لیجیے ہم بھی ویکسین یافتہ ہوگئے۔ 27 مارچ کی دوپہر ہم نے بھی حکومت پاکستان کے زیر انتظام کووڈ19 کی ویکسین لگوالی۔ تفصیل تو بعد میں لیکن خلاصہ یہ ہے کہ قابل تعریف انتظامات کی جتنی بھی داد دی جائے، کم ہے۔ ہم لوگ حکومت کی بدانتظامیوں، کوتاہیوں اور بد سلیقگی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ماہر ہوتے ہیں، کیونکہ یہ سودا زیادہ بکتا ہے۔ کوئی قابل داد کام ہو تو ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اسے کوڑے کی طرح کہیں قالین کے نیچے چھپا دیں۔ یہ ایک اجتماعی اور افسوسناک رویہ ہے‘ اور تنہا اس ایک معیار سے بھی ہم اپنے معاشرے کی دیانت اور راستگوئی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ٹیکہ اور سوئی لگنے کا خوف ہمیں بھی وہی ہے جو ہر شریف آدمی کے بچپن سے شروع ہوتا ہے اور ساری عمر بازو بند کی طرح ساتھ رہتا ہے۔ خیر اب تو زندگی کے بے شمار مراحل سے گزر گزر کر عادت ہوگئی لیکن بچپن کا خوف آپ سمجھ سکتے ہیں۔ چیچک کا ٹیکہ ہماری یادداشت میں وہ پہلا ٹیکہ تھا جو گھر گھر اور سکول سکول جاکر لگایا گیا تھا اور وہ ویکسین تھی بھی اچھی خاصی تکلیف دہ؛ چنانچہ ہر بچے کے دل پر اس کی دہشت تھی‘ لیکن سوئیوں کے اس سلسلے میں کووڈ19 کی ویکسین وہ سوئی تھی جس کا بے تابی سے انتظار تھا،بلکہ سابق معاملات کے برعکس اس کے نہ لگنے کا خوف تھا۔ دنیا بھرمیں پھیلی ڈیڑھ سالہ دہشت میں واحد حل یہی نظرآتاتھاکہ دو سوئیاں لگوا کر یک سوئی سے زندگی گزاری جائے۔انہی صفحات پر تریاق از عراق کے عنوان سے ویکسین کی تیاریوں اور معلومات پر کئی کالم لکھے‘ اور اس کی تیزرفتار پیش قدمی کی معلومات بھی حاصل کرتا رہا؛ چنانچہ جب معلوم ہواکہ اس کی رجسٹریشن شروع ہوگئی ہے تو معلومات کے مطابق 1166 پر اپنے موبائل کے ذریعے اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیجا، فوراً ہی جواب موصول ہوگیا کہ آپ کی رجسٹریشن کرلی گئی ہے‘ جلد ہی متعلقہ سنٹر کے نام سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اس دوران کاہلی اور مزید ویکسینز کی معلومات میں مزید وقت گزرا اور پھر معلوم ہواکہ کسی بھی وقت ایکسپو سنٹر، جوہر ٹاؤن جا کر 'واک ان‘ سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ویکسین لگوائی جاسکتی ہے۔ ایکسپو سنٹر میرے گھر کے قریب ہے سو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کیا اور ان کی تاکیدِ مزید کے بعدکل دوپہر وہاں پہنچ گئے۔ سہ پہر ڈھائی تین بجے کا وقت تھا اور پارکنگ میں کافی گاڑیاں موجود تھیں، مزید گاڑیاں اور لوگ بھی مسلسل آرہے تھے۔ خیال ہواکہ لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑے گا‘ سو اس کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوگئے۔ پہلے ہال میں داخل ہوئے تو سامنے بہت سے کاؤنٹرز پر کمپیوٹرز کے ساتھ بیٹھا عملہ نظر آیا۔ ویکسین لگوانے والے اچھے خاصے تھے لیکن عملہ اور کاؤنٹرز کہیں زیادہ تھے سو فوراً ہی ایک خالی کاؤنٹر تک رسائی ہوگئی۔ شناختی کارڈ دکھایا اور موبائل نمبر بتایا۔ نوجوان نے کمپیوٹر اندراجات کیے اور ایک کاغذ تھما دیا‘ جس پر مطلوبہ معلومات موجود تھیں۔ کاغذ لے کر اگلے ہال میں گئے جہاں خوش اخلاق پیرامیڈیکل سٹاف کا کافی عملہ موجود تھا۔ فوراً ہی ایک خاتون نے گن سے ٹمپریچر چیک کیا اور بلڈ پریشر نوٹ کیا۔ سب ٹھیک تھا‘ سو کاغذ پر اندراج کے بعد اگلی میز کی طرف بھیج دیا گیا۔ یہاں ویکسین کے ساتھ پیرامیڈیکل سٹاف کا ایک تجربہ کار آدمی موجود تھا۔ ایسی نرمی سے سوئی لگائی کہ معلوم ہی نہ ہوا۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا، چلیے آپ کو سوئی نہیں لگاتے۔ یہ دراصل اپنے ہنر کی داد طلبی تھی کہ سوئی لگنے کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ دوسری ڈوز کے لیے 21 دن بعد دوبارہ آنے کی تاکید کرکے اس نے آگے بھیج دیا‘ جہاں ایک ڈاکٹر ہاتھ میں موجود کاغذ پر دستخط کر رہا تھا۔ اس کے بعد کرسیاں اور ہسپتال کے بیڈ کافی تعداد میں اس لیے موجود تھے کہ ویکسین لگنے کے بعد دس منٹ تک آرام کیا جاسکے اور اگر طبیعت خراب ہوتو عملہ مدد کرسکے‘ لیکن اس کی ضرورت نہ تھی۔ میں پانچ سات منٹ کرسی پر بیٹھا اور طبیعت ٹھیک ہونے کا اطمینان کرکے ہال سے باہر کے راستے پر آگیا جہاں ایک خاتون ہاتھوں میں موجود کاغذات وصول کرکے جمع کر رہی تھیں۔ اس سارے عمل میں پندرہ سے بیس منٹ لگے ہوں گے۔ واش روم جانے کی ضرورت پڑی۔ پبلک واش رومز کا سرکاری اداروں میں جو حال ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں‘ لیکن یہاں صاف ستھرے اور کافی تعداد میں واش رومز تھے۔ صفائی کا معیار قابل تعریف تھا۔ گھر واپسی کے راستے پر ان انتظامات کی دل سے تعریف نکل رہی تھی جس سے شہریوں کو مثالی سہولت مل رہی ہے اور انہیں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا نہیں پڑ رہا۔
مجھے یہ تمام تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی اگر لوگوں کی عدم واقفیت کے ساتھ ساتھ ذہنوں میں خدشات، طریقۂ کار کی لاعلمی اور سوشل میڈیا پر بے شمار فضول باتوں کی بھرمار کا علم نہ ہوتا۔ ہر روز سوشل میڈیا پر وہ پیغامات دکھائی دیتے ہیں جو ویکسین سے متعلق سازشی تھیوریوں کی ایسی ایسی چکرا دینے والی تفصیلات بیان کرتے ہیں کہ ان کے موجد کی ذہانت پر حیرت ہوتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ کسی بھی ویکسین کا معاملہ ہو یہ سازشی تھیوریاں ضرور جنم لیتی ہیں اوریہ محض آج کے دور کی بات نہیں۔ میرے بچپن میں جب چیچک کی بیماری برصغیر میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کے سد باب کیلئے بچوں کو ٹیکے لگائے جارہے تھے، اس وقت بھی عجیب عجیب کہانیاں سننے میں آتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہمارے سکول میں یہ افواہ پھیل گئی کہ بچوں کی زبانوں پر ٹیکے لگائے جا رہے ہیں‘ جنہیں لگوانے سے بچے مر جاتے ہیں۔ یہ کام حکومت کا ہے اور مقصد یہ ہے کہ ملک کی آبادی کم کی جاسکے۔ چیچک کے ٹیکے کی دہشت پہلے ہی تھی، تیسری چوتھی جماعتوں کے بچے اس طرح چیخیں مار کر رونے لگے کہ استانیوں کیلئے کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا‘ اور سچ بات تو یہ کہ استانیاں خود اس بات پر یقین کیے خوف زدہ بیٹھی تھیں۔ سکول کے گیٹ پر والدین اور بچوں کے رشتے داروں کا ہجوم جمع ہوگیا جو اپنے بچوں کو فوراً گھر لے جانا چاہتا تھا۔ یہ ایک نیم سرکاری سکول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے مالک اپنی کرسی سکول کے گیٹ پر ڈال کر بیٹھ گئے کہ کوئی ایسی ٹیم ویکسین کیلئے سکول میں گھسنے ہی نہیں دوں گا۔ یہ واقعہ ایک سے زیادہ بار اس طرح پیش آیاکہ میرے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔
پولیو ویکسین کا معاملہ لے لیجیے۔ سچ بتائیے کتنی خوفناک باتیں آپ نے سنی ہیں اس بارے میں‘ اور اتنے وثوق کے ساتھ‘ گویا اس سے بڑا سچ آج تک بولا ہی نہیں گیا‘ لیکن پولیو ویکسین کے معاملے میں حکومت کی بدانتظامی، عوام کو ٹھیک سے آگاہ نہ کرنا، اور بات سمجھائے بغیر خواہ مخواہ کی زبردستی کے معاملات نے بھی کام بگاڑ دیا۔ مثال کے طور پر ہمارے محلوں میں پولیو ٹیمز آتی ہیں، انہیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ فلاں بچے یا بچی کو چند ماہ پہلے آپ ہی کی ٹیم نے پولیو قطرے پلائے تھے۔ بعض بچے کئی کئی بار یہ ڈراپس پی چکے ہیں۔ اب اس کی کس وجہ سے ضرورت ہے؟ کیا کوئی طبی وجہ ہے یا یہ ویکسین ہر چند ماہ بعد دہرائی جانی ضروری ہے۔ بار بار پوچھے جانے کے باوجود آج تک تسلی بخش جواب معلوم نہیں ہوسکا۔ ایسی صورت حال میں افواہیں جنم نہ لیں تو اور کیا ہو؟
اور دور مت جائے پچھلے سال کورونا کے آغازکے بعد سے آج تک آپ اس وائرس سے لے کر ویکسین تک کتنی ہی سازشی تھیوریاں سن چکے ہوں گے۔ ایک سال گزرنے کے بعد اب ان میں سے نصف تو مرچکی ہیں لیکن کئی نئی کہانیوں نے جنم لے لیا ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی اس میں حکومت، عالمی طاقتوں، یہودی لابی اور غیر مسلم سائنس دانوں کی سازشیں نکالنے میں مصروف ہیں اور ان کا کام ختم ہی نہیں ہورہا۔
اس لیے سازشی تھیوریز کی بات تو چھوڑ ہی دیں لیکن حکومتی ویکسین کے قابل تعریف انتظامات کا ذکر کرنے کے بعد کچھ سوال ضرور ذہن میں آتے ہیں جن کا میں ضرور ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ (جاری)