پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھنے جانے والے دنیا ٹی وی کے مزاحیہ اور اصلاحی پروگرام حسبِ حال کے اینکر جنید سلیم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ زکوٰۃ اور خیرات دینے میں سرفہرست بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا نام آتا ہے، ان اوور سیز پاکستانیوں کے بارے میں میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آج اگر ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا، آج اگر ہمارے ملک کا نظامِ حیات بار بار گلا دبانے کے باوجود سانسیں لے رہا ہے، آج اگر ہمارے دفاعی معاملات اور سرحدیں دشمن کے ہزار ہا حربوں اور سازشوں کے باوجود محفوظ اور مربوط ہیں تو اس کی آبیاری میں ہمارے لاکھوں ہم وطنوں کے خون پسینے کی کمائی شامل ہے۔ دیارِ مغرب اور خلیجی ممالک سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہمارے پاکستانی بھائی بیرونِ ملک سرکاری دفاتر اور اداروں کی طرح سارا دن سیاسی گپیں لگانا اور مرضی کے اوقات میں آنے جانے کا اختیار نہیں رکھتے بلکہ تپتے ہوئے پچاس درجہ حرارت سے لے کر مائنس دس بیس درجے تک کے موسم اور طوفانی بارشوں اور برفانی طوفانوں میں بھی مقرر کردہ اوقات پر اپنے دفاتر اور فیکٹریوں میں فرائض انجا م دیتے ہیں۔ اس محنت کے صلے میں ایک لگی بندھی تنخواہ انہیں ملتی ہے‘ جو وہ ڈالر، پائونڈ، ریال، درہم اور فرانک کی شکل میں کماتے ہیں۔ وہاں وہ پیسے درختوں سے نہیں اتارتے بلکہ اس کیلئے شدید سردی، طوفانی برف باری اور کئی کئی دن ہونے والی موسلا بارشوں کے باوجود اپنے ذمہ لگائے گئے کاموں کو بخوبی انجام دیتے ہیں۔ اب اندازہ کیجئے کہ انسانیت، اپنے مذہب سے محبت اور عقیدت سمیت خوف خدا کو سامنے رکھتے ہوئے موسموں کی سختیوں کا سامنا کرنے کے بعد محنت مزدوری سے کمایا ہوا یہ پیسہ وہ اپنے بیوی بچوں اور والدین کیلئے بھیج دیتے ہیں اور خود روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ خود تک پہنچنے والی بے کسوں کی فریاد کا درد محسوس کرتے ہوئے کسی معذور، کسی بیوہ کی مدد، کسی یتیم کی تعلیم، روٹی، علاج اور پائی پائی کے محتاج پاکستانی خاندانوں کی مدد کیلئے رقوم بھیج دیتے ہیں اور یہ سلسلہ آج سے نہیں کئی دہائیوں سے یونہی جاری و ساری ہے۔ بغیر دیکھے ان معذور خاندانوں، یتیموں، بیوائوں کو اپنی دن رات کی محنت سے کمائی کا کچھ حصہ جب وہ بھیجتے ہیں تو دراصل اس طرح وہ مستحقین کے ساتھ ساتھ وینٹی لیٹر پر پڑی ملکی معیشت کو بھی آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔
صحافت سے وابستہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں آئے روز مجھ تک ایسی خواتین، یتیم بچوں، بیوائوں اور معذوروں کی داستانیں پہنچتی رہتی ہیں۔ تحقیق کیلئے جب میں ذاتی طور پر ان سے رابطہ کرتا ہوں تو ان میں سے بیشتر گھرانے ایسے ہوتے ہیں جن کے ماں‘ باپ یا بھائی وغیرہ‘ جو گھر کے واحد کفیل تھے‘ دنیا سے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں۔ چھوٹی بچیاں جب نوجوانی کی دہلیز تک پہنچتی ہیں تو ارد گر د گِدھوں کی طرح موجود بعض مفاد پرست رشتہ دار انہیں اپنے ڈھب پر لانے کیلئے چپڑی چپڑی باتوں میں پھنسا کر اپنے نکمے، نکھٹو اور نشہ باز بھائیوں، بھانجوں اور بھتیجوں کے ساتھ بیاہ دیتے ہیں۔ انہیں رنگ برنگے خواب دکھاتے ہوئے یقین دلایا جاتا ہے کہ اگر اپنے معذور ماں باپ یا اپنے چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کو فاقوں سے بچانا ہے تو ہمارے ساتھ چلو‘ چند ہی دنوں میں تمہارے سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد جو گھنائونا کھیل شروع ہوتا ہے‘ اس کا تصور بھی تھرا کر رکھ دیتا ہے۔
اس ساری تمہید کا مقصد چوکوں‘ چوراہوں میں کھڑی ہونے والی عورتوں کے ان مسائل کا تذکرہ کرنا ہے جنہیں اس مقام پر لانے کا اصل قصوروار یہ معاشرہ ہے۔ایک تحقیقی جائزے کے مطابق ایسی اسّی فیصد خواتین محض مجبوریوں کی ستائی ہوئی ہوتی ہیں اور باعزت روزگار اوردو وقت کا کھانا نہ میسر آ پانے کے باعث وہ اس کارِ گناہ میں قدم رکھنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک وڈیو میں ایک ایسی ہی عورت اپنی کہانی سنا رہی تھی جسے سن کر میں دہل کر رہ گیا کہ معاشرہ کس قدر سنگدل ہو چکا ہے۔ وہ عورت بتا رہی تھی کہ اس کے شوہر کو فوت ہوئے تین برس ہو چکے ہیں‘ اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ اس کے ماں باپ بھی فوت ہو چکے ہیں، بیوہ ہونے کے بعد وہ اپنے بھائیوں کے گھر گئی لیکن چند ہی دنوں بعد اس کی بھابھیوں نے اسے اور اس کے بچوں کو ساتھ رکھنے سے انکار کرتے ہوئے گھر سے نکال دیا۔ سسرال والوں نے پہلے ہی اپنے بیٹے کی موت کے بعد اس سے یوں آنکھیں پھیر لی تھیں جیسے ان کا اُس سے کوئی رشتہ ہی نہ ہو۔ اس عورت کے یہ الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ''بات صرف ایک ہی تھی کہ مجھے اور میرے دو بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کا ان میں حوصلہ نہیں تھا‘‘۔ وہ عورت بتا رہی تھی: میں نے اپنے سسرال سے کچھ دور ایک کمرے کا مکان کرایے پر لیا اور قریبی آبادی کے گھروں میں کام شروع کر دیا۔ صبح جاتے ہوئے چند دن تو اپنے بچوں کو اپنی ساس کے پاس چھوڑا لیکن تیسرے ہی دن انہوں نے کورا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر جائو، ہم انہیں پاس نہیں رکھ سکتے۔ مجبور تھی‘ ان کو کہاں اور کس کے پاس چھوڑتی، اس لئے بچوں کو ساتھ لے کر جب کوٹھی میں کام کرنے گئی تو بیگم صاحبہ نے درشت لہجے میں کہا کہ اگر کام کرنا ہے تو اکیلی آیا کرو۔ میں نے بہت منتیں کیں کہ آج کا دن اجازت دے دیں لیکن بچوں سمیت وہاں سے مجھے نکال دیا گیا۔ اس دن بہت سے گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن بچوں کو ساتھ لا کر کام کرنے کی اجازت کسی نے نہیں دی۔ بنگلوں اور کوٹھیوں کے چکر لگاتے لگاتے تھکاوٹ اور بھوک نے برا حال کر دیا، بھوک سے بچوں کے رونے چلانے کی آوازوں نے میرا دل چیر کر رکھ دیا، دوبارہ اپنی ساس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر اس سے اپنے پوتوں کیلئے روٹی مانگی تو کھٹاک سے دروازہ بند کرتے ہوئے وہ کہنے لگیں کہ ہم خود صبح سے بھوکے بیٹھے ہیں‘ تمہیں کہاں سے کھلائیں۔ اتنا کہنے کے بعد اس عورت نے تمام سننے والوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں کے بچے ہیں، کیا تم نے صبح سے شام تک دودھ اور روٹی نہ ملنے پر بھوک سے اپنے بچوں کا چیخنا چلانا دیکھا ہے؟ یقینا نہیں دیکھا ہو گا!
وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جو بھی معاشرہ ترقی کرتا ہے وہ اپنے پست ترین طبقوں کی بدولت ہی کرتا ہے‘ جب ان پسے ہوئے طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے اقدام کیے جائیں تو پھر یہی طبقہ معاشرے کو اوپر لے کر جاتا ہے۔ایسی عورتیں یقینا بے بس اور مجبور ہوتی ہیں چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت جہاں بے گھر اور غریب افراد کے لیے پناہ گاہوںاور دسترخوان منصوبوں جیسے کام کر رہی ہے وہیں پر ایسی مجبور اور بے سہارا عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی کوئی ادارہ تشکیل دے تاکہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کو باعزت طریقے سے پیٹ بھر سکیں اور انہیں تعلیم دلا سکے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانی‘ جو اس وطن کا حقیقی اثاثہ ہیں‘ وہ یقینا دردمند دل کے مالک ہیں، اگر حکومت انہیں ساتھ ملاتے ہوئے کسی ایسے فنڈ کا اجرا کرے تو وہ یقینا اس کارِ خیر میں پیچھے نہ رہیں گے۔ حکومت اگر نوکریوں اور روزگار کا بندوبست کر رہی ہے تو اس منصوبے میں بھی ایسی خواتین کے لیے الگ سے کوٹہ مقرر ہونا چاہیے اور انہیں ہنرو فن سکھانے کے دیگر ادارے بھی قائم کرنے چاہئیں تاکہ وہ معاشرے میں دست نگر بن کر رہنے کے بجائے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے روزی روٹی کا خود اہتمام کر سکیں۔اسی طرح ہائوسنگ سکیم منصوبے میں بھی ایسی بے سہارا خواتین کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ جس معاشرے میں ایک طبقہ دوسرے کو فراموش کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا کیونکہ ترقی کا سفر ہمیشہ اجتماعی طور پر طے ہوتا ہے‘ اس حوالے سے متمول طبقے، اشرافیہ اور صاحبانِ ثروت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛ تاہم دیگر کو بھی استثنا حاصل نہیں ہے کہ یہ کارِ خیر ہے اور جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے۔