کسی بھی معاشرے میں مختلف النوع پیچیدگیوں کا پایا جانا افسوسناک تو ہوسکتا ہے مگر حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ صرف وہ انسان باقی دنیا کی نظروں میں پُرسکون، خوشحال اور روحانی طور پر آسودہ دکھائی دے سکتا ہے جو معاشرے کو چھوڑ کر پہاڑوں پر جا بسے۔ اس نوعیت کی زندگی کو ہم اصلاً تو زندگی ہی نہیں کہہ سکتے۔ زندگی وہی ہے جو معاشرت سے پیوستہ ہو‘ دوسروں کے درمیان رہتے ہوئے بسر کی جائے۔ ہر انسان کو بہت کچھ لینا اور بہت کچھ دینا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ کوئی انسان جزیرہ نہیں‘ ہم سب سمندر ہیں اور ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ ہمارے معاملات آپس میں یوں ملے اور جُڑے ہوئے ہیں کہ اُنہیں آسانی الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی اگر بُرے کردار کا ہے تو دوسروں کے لیے خرابی کا باعث بنتا ہے اور اگر کوئی اچھے کردار کا ہے تو اُس کی خوبیوں سے دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ ملتا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں یعنی الگ تھلگ ٹکڑے کی حیثیت نہیں رکھتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ رہتے ہوئے ہی ڈھنگ سے جی سکتا ہے۔ معاشرے کو چھوڑ کر جو لوگ پہاڑوں پر یا ویرانوں میں جا بستے ہیں وہ بھی تو کبھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ انہوں نے وہ سب کچھ پالیا جس کی تمنا کی تھی۔ دنیا سے کٹ کر جینے کا تصور اسلام میں نہیں ہے۔ دوسرے ادیان بھی اصلاً اِس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ دنیا کو ترک کرتے ہوئے جینا یعنی رہبانیت اور ترکِ دنیا کی راہ پر گامزن ہونا کسی بھی اعتبار سے کوئی پسندیدہ طرزِ فکر و عمل نہیں کیونکہ ایک خاص زاویے سے دیکھنے پر تو یہ محض بزدِلی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے گھبراکر جان چھڑانے کی غرض سے کوئی معاشرے کو ترک کرکے ویرانے کو آباد کرنے کی سوچے۔ کبھی کبھی انسان ذمہ داریوں کا بوجھ سہارتے ہوئے تھک سا جاتا ہے اور اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ کچھ دیر الگ تھلگ رہے، لوگوں سے زیادہ ربط قائم نہ رکھے۔ یہ بہت حد تک فطری ضرورت ہے جس کا اسلام نے یومیہ بنیاد پر قیام اللیل کی شکل میں اہتمام کیا ہے یعنی انسان رات کے پچھلے پہر اٹھ کر کسی گوشۂ تنہائی میں اللہ کو یاد کرے۔ اللہ کو یاد کرنے کی ایک صورت نوافل ادا کرنا بھی ہے۔ تلاوت بھی کی جاسکتی ہے اور اوراد بھی اللہ سے لَو لگانے کے لیے کافی ہیں۔
کوئی ایک انسان بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کسی کا احسان نہیں لیتا یا کسی پر کوئی احسان نہیں کرتا۔ یہ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے یعنی ہم دوسروں سے بہت کچھ لیتے ہیں اور اُنہیں بہت کچھ دیتے ہیں۔ یہ لین دین زندگی کی محض بنیادی ضرورت ہی نہیں، حُسن بھی ہے۔ یہ طریقِ زندگی اللہ کا طے کردہ ہے۔ جس ہستی نے یہ کائنات خلق کی ہے اور اِسے چلانے کا نظام وضع کیا ہے وہی جانتی ہے کہ ہمیں کس طور جینا چاہیے۔ جب ہم اپنی پسند و ناپسند کو اپنے خالق و مالک کی مرضی کے تابع کرتے ہوئے جیتے ہیں‘ تبھی جیت پاتے ہیں۔ یہ سادہ سی بالکل سامنے کی حقیقت ہے مگر کم ہی لوگ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زندگی قدم قدم پر امتحان لیتی ہے اور ناکامی کی زیادہ گنجائش نہیں چھوڑتی۔ یومیہ بنیاد پر جو آزمائشیں ہمارے نصیب میں لکھی ہوئی ہیں اُن میں تھوڑی بہت ناکامی برداشت کی جاسکتی ہے کیونکہ اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خسارہ زیادہ ہلاکت خیز نہیں ہوتا۔ ہاں! کسی بھی بڑے اور نمایاں معاملے میں ناکامی ہمارے لیے الجھنیں پیدا کرتی ہے اور کبھی کبھی معاملات انتہائی خرابی کی طرف بھی چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی زندگی واضح خرابی کی طرف اُس وقت جاتی ہے جب وہ لین دین کے معاملے میں توازن کھونے لگتا ہے۔ لین دین صرف مال و زر کا نہیں ہوتا، حقوق و فرائض کا بھی ہوتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اپنے حقوق کی فکر تو لاحق رہتی ہے، فرائض کا کچھ خیال نہیں رہتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ بس ملتا ہی ملتا رہے، کچھ دینا نہ پڑے۔ جب یہ سوچ پوری زندگی پر محیط ہو جائے تو خرابیاں کیوں پیدا نہ ہوں؟ صرف اپنے حقوق یاد رکھنا اور فرائض کو بھول جانا زندگی سے، اُس کی تلخ سچائیوں سے فرار کی ایک واضح صورت ہے۔ زندگی کی کڑوی کسیلی حقیقتوں سے فرار کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے فرائض ادا کرے نہ حقوق کا مطالبہ کرے اور محض الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرے۔ ایسی حالت میں بھی زندگی کا توازن بگڑتا ہے، خرابیاں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ انسان غیر ضروری طور پر قطع تعلق سے گریز کرے اور اپنے حصے کا کام کرتا رہے۔ فرار کی راہیں دکھائی تو بہت دیتی ہیں لیکن اگر غور کیجیے تو فرار کی کوئی راہ ہے نہیں۔ ہم سب اس لیے خلق کیے گئے ہیں کہ مل کر رہیں، ایک دوسرے کے کام آئیں، کسی سے مدد لیں، کسی کی مدد کریں، کسی کے مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں اور جہاں خود پھنس جائیں وہاں کسی سے مدد لینے میں ذرا بھی نہ ہچکچائیں۔ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے اور اِسی طور چل سکتی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سب سے کٹ کر، ہٹ کر جی سکتا ہے تو اِسے محض خوش فہمی یا سادہ لوحی ہی گردانا جائے گا۔ بہت سے لوگ ''جا، میں تو سے ناہی بولوں‘‘ کو بھی ڈھنگ سے جینے کا ایک اچھا طریقہ گردان کر خوش رہتے ہیں۔ بات چیت بند کرکے ایک طرف ہو رہنا بظاہر سُکون کے حصول کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طرزِ فکر و عمل بھی کسی صورت پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ محض بات چیت بند کرکے سُکون سے جینا ممکن ہوتا تو ہم سب ایک دوسرے سے کٹ کر، الگ تھلگ ہوکر خاموشی کے ساتھ جی رہے ہوتے اور سُکون و راحت سے ہم کنار ہوتے۔
زندگی ساحل پر کھڑے ہوکر تماشا دیکھتے رہنے کا نام نہیں۔ یہ سمندر میں ڈبکی لگانے کا عمل ہے۔ ساحل پر کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے والوں کو زندگی کی حقیقی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ زندگی اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے کا نام ہے۔ جو کچھ ہمیں کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہے، کسی اور کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اِسی طور دوسروں کو بھی ہمارے لیے کچھ یا بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب مل جل کر رہنے پر یقین رکھا جائے۔
اللہ نے ہمارے لیے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جو بالائے فہم ہو تو ہو، ہمارے لیے ہے سراسر فائدے کا معاملہ۔ اشتراکِ عمل ہی زندگی کی سب سے بڑی اور سودمند حقیقت ہے۔ اس معاملے میں کوئی راہِ فرار نہیں۔ دو چار افراد سے تو تعلق کا گراف نیچے لایا جاسکتا ہے، مجموعی طور پر پوری زندگی کو لاتعلقی کے گڑھے میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ہمیں اچھی طرح ادراک ہونا چاہیے۔ یہ ادراک ہماری اپنی محنت کا بھی نتیجہ ہوسکتا ہے اور مصنفین و مقررین کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ سوچنے کی دنیا کے لوگوں یعنی مصنفین و مقررین کا فرض ہے کہ معاشرے کو اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر گامزن رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسا لکھا اور بولا جائے جس سے لوگ ایک دوسرے کے نزدیک آئیں، اپنے اپنے حصے کا کام کرنے پر مائل ہوں اور ایک دوسرے کے لیے معاون ثابت ہونے کی کوشش کریں۔ ایسے لکھنے سے توبہ جس سے لوگ ترکِ تعلق کی تحریک پائیں۔ لکھنے والوں کا فرض ہے کہ دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں۔ تحاریر میں ایسی باتیں شامل نہیں ہونی چاہئیں جو انسان کو دوسروں سے بیزار کرکے عملاً ترکِ دنیا کی تعلیم دیں۔ مقررین کو بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ زندگی مل کر رہنے کا نام ہے، کٹ کر جینے کا نہیں۔ تحریر ہو یا تقریر، تبھی کام کی ہے جب دل بستگی کا سامان کرے۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ایسے میں مصنفین اور مقررین کو امید کے چراغ روشن کرنے چاہئیں تا کہ لوگ ایک دوسرے سے بیزار رہنے کے بجائے جُڑ کر رہیں، اشتراکِ عمل کا سوچیں اور ایک دوسرے کی طرف دستِ تعاون دراز کرتے ہوئے جئیں۔