاتے ہیں! مرزا ماہِ صیام کے دوران طبیعت کی گرانی کا شکار رہتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ ہم نے انہیں سمجھایا نہ ہوگا؟ ہم نے کئی بار دیوار سے سر پھوڑا ہے، ہم خود اُنہیں کئی بار کلینک لے کر گئے ہیں۔ ہم تو ہم، ڈاکٹرز کے سمجھانے کا بھی اُن پر کچھ خاص اثر نہیں ہوتا۔ کل ملاقات ہوئی تو ہم نے انہیں حسبِ معمول پریشان پایا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اشیائے خور و نوش کے بڑھتے ہوئے نرخوں سے پریشان ہیں۔ چکن کے دام نیچے آنے کا نام لے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی ڈشیں چکن کے بلند نرخوں تلے دب گئی ہیں! پھلوں کے دام بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ سبزیاں ایک ڈیڑھ ماہ سے قابو میں تھیں مگر اب پھر بے قابو ہونے کی تیاری کر رہی ہیں۔ مرزا کو پریشان دیکھ کر ہم نے عرض کیا کہ اگر اشیائے خور و نوش مہنگی ہوتی ہیں تو ہو جائیں، یہ تو پورا کا پورا مہینہ کھانے سے بہت حد تک اجتناب برت کر جسم و جاں کو راحت دینے کا ہے۔ سال بھر کھاتے پینے رہنے سے جسم کی مشینری پر جو تھکن سوار ہو جاتی ہے کچھ اُس کا خیال کرکے کم کھائیے تو اِس کا اجر بحال ہوتے ہوئے جسم کی صورت میں ملے گا۔ ہماری بات مرزا کے حلق سے اتری نہیں۔ تڑ سے جواب دیا ''ارے بھائی! تم بھی پتا نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہو؟ یہ ایک ماہِ مبارک ہی تو ہے جس میں جسم و جاں کی راحت کا ڈھنگ سے کچھ سامان ہو پاتا ہے۔ ہم سال کے گیارہ ماہ عمومی سا تو کھاتے پیتے ہیں۔ روزوں کے موسم میں رگِ جاں کو تر رکھنے کا کچھ خاص اہتمام کیا جاتا ہے‘‘۔ مرزا کا یہی مسئلہ ہے کہ جہاں دیکھی تَری، وہاں بچھائی دَری۔ ہم نے اُنہیں بھرے پیٹ پر بھی بہت کچھ کھاتے دیکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ اُنہیں بے حساب و لگاتار کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ بے ہوش ہوتے ہیں تو ہو جائیں، مرزا پر کوئی اثر مرتب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہم نے خاصے مودّب پیرائے میں عرض کیا کہ ماہِ صیام روح کے ساتھ ساتھ جسم کی بھی تربیت کے لیے ہے۔ روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں کہ ہم اپنے جسم کو تھوڑی سی تکلیف میں مبتلا کریں تو اندازہ ہو کہ وہ لوگ کس طور جیتے ہیں جنہیں پورا سال پیٹ بھر کھانے کو نہیں ملتا اور جو کبھی کسی کے آگے دستِ سوال بھی دراز نہیں کرتے۔ ماہِ مبارک تو اپنے وجود کو اجتناب برتنے کی تربیت دینے کا موسم ہے اور ہم ہیں کہ اس موسم میں بھی لذتِ کام و دہن کے اہتمام سے بلند ہونے کا نام نہیں لیتے۔
مرزا سے ہماری یہ بات کہاں ہضم ہوسکتی تھی؟ جیسے ہی ہم نے بھوک سہہ کر جسمانی تربیت کے ذریعے روحانی بالیدگی کے مرحلے سے گزرنے کی بات کی، مرزا پھٹ پڑے ''ارے میاں! تم بھی پتا نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہو۔ احتیاط پسندی کا فسانہ چھیڑنے سے فرصت نہیں۔ جب دیکھو، نظم و ضبط کا راگ الاپتے رہتے ہو۔ قدرت نے نوازا ہے تو کھاؤ۔ جو کچھ کھایا پیا پچایا اور جو کچھ پہنا بس وہی اپنا ہے، باقی سب تو دوسرے لے اڑیں گے‘‘۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے نقطۂ اعتراض اٹھایا کہ آپ دوسروں کے لیے کچھ چھوڑتے کب ہیں! دوسرے تو بے چارے منہ ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مرزا سے کچھ بچے تو کوئی کچھ پائے، کچھ حِظ اٹھائے۔ ہر سال یہی ہوتا ہے۔
مرزا کو نوید ہو کہ اُن کا سالانہ معمول اب قوم کے بڑے حصے نے اپنالیا ہے۔ ماہِ صیام ہمیں تبدیل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے مگر ہم اس موقع کو یوں ضائع کرتے ہیں کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ ضبطِ نفس سکھانے والے ایام کو ہم بے لگام ہونے کی کوشش کی نذر کرتے رہنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ قوم کا یہ مزاج کئی عشروں کے دوران پروان چڑھا ہے کہ جس ماہِ مبارک میں ضبطِ نفس کا مظاہرہ کرنا ہے اُسی میں کھانے پینے کے معاملات کو یکسر بے لگام چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کئی ماہ تک اِس کا خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں۔ اور معاملہ کھانے پینے تک کہاں محدود رہتا ہے؟ روحانی بالیدگی یقینی بنانے کے لیے نصیب ہونے والا ماہِ مبارک عید الفطر کی بجا و بے جا تیاریوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ عبادات پر متوجہ رہنے کے بجائے لوگ مہینہ بھر سوچتے رہتے ہیں کہ عید کے دن کو کس طور زیادہ سے زیادہ رنگین بنائیں۔ اس معاملے میں غیر ضروری اخراجات سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ عید کی تیاریوں کے لیے اُدھار لینے سے بھی باز نہیں آتے۔ رمضان المبارک اللہ کا ایک نمایاں انعام ہے۔ اللہ سے قریب کردینے والی ساعتوں پر مشتمل یہ سالانہ معمول ہمیں زندگی کو نیا رخ دینے کا موقع عطا کرتا ہے۔ جو اللہ کی طرف پلٹتے ہیں وہ بہت کچھ پاتے ہیں۔ ماہِ صیام کی بابرکت ساعتوں کو دنیا داری کی نذر کرنا نری حماقت ہے جس سے بچنے کی توفیق اللہ سے ضرور مانگنی چاہیے۔ ایمان کو تازگی عطا کرنے کے لمحات کسی ایسی سرگرمی پر صرف نہیں کرنے چاہئیں جو ہمارے لیے معمول کا درجہ رکھتی ہو اور جس سے گریز کی صورت میں بظاہر کسی خسارے کا احتمال بھی نہ ہو۔
قوم یہ طے کیے بیٹھی ہے کہ اصلاح کا موقع ملنے پر بھی اصلاح یقینی بنانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ بظاہر ضد سی پڑی ہے کہ خرابیوں ہی کو اپنایا جاتا رہے گا اور جس طور بھی ممکن ہوا، خوبیوں سے دامن کش رہا جائے گا۔ ایک بار پھر ماہِ صیام نصیب ہو رہا ہے۔ ہم تبدیلی کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر خود کو ذرا سا بدلنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ جو مبارک ساعتیں آنے والی ہیں اُن کا تقاضا ہے کہ ہم دنیا ہی میں رہتے ہوئے کچھ دنوں کے لیے دنیا سے تھوڑا سا کنارا کرلیں۔ ایسا کرنے سے ہم اپنے وجود کا جائزہ لے سکیں گے، اپنی بہت سے خامیاں اور کمزوریاں دور کرنے کا ذہن بناسکیں گے۔