تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     31-03-2021

تبدیلی آ گئی ہے؟

ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا عَلم لے کر اٹھنے والی پی ڈی ایم کی تحریک فی الوقت اپنی داخلی تطہیر کے عمل سے گزر رہی ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس اتحاد میں شامل ایک بڑی جماعت پیپلزپارٹی کی سیاسی ترجیحات پی ڈی ایم کے مرکزی بیانیے سے متصادم ہوتی جا رہی ہیں اور مفادات کا یہی ٹکراؤ پیپلز پارٹی کو زیادہ دیر تک نواز لیگ کے ہمراہ چلنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس امر میں اب کوئی شبہ باقی نہیں رہاکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو موجودہ بندوبست کی عطا کردہ مراعات کو مسترد کرکے شفاف اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے حقِ حکمرانی حاصل کرنے کا بیانیہ بالکل سوٹ نہیں کرتا، اس لئے وہ طاقت کے مراکز کے ساتھ وابستگی کو ہی حصولِ اقتدار کا وسیلہ بنانے کی قائل ہو چکی ہے اور اسی طرز فکر کو گوارا بنانے کی خاطر مہمل سے جواز تراش کے اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے میں سرگرداں ہے۔ پیپلزپارٹی والے زیرلب ناقابل فہم قنوطیت کے تذکروں سے اپنی نفسیاتی خفت مٹانے کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی دیگر جماعتوںکو بھی اس طرزِ سیاست کے فائدے بتاتے پھرتے ہیں تاکہ اس حمام میں سب ایک جیسے ہو جائیں اور ان کی وہ جمہوری شناخت باقی رہ جائے جس کے حصول کیلئے ماضی قریب میں بھٹو خاندان کو لازوال قربانیاں دینا پڑی تھیں۔ مگر اب زمانہ بدل چکا ہے! سوشل میڈیا کی مائیکرو لیول تک رسائی انہیں ایسی کسی سکیم کو سیاسی مفاہمت کے خوبصورت لبادے پہنانے کا موقع نہیں دے گی، جو عوامی اُمنگوں اور مفادات کے منافی ہو۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں تو پسِ چلمن بیٹھ کے ڈوریاں ہلانے والے طلسماتی کردار بھی عوام کی نظروں سے چھپے نہیں رہ سکے تو سیاسی حقوق کی مصنوعی تحریکیں اس وسعت پذیر عوامی شعور کو فریب کیسے دے سکیں گی؟ چنانچہ ہمارے سیاستدانوں کو پوری شرحِ صدر کے ساتھ اب ایک واضح راہ عمل اپنانا پڑے گی بصورت دیگر روزبروز بلند ہوتے عوامی شعور کی متلاطم لہریں انہیں سیاست کے مرکزی دھارے سے دور پھینک دیںگی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سوا پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اس حقیقت کا ادراک پا چکی ہیں کہ عوامی امنگوں کی سچی ترجمانی کے بغیر ہم اِس دلدل سے نکل نہیں پائیں گے جس میں اب ہم سب پھنس چکے ہیں۔ شاید اسی لئے وہ سیاسی قیادت‘ جو ماضی میں آمریت کے آلام سے گھبرا کے کسی کنجِ عافیت میں پناہ تلاش کر لیا کرتی تھی‘ اب خطرات کا مقابلہ کرنے اور جمہوریت کے غلبے کی طویل کشمکش میں الجھنے کو تیار نظر آتی ہے، اس کی تابناک آنکھیں اب دن کی روشنی سے خائف نہیں ہیں۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ عوامی حمایت کے حامل سیاستدان زیادہ دیر تک اپنی ثانوی حیثیت پہ قانع نہیں رہ پائیں گے لہٰذا اس وقت ملکی منظرنامے پہ چھائے ہوئے شدید ترین سیاسی بحران کے عقب میں ہمیں کسی موہوم سی امید کے جو آثار دکھائی دیتے ہیں اُسی میں قومی قیادت کی فکری کلیرٹی کی جھلک نمایاں نظرآتی ہے۔ اگر سیاسی قوتیں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے پہ ثابت قدم رہیں تو ملک و قوم کیلئے منزل کا حصول آسان ہو جائے گا۔
بلاشبہ سیاست کا ارتقا کسی رومان سے کم ولولہ انگیز نہیں ہوتا، یہ مقصد کو دلچسپی سے ہم آہنگ کرکے دکھوں سے لبریز اس فانی زندگی کو خوشگوار بنا دیتا ہے؛ تاہم ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بدنظمی سے اس قدر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سیاست زندگی نہیں بلکہ نقشِ حیات ہے۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی قوت سے تیزی سے ارتقا پذیر رائے عامہ بہت جلد اس افراط و تفریط کو مٹا دے گی جس نے ہمارے سیاسی شعور کو کنفیوزکر رکھا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ قومی قیادت نے اقتدار کی رسہ کشی میں الجھنے کے بجائے ایک اصولی راہِ عمل اختیار کرنے کی ٹھان لی ہے تاکہ مملکت خداداد میں حقیقی آئینی نظام کی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔ خاص طور پر پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں نے موجودہ بندوبست میں حصہ پانے کی جستجو ترک کرکے اس ہائبرڈ نظام کی خامیوں کو نمایاں کرنے کا فریضہ نہایت جانفشانی سے نبھایا اور ان کی اِسی پیش دستی کی بدولت اصلاحِ احوال کی نئی راہیں کھلتی نظر آ رہی ہیں۔ اگرچہ ابتدا میں اس کٹھن راہ کو اپنانے کے باعث سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور اس کے خاندان کو درجنوں مقدمات اور قیدوبند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں لیکن اب مسلم لیگ ایک حقیقی سیاسی قوت بن کے ابھرنے لگی ہے، جسے روایتی ہتھکنڈوں سے دبایا نہیں جا سکے گا۔ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن نے بیک ڈور سے حصولِ اقتدار کے ناپسندید کھیل میں ملوث ہونے کے بجائے شفاف اور منصفانہ انتخابات اور جائز جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار کی منتقلی کے موقف پہ کھڑے ہوکر پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے بیانیے کو مقبول بنا دیا ہے اور اسی بیانیے کی لَے پہ پنجاب کا متوسط طبقہ جمہوری غلبے کی جانب قدم اٹھانے کی طرف مائل ہوا ہے۔ لاریب قومی قیادت کا یہی رویہ ہماری تمام سیاسی بیماریوں کا علاج اور قومی سفر میں بہترین زادِ رہ بن سکتا ہے، جس سے نہ صرف ہم آئین کی حکمرانی اور اپنی کھوئی ہوئی جمہوری آزادیوں کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے اداروں کے مابین ٹکرائو کے مبینہ خطرات بھی معدوم ہوتے چلے جائیں گے۔
اس میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ ہماری جمہوری آزادیاں کوئی اورنہیں چھین رہا تھا بلکہ اس کا ذمہ دار ہماری سیاسی اشرافیہ کا ذہنی تساہل تھا، سیاستدان اگر آئینی و قانونی اقدار پہ سمجھوتوں کے ذریعے حصولِ اقتدار کے دھندے میں ملوث نہ ہوتے تو قومی سیاست اس طرح پابجولاں نہ ہوتی جیسی آج ہمیں نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے جمہوری عمل سے مایوس اور عوامی حمایت سے محروم سیاستدانوں کی قابل ذکر تعداد اب بھی اسی کوشش میں مصروف ہے کہ غیبی امداد سے کم ازکم پنجاب حکومت کوگرا کر ایسی بے اختیار حکومت بنا لیں جس کی بقا کا انحصار پسِ چلمن قوتوں کی عنایات پہ ہو؛ تاہم پی ڈی ایم کی پختہ کار قیادت نے مرکز اور پنجاب میں اِن ہائوس تبدیلی کے نامطلوب کھیل سے دامن بچا کے 1988ء سے جاری اُس بے مقصد کشمکش کا سلسلہ توڑ دیا، جس نے آئینی نظام اور جمہوری عمل کی اثابت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ خود سیاستدانوں کی ساکھ کو بھی برباد کر ڈالا تھا۔ بیشک پی ڈی ایم کے اصولی بیانیے کی گونج کم نہیں ہونی چاہیے کیونکہ فکری ارتقا اختلافِ رائے کے سہارے ہی پھلتا پھولتا ہے لیکن قومی قیادت منتخب حکومتوں‘ چاہے وہ متنازع ہی کیوں نہ ہوں‘ کو گرانے کی مشقِ ستم کیش میں شامل نہ ہو حتیٰ کہ اس طویل اور تھکا دینے والی کشمکش میں اگر پی ٹی آئی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرتی ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن خریدوفروخت کا نامطلوب کاروبار بند رہے تو ہی اچھا ہوگا۔
اب بظاہر یہی لگتا ہے کہ موجودہ بندوبست کو استوار کرنے والے خود ہی اسے تحلیل کرنے کے متمنی ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح اپنے تجربات کی ناکامیوں کا ملبہ اُن سیاستدانوں کے سر ڈالنا چاہتے ہیں جو موہوم سے اقتدار کے عوض ہر الزام اپنے سر لینے کو تیار رہتے ہیں؛ تاہم اب کی بار قومی قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے ذریعے اس سنہرے جالِ میں پھنسنے سے انکار کرکے درست فیصلہ کیا ہے جس کے ملکی سیاست پہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ موجودہ رجیم شاید تمام دعووں کے برعکس اپنے سیاسی منشورکو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا، تیزی سے پھیلتی ہوئی معاشی کساد بازاری، ہوشربا مہنگائی، ادارہ جاتی بدانتظامی، بڑھتے ہوا سیاسی عدم استحکام اور مہیب عالمی تنہائی نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں‘ اسی بدحواسی میں حکمران ایک غلطی کی اصلاح کیلئے ہر آن دوسری غلطی کر رہے ہیں، جس سے اصلاحِ احوال کے امکانات محدود تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انہی اقتصادی مشکلات نے لازوال قربانیاں دینے کے باوجود بھی ہمیں افغانستان کی جیتی ہوئی جنگ کے ثمرات سے لاتعلق ہونے پر مجبور کیا اور چین جیسے آزمودہ دوست سے ہمارے تعلقات میں دراڑ آ گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved