تحریک انصاف کی حکومت نے پونے تین سال کے عرصہ میں تیسرا وزیر خزانہ مقرر کر دیا ہے۔سب سے پہلے اسد عمر کو وفاقی وزیر خزانہ بنایا گیا تھا‘جنہیں ہٹا کر عبدالحفیظ شیخ کو تعینات کیا گیااور اب انہیں ہٹا کر حماد اظہر کو لایا گیا ہے۔ اسد عمر کو مالیاتی امور کا ماہر بتا کر وزارتِ خزانہ سونپی گئی تھی لیکن جب انہیں ہٹا کر عبدالحفیظ شیخ کووزیر خزانہ بنایا گیا تو تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز کو کئی تاویلیں دینا پڑیں‘ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ کے کابینہ کا رُکن بنائے جانے پر کئی جواز گھڑے گئے‘ اب ہٹائے جانے پر اس سے بھی زیادہ دلچسپ صورت حال ہے۔ مہنگائی کے حکومتی اعتراف اور سادہ لفظوں میں ناکام مالیاتی پالیسی پر توجہ دینے کے بجائے اب تبدیلی رضاکار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کیلئے نئے طعنے گھڑنے میں لگے ہیں۔نئے وزیر خزانہ حماد اظہر کو عوامی وزیر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کہا جاتاہے کہ نئے وزیر خزانہ عوام کے نبض شناس ہونے کی وجہ سے بہتر پالیسیاں بنائیں گے اور عوامی مسائل کو مدنظر رکھیں گے‘ اللہ کرے ایسا ہی ہو‘ لیکن سننے میں آ رہا ہے کہ شوکت ترین کو نیا وزیر خزانہ بنایا جا رہا ہے۔
اب تک کی صورتحال پر تو مجھے تو نوجوان فکشن رائٹر ارمان یوسف کا ایک افسانہ یاد آ رہا ہے جس کا عنوان ہے ''دولے شاہ کے چوہے‘‘۔ ارمان یوسف نفسیاتی تجربات کی کہانیاں لکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک دولے شاہ کے چوہے بھی ایک نفسیاتی کیفیت ہے۔ اتنا تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ سبز رنگ کا چغہ پہنے چھوٹے چھوٹے سروں والے مختلف عمر کے جو بچے اپنے نگرانوں کے نادیدہ سائے میں چوراہوں پر بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں‘ انہیں ''دولے شاہ کے چوہے‘‘ کہا جاتا ہے۔ارمان یوسف نے اس افسانے میں ایک یونیورسٹی طالب علم جمال کا کردارلکھا ہے جو دولے شاہ کے چوہوں پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی پریشانی سے دوچار تھا۔ اسے اپنی تیسری اسائنمنٹ بھی مسترد ہونے کا دھڑکا تھا اور وہ لکھنے بیٹھ چکا تھا‘ اس کی تحقیق کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کیا واقعی ان کے سروں پر بچپن میں لوہے کے کنٹوپ رکھے جاتے ہیں تاکہ ذہنی طور پر پرورش نہ پا سکیں اور عمربھر اپنے مالک کی لگام میں مقید دن رات کام کرتے رہیں؟ ارمان یوسف نے طالب علم جمال کی تحقیق کا نتیجہ یوں بیان کیا کہ ممکن ہے اب بھی ایسا ہوتا ہو... مگر نہیں... میرا نہیں خیال ‘ یہ 21 ویںصدی ہے‘ نسل ِانسانی اپنے ارتقائی عروج پر ہے۔ نت نئے علوم‘ دریافتوں اور تجربات نے شعورِ انسانی کو وہ جلا بخشی ہے کہ ماضی میں جن کا تصور تک کرنے والے مصلوب کیے جاتے رہے‘ چاند پہلے ہی اس خاکی کی قدم بوسی کا شرف حاصل کر چکا ہے۔
افسانہ نگار نے یہاں منظر بدلا اور لکھا کہ جمال کا ہم جماعت کمرے میں داخل ہوا اور اس سے اس کی تحقیق کا نتیجہ پوچھا‘ جمال نے جواب دیا کہ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دولے شاہ کے چوہوں کا اب وجود نہیں رہا ‘ لوگ مزار پر اب بھی آتے تو ہیں مگر کوئی ایسا نہیں جو اپنے پہلے یا آخری بچے کو یہاں چھوڑ کے جاتا ہو۔ ایسا اب نہیں ہوتا۔کم از کم اب تو لوگ سمجھدارہو گئے ہیں اور یہ کتنی خوش آئند بات ہے۔ اتناسننا تھا کہ جمال کے ہم جماعت نے چلا تے ہوئے کہا : یہ تم کیا کہہ رہے ہو جمال‘ تم ہوش میں تو ہو‘یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خدانخواستہ لوگوں کا اعتمادشاہ سرکار سے اُٹھ چکا ہے اور نہ اب وہ منتیں مانتے ہیں نہ قربانیاں دیتے ہیں اور نہ نئے دولے شاہ کے چوہے وجود میں آتے ہیں؟اور اس مکالمے کے بعد دونوں میں ہاتھاپائی شروع ہو جاتی ہے۔افسانہ نگار نے لکھا: جمال نے محسوس کیا کہ اس کے ہم جماعت کا چہرہ غصے سے بگڑ چکا ہے۔اس کا رنگ سرخ ہو چکا ہے اور غصے سے چلائے جا رہا ہے۔ جوں جوں اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا توں توں اس کی شباہت میں تبدیلی آتی جا رہی تھی۔ ایک ایسا لمحہ بھی آیا کہ جس نے جمال کو غیر یقینی کیفیت میں پہنچا دیا۔ اس کے ساتھی کا سر چھوٹا اور منہ بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ اسے اس کے الفاظ بالکل سنائی نہیں دے رہے تھے۔ سنائی دے بھی رہے تھے تو سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ وہ مسلسل ہاتھ ہلائے اور زبان چلائے جا رہا تھا۔ اس کے کان اب پہلے سے بڑے اور لٹکے ہوئے دکھائی دینے لگے تھے۔اگلے لمحے ایک دھماکا سا ہوا اور جمال کی آنکھوں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابلِ یقین تھا‘لیکن اپنی جگہ ایک حقیقت بھی تھی۔ اس کا ہم جماعت ہو بہو دولے شاہ کا چوہا لگ رہا تھاجو اس کے ساتھ ہاتھاپائی پر اُتر آیا تھا اور یہاں تک کہ اسے زخمی بھی کر ڈالا تھا ۔ جمال کے ہونٹوں سے خون رسنے لگا لیکن وہ پھر بھی مسکرائے جا رہا تھا۔ اسے بیک وقت دُکھ بھی تھا اور اس بات کی خوشی بھی کہ کم از کم دولے شاہ کا ایک چوہا تو مل گیا ۔
یہ افسانہ پڑھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ ارمان یوسف ایک اچھے فکشن نویس ہونے کے ساتھ نفسیات کے بھی ماہر ہیں۔ ارمان نے عمومی نفسیات کا زبردست مشاہدہ پیش کیا ہے ۔ یہاں ''دولے شاہ کا چوہا‘‘ تو استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے‘ مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ جب لوگ لگی بندھی سوچ اپنا لیتے ہیں تو ان کے لیے اس ڈگر سے ہٹنا ممکن ہی نہیں رہتا اور بد قسمتی سے وہ اس راستے کے اونچ نیچ کو سمجھے بغیر اور اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ حقیقتوں کا ادراک کئے بغیر ایک ہی رو میں بہے چلے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں ''بے لوث ورکرز‘‘ کی ذہنی کیفیت اور نفسیات کا بھی ایک مطالعہ ہونا چاہئے‘ یہ ''بے لوث سیاسی ورکرز‘‘ جو دن رات اپنے گھر باہر ‘ ملنے جلنے والوں میں اور سوشل میڈیا پر اپنے لیڈروں کے دفاع کے لیے گالیاں بکتے اور جواب میں گالیاں سنتے ہیں۔ان کی کیفیت بھی دولے شاہ کے چوہوں سے مختلف نہیں لگتی۔ ان کے سروں پر بھی کبھی نہ کبھی کسی نے سیاسی رومانیت کا کنٹوپ چڑھایا تھا‘ اسی کنٹوپ نے ان کے'' سر‘‘ چھوٹے کر دیے ہیں اور ان کے دماغ پرورش نہیں پا سکے۔اب ان کا کام بھی دن رات سیاسی آقاؤں کی خدمت ہے‘ ان کی اپنی کوئی سوچ ‘کوئی منزل ‘کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ شب و روز اپنے مالک کے مال و دولت اور وقار میں اضافہ کرتے کرتے بالآخر یہ بے لوث سیاسی ورکرز زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خدمتگار سنبھال لیتے ہیں‘ اگر کوئی خدمتگار دوران خدمت الیکشن دشمنی کی بھینٹ چڑھ جائے اور اندھی گولی کا شکار ہوجائے تو سیاسی آقاؤں کو ایک لاش مل جاتی ہے جو اِن سیاستدانوں کی شہرت‘ عزت اور دولت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ سیاسی دولے شاہوں کے چوہے اپنے خاندان کو بھی ان دولے شاہوں پر قربان کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی دولے شاہوں کے لیے اپنے جیسے کرداروں کی نئی نسل بھی تیار کر جاتے ہیں۔ملک کی ہر سیاسی جماعت‘ خواہ دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی یانسلی بنیادوں پر سیاست کرتی ہو ہر ایک کے لیڈر کو دولے شاہ کا درجہ حاصل ہے اور اس کے خدمت گار اس دولے شاہ کے لیے چوہوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
اوریہ بات صرف سیاست تک محدود نہیں ‘ ہمارے ہاںزندگی کے ہر شعبے میں کوئی نہ کوئی ''دولے شاہ‘‘ بنا بیٹھا ہے اور چوہوں کی کھیپ پر کھیپ تیار ہوئے جا رہی ہے۔دراصل ہمارا نظام تعلیم اور سماجی ڈھانچہ کچھ اس قسم کا ہے کہ جس میں عقلیت پسندی کی دال نہیں گلتی؛چنانچہ ان چوہوں کی روز افزوں افزائش کے لیے یہ ماحول نہایت موزوں ہیں۔ جب تک ہم نظامِ تعلیم اورسماج کو بدلنے کی شعوری اور اَن تھک کوشش نہیں کرتے ہر جگہ ''دولے شاہ اور چوہے‘‘ موجود رہیں گے۔