''مارچ میں اتنی ٹھنڈ ہے کہ گرم کپڑے پہن رکھے ہیں‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے دوست کو بتایا کہ کورونا کی وبا نے ہم سب کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہے۔ اس نے کہا: میں نے خود سویٹر پہن رکھا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا: ہم ابھی بوڑھے نہیں ہوئے‘ واقعی ٹھنڈ ہے مگر یہ ٹھنڈ بارشوں کی وجہ سے ہے کیونکہ مارچ میں ایسا موسم کوئی پندرہ سال پہلے ہوتا تھا۔ بارش اور ٹھنڈی ہوائیں! مجھے یاد ہے کہ سکول میں جب امتحانات کے بعد مارچ میں ہمارا فائنل رزلٹ آتا تھا تو ہم نے اسمبلی میں سویٹر پہن رکھے ہوتے تھے۔ حالیہ کچھ سالوں میں تو ایسی گرمی پڑتی تھی کہ ہم 23مارچ کی پریڈ میں پنکھا جھل رہے ہوتے تھے اور دھوپ کی تمازت سے چہرے سرخ ہو جاتے تھے۔ 2021ء کے اپریل میں یہ حال ہے کہ لان کے کپڑے ابھی تک پیک پڑے ہیں اور ہم کاٹن، کیمرک اور سردیوں کے کپڑوں میں ملبوس ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اگرچہ ہم سب دعائیں کر رہے ہیں کہ رمضان بھی ایسے ہی گزر جائے لیکن کیا کسی نے سوچا ہے کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا فصلوں کی کٹائی اور بوائی پر کیا اثر پڑے گا؟ ہمارے لئے بارشیں انجوائے منٹ کا باعث ہوتی ہے لیکن کبھی سوچا کہ کسانوں اور کچی چھت والے افراد پہ یہ کیا ستم ڈھاتی ہیں؟
امسال بارشوں کی پیش گوئی کی وجہ سے یومِ پاکستان کی پریڈ کا دن بدل دیا گیا‘ 23 کے بجائے 25 تاریخ کو پریڈ ہوئی، یہاں تک کہ شمالی علاقہ جات میں ابھی تک برف باری ہو رہی ہے۔ یہ سب موسمیاتی تبدیلیاں ہیں اور ہم سب نے موسمیاتی تبدیلیوں سے آنکھیں چرا رکھی ہیں۔ موسموں کا دورانیہ تبدیل ہو رہا ہے‘ اس سے موسموں میں شدت آ رہی ہے‘ بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں‘ درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے‘ گلیشیرز پگھل رہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں سیاست کے علاوہ اور کسی موضوع پر بات ہی نہیں ہوتی۔ اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی بات کریں تو حالیہ کچھ سالوں میں ان کے سب سے زیادہ اثرات کراچی میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ 2015ء میں یہاں اتنی خوفناک ہیٹ ویو آئی تھی کہ لوگ گرمی اور حبس سے مرنے لگے تھے۔ ایک قیامت تھی جو کراچی والوں پر بیت گئی۔ گرمی‘ پھر لوڈشیڈنگ‘ اوپر سے غیر قانونی تعمیرات نے ہوا کا گزر بھی روک رکھا تھا اور شہر کے زیادہ تر علاقوں میں موجود درخت کاٹے جا چکے تھے۔ موسم اتنا شدید گرم اور اتنا زیادہ حبس تھا کہ لوگوں نے سڑکوں پر دم توڑ دیا اور سرد خانوں میں میت رکھنے کی جگہ ختم ہو گئی۔
ہم اپنے دادا سے جب یہ کہانیاں سنتے تھے کہ کراچی کتنا حسین‘ صاف ستھرا اور سرسبز شہر ہوا کرتا تھا تو حیران ہوتے تھے کہ وہ سبزہ اب کہاں چلا گیا، وہ درخت‘ بیل بوٹے اور ہریالی کہاں گئی؟ شہرِ قائد بنجر ہوتا رہا، یہاں بے ہنگم تعمیرات ہوتی رہیں‘ پانی کی قدرتی گزر گاہوں اور نالوں پر بھی تعمیرات قائم ہو گئیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ گزشتہ سال پورا کراچی سیلابی پانی میں ڈوب گیا تھا، بیشتر علاقے معمول سے تھوڑی سی زیادہ بارشوں میں ہی زیرِ آب آ گئے تھے۔ اگر خدا نخوستہ کبھی یہاں سمندی طوفان آ گیا تو کیا سندھ حکومت اور وفاق اس سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں؟ تمام ساحلی شہر ہمہ وقت سونامی کے خطرے کی زد میں رہتے ہیں‘ اللہ نہ کرے‘ لیکن اگر ہمیں ایسی صورتحال سے نمٹنا پڑا تو کیا ہو گا؟ اس وقت اشد ضرورت ہے کہ کراچی میں ماحولیاتی مسائل پر توجہ دی جائے۔
لازم ہے کہ کراچی میں ندی‘ نالوں کو صاف کیا جائے اور یہاں سے ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے تاکہ بارشی پانی ٹھیک طرح سے بہہ سکے، اس کے ساتھ ساتھ نکاسیٔ آب کا نظام بھی درست کیا جائے۔ کراچی کو اس وقت سبز انقلاب کی ضرورت ہے۔ کراچی جیسے ساحلی شہر کیلئے موزوں ترین درختوں میں کھجور، ناریل، املتاس، برنا، نیم، سوہانجنا، گل مور ، جامن، پیپل اور اشوکا وغیرہ شامل ہیں، اندرونِ سندھ کیکر اور پھلاہی موزوں ہیں۔ یہ سب دیسی درخت ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ رہائشی کالونیوں میں سجاوٹ کی غرض سے بیرونِ ممالک سے درآمد کیے گئے درخت لگا دیے جاتے ہیں جو درست نہیں ہے کیونکہ ہر جگہ پر اس خطے کی آب و ہوا کے حساب سے درخت لگانے چاہئیں۔ درخت کی شکل یا خوبصورتی کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اس کی افادیت دیکھنی چاہیے کہ کیا یہ درخت اور پودے مقامی ماحول کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ جو ہمارے مقامی درخت ہیں‘ انہی کی کثرت سے کاشت کرنی چاہیے۔ کراچی کو اس وقت ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے اور وہ ہے قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا‘ جو ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ اس پر حکومت کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔
جب میں بطور رپورٹر ماحولیات کور کرتی تھی تو پاکستان نیوی اور وزراتِ ماحولیات نے آبی پودے مینگرووز کی بڑے پیمانے پر کاشت کی تھی، ہمیں بھی اس موقع پر مدعو کیا گیا تھا تا کہ ہم اس پروجیکٹ کے بارے میں جان سکیں۔ مینگرووز‘ جس کو تیمربھی کہا جاتا ہے، گزشتہ سالوں میں بڑی تعداد میں اس کی کاشت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں ماہرینِ ماحولیات نے بریفنگ میں بتایا تھا کہ اس پودے کے بیشمار فوائد ہیں، یہ پودے درجہ حرارت میں کمی لاتے ہیں، زیادہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں، چونکہ ان کی جڑیں پانی میں رہتی ہیں‘ لہٰذا یہ زمینی کٹائو کو روکتے ہیں اور سمندری طوفانوں کی شدت میں کمی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ آبی مخلوق کا مسکن بھی بنتے ہے۔ یہ قریب دس سال پہلے کی بات ہے‘ اس وقت ہمیں بہت خوشی ہوئی تھی کہ ماحولیات کے حوالے سے بھی کام کیا جا رہا ہے۔ کیٹی بندر اور کیماڑی میں یہ پودے لگائے گئے تھے۔ 2013ء میں بھی آٹھ لاکھ سے زائد مینگرووز پودے لگائے گئے تھے؛ تاہم اب جنگلات دشمن ان کے پیچھے بھی پڑ گئے ہیں اور ان کا صفایا کرکے تعمیرات کرنا چاہتے ہیں۔ ہاکس بے سینڈز پٹ پر مینگرووز جنگلات کی کٹائی میں کون ملوث ہے؟ سندھ حکومت اس سے چشم پوشی کیوں برت رہی ہے؟ یہ جنگلات بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی اور کراچی کیلئے نہایت ضروری ہیں کیونکہ اگر ان کو کاٹ دیا گیا تو سمندری پانی کراچی شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔ دوسرا، یہ آبی حیات کا مسکن ہیں، ان کی کٹائی سے آبی مخلوق کے حوالے سے بھی ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ مینگرووز کے جنگلات میں مچھلی اور جھینگے پرورش پاتے ہیں‘ اگر اسی طرح ان کی کٹائی ہوتی رہی تو ہم آبی جانداروں کی کمی کا بھی شکار ہو جائیں گے‘ جو پہلے ہی بہت حد تک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ساحلی پٹی پر موجود جزیروں پر بھی ہر طرح کی تعمیرات کی پابندی ہونی چاہیے۔ یہ آبی وسائل ہمارا سرمایہ ہیں اور ہمیں فوری طور پر ان کے بچائو پر توجہ دینا ہو گی۔
اگر اسلام آباد کی بات کریں تو اس وقت پولن الرجی اور کورونا نے بری طرح عوام کو متاثر کر رکھا ہے۔ پولن الرجی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ جنگلی شہتوت اور پیپر ملبری کے تمام پیڑ اسلام آباد سے مرحلہ وار ختم کرکے ان کی جگہ اسلام آباد کے حوالے سے موزوں درخت مثلاً دلو، املتاس، سوہانجنا، پاپولر، کچنار، بیری اور زیتون کے درخت لگائے جائیں۔ پائن ٹری خاص طور پر لگایا جائے۔ ملتان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر زیر گردش وڈیو اگرچہ چند ماہ پرانی ہے اور جو نقصان ہونا تھا، ہو چکا‘ آئندہ کیلئے ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور جنگلات، باغات اور زرعی زمینوں پر تعمیرات کے حوالے سے این او سی جاری نہیں کیا جانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان ماحولیات میں بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں‘ انہوں نے 2023ء تک 10 ارب درخت لگانے کا اعلان کر رکھا ہے جن میں پندرہ فیصد زمینی اور دس فیصد سمندری درخت بھی ہوں گے‘ پھر مینگرووز درختوں کو کون کاٹ رہا ہے؟ ایک پودے کو درخت بننے میں سالوں لگ جاتے ہیں اس لئے درختوں کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ جنگلات کی کٹائی پر فی الفور ایکشن لیا جانا چاہیے اور جنگلات دشمنوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ایک طرف سندھ حکومت نے حالیہ دنوں میں نئے پودے لگانے کی مہم چلائی تھی اور دوسری طرف پرانے جنگلات کو کاٹا جا رہا ہے‘ یہ سراسر حماقت ہے۔ مینگرووز خشکی اور پانی کے درمیان ڈھال ہیں اگر یہ جنگلات کاٹ دیے گئے تو کراچی سمندری پانی کی زد میں آ سکتا ہے اس لئے مینگرووز جنگلات کو بچانا بہت ضروری ہے۔