بینک میں داخل ہوتے ہی ڈاکوئوں نے تیز اور کرخت آواز سے چلاتے ہوئے بینک ملازمین سے کہا: ’’تم میں سے کوئی گڑ بڑ کرنے کی کوشش نہ کرے ورنہ تم سب بے موت مارے جائو گے۔ یاد رکھو! بینک کی دولت تمہاری نہیںبلکہ حکومت کی ہے‘ تمہاری اپنی تو صرف زندگیاں ہیں‘ اگر تم نے ان کی حفاظت کرنی ہے تو سب چپ چاپ خاموشی سے نیچے لیٹ جائو‘‘۔ اس بات نے بینک ملازمین کے ذہن بدل دیے اور وہ خاموشی سے فرش پر لیٹ گئے۔ فرش پرلیٹی ایک خاتون ورکر نے جسمانی حرکت سے ایک ڈاکو کو اپنی طرف متوجہ کرنے کوشش کی تو ڈاکو نے اسے غراتے ہوئے وارننگ دی کہ اس طرح کی گھٹیا حرکتیں بند کرو‘ ہم صرف بینک لوٹنے آئے ہیں۔ اس سے بینک ملازمین پر یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ ڈاکو صرف اپنے پیشے پر توجہ رکھتے ہیں۔ دونوں ڈاکو بینک لوٹ کر اپنے ٹھکانے پر واپس پہنچے تو ایک ڈاکونے دوسرے سے کہا: بھائی! اب ہمیں لوٹی ہوئی رقم گن لینی چاہئے۔ اس سے بڑی عمر کے ساتھی ڈاکو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا: ارے بے وقوفی کی بات مت کر‘ دیکھ نہیں رہے کہ لوٹی ہوئی رقم اس قدر زیا دہ ہے کہ اگر ہم اسے گننا شروع کردیں توسارا دن گذر جائے گا‘ کچھ دیر انتظار کر لو‘ شام تک ٹیلی ویژن پر بینک سے لوٹی ہوئی دولت کی ساری تفصیل آ جائے گی۔ یہ سن کر کم عمر ڈاکو خاموش ہو گیا ۔۔۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ اس کے سینئر ڈاکو کا تجربہ بول رہا ہے۔ ڈکیتی کے بعد بینک منیجر نے سپروائزر سے پولیس کو اطلاع کرنے کے لیے کہا۔ سپروائزر نے منیجر سے کہا کہ کیوں نہ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکوئوں کی لوٹ مار سے بچی ہوئی بینک میں موجود رقم کو ان سات کروڑ روپوں سمیت اس ڈکیتی میں شامل کرد یں جو ہم نے چپکے سے نکلواکر سٹاک ایکسچینج میں لگائی ہوئی ہے۔ بینک منیجر نے سپروائزر کو اس تجویز پر شاباش دیتے ہوئے کہا\'\'This is called swim with the tide\'\'۔سپروائزر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا‘ کیا ہی اچھا ہو اگر ہر چھ ماہ بعد ہمارے بینک میں ڈکیتی کی واردات ہو جایا کرے ۔شام تک ٹیلیویژن اور پھر اگلے دن کے تمام اخبارات کی شہ سرخیوں میں بتایا گیا کہ نقاب پوش ڈاکو فلاں بینک سے اسلحہ کی نوک پر دس کروڑ روپے لوٹ کر فرار ہو گئے۔ ٹی وی کی خبریں سنتے ہی ڈاکو لوٹی ہوئی رقم کو گننا شروع ہو گئے۔ انہوں نے کئی دفعہ لوٹی ہوئی رقم گنی جو دو کروڑ روپے سے زیادہ نہیں تھی۔ بڑا ڈاکو غصے میں آ کر کہنے لگا: ہم نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر بینک سے دو کروڑ روپے لوٹے‘ لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں‘ ہمیں گالیاں دیتے ہیں‘ پولیس اور قانون سے ہر وقت خوفزدہ رہتے ہیں لیکن بینک منیجر نے اپنی انگلی کی ایک حرکت سے آٹھ کروڑ روپے لُوٹ لیے پھر بھی بڑا معزز ہے۔ کاش ہم نے بھی تعلیم حاصل کی ہوتی اور حساب کتاب پڑھ کر چور ڈاکو کی بجائے بینک منیجر بن کر دولت لوٹتے اور باعزت بھی جانے جاتے۔ میٹرک پاس کم عمر ڈاکو بھی اپنے ساتھی کی طرح غصے میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ سکول ماسٹر صاحب ہمیں پڑھائی میں دلچسپی لینے کی اس لیے تلقین کرتے اور سمجھاتے تھے کہ ’’علم سونے سے زیا دہ قیمتی اور فائدہ مند ہوتا ہے‘‘۔ دوسری طرف بینک منیجر اور اس کا نائب اپنے بیڈ روم میں لیٹے مسکرا تے ہوئے ڈاکوئوں کو دعائیں دے رہے تھے کہ ان کی وجہ سے بینک سے چپکے سے نکال کر شیئر مارکیٹ میں لگائے گئے سات کروڑ روپوں کی اب ان سے بازپرس نہیں ہو گی۔ یہ کہانی ابھی پڑھ رہا تھا کہ دنیا ٹی وی کی ایک بریکنگ نیوز میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پہلی قسط کے طور پر IPPsکو ادائیگیوں کیلئے326 بلین روپے کی منظوری دے دی ہے۔ 29جون کے اخبارات کی شہ سرخیاں تصدیق کر رہی تھیں کہ 200 ارب روپے شام تک ادا بھی کر دیے گئے ہیں۔ مزید 260 ارب روپے جولائی کے آخر تک ادا کرد یے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ایک خبر اور تھی جس میں سپریم کورٹ نے پی پی پی کی سابق حکومت کی طرف سے کی گئی مبینہ کرپشن پر شکوہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک سے پوچھا تھا: ’’اٹارنی جنرل صاحب ملکی دولت بچائیں یا بتا دیں کہ حکومت نے مفاہمت کر لی ہے‘‘۔ ابھی سپریم کورٹ کی طرف سے اٹارنی جنرل سے کیے جانے والے شکوے کا پس منظر جاننے کی کوشش کررہاتھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی کے وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کو لکھا گیا ایک خط سامنے آ گیا جس کے مطابق آئی پی پیز نے گزشتہ دس برسوں میں ایک ہزار ارب روپے اضافی وصول کیے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ سپریم کورٹ کا اٹارنی جنرل سے ملکی دولت لٹنے کا شکوہ راجہ پرویز اشرف کے بارے میں تھا یا ان آئی پی پیز کو ایک ہزار ارب روپے کی اضافی ادائیگی کے بارے میں‘ جن کے جناب منیر اے ملک لیگل ایڈ وائزر بھی تھے۔ میں اس کی ذمہ داری کا تعین اور اس کی تفصیل سپریم کورٹ کے ’’ سووموٹو‘‘ پر چھوڑتا ہوں۔ ہو سکتا ہے سپریم کورٹ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو بلا کر تفصیل پوچھ لے تاکہ قوم کا کسی بھی طریقے سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لیا جاسکے۔ ایک معاصر کے مطابق عادل گیلانی نے پانی اور بجلی کے وزیر خواجہ آصف کے علاوہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو بھی یہ شکایت ارسال کی ہے کہ نجی پاور پلانٹس کو منافع کی مد میں ان کے اخراجات کے اٹھارہ فیصد کے برابر ریاستی ضمانت فراہم کی گئی لیکن آئی پی پیز نے غیر قانونی طور پر اٹھارہ فیصد سے زائد فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنے اخراجات اور پیداواری لاگت کو اصل سے بڑھا کر پیش کیا ہے۔24 ستمبر2012ء کو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق آئی پی پیز اپنے اخراجات میں ان بوگس اضافوں کی ذمہ دار ہیںکیونکہ انہوں نے آپریشن اور مینٹیننس کے اخراجات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا اور ٹیکنیکل سروسز کے لیے زائد ماہانہ اخراجات ادا کیے۔ مٹیریل اور دوسری اشیا کے حصول کے اخراجات زیا دہ ظاہر کیے، بجلی کی پیداوار میں مبالغے سے کام لیا گیا،کئی آپریشنز کے لیے زیادہ قیمت پر ذیلی معاہدے کیے گئے اور معاہدے کرنے والوں سے90 فیصد اضافی ادائیگیاں واپس لے لی گئیں۔ جعلی معاہدے اور اشیا خریدنے کی جعلی بلنگ کی گئی۔ نیپرا کو کہا گیا کہ وہ آئی پی پیز کے اخراجات کی حقیقت اور ادائیگیوں کا طریقہ کار جانچ پڑتال کے لیے ریکارڈ فراہم کرے لیکن ابھی تک نیپرا نے ایسا نہیں کیاجو نیپرا کے آرٹیکل19اے کے تحت غیر قانونی ہے جس کے تحت نیپرا یہ معلومات عوام کو فراہم کرنے کی پابند ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا یہ خط پڑھنے کے بعد کہیں آپ بھی اس ڈاکو کی طرح تو نہیں سوچنے لگے! گیارہ مئی کے انتخابات میں کامیابی کا اعلان ہوتے ہی پاکستان کے صرف ایک انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر IPPAC کی جانب سے ایک اشتہار شائع کرایا گیا تھا جس میں نئی حکومت کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر ہمیں 560 ارب روپے کی ادائیگی کر دی جائے تو ہم چند دن بعد4500 میگا واٹ بجلی فراہم کر دیں گے۔ حکومت ادائیگیاں تو کر رہی ہے لیکن ابھی تک لوڈشیڈنگ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ کوئی ہے جو یہ معمہ حل کر سکے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved