زبانیں ہماری بہت چلتی ہیں‘غریب ہوں‘ امیر ہوں یا بدحال۔ نوجوان صحافی‘ جو مائیک تھامے کیمرے کے ساتھ بازاروں میں گھومتے نظر آتے ہیں‘ لوگوں سے کچھ اور نہیں‘ کھانے پینے کی اشیا کے بھائو معلوم کرتے یا حکومتی اداروں کی کارکردگی کے بارے میں سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں‘ جو بھی حکومت ہو‘ کوئی بھی موسم ہو‘ اور وطن عزیز کا کوئی بھی چھوٹا بڑا شہر ہو‘ جواب ایک ہی ملتا ہے: ہم مر گئے‘ مہنگائی زوروں پر ہے‘ آٹا چینی بازار سے غائب ہیں‘ بیروزگاری ہے اور صفائی کا ناقص انتظام ہے۔ ماضی کا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ شہر شہر کی خبروں پر نظر ڈالیں تو ایک جیسے فقرے‘ ایک جیسے شکوے اور ایک جیسی باتیں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے رٹائے گئے ہوں۔ جب کبھی پٹرول یا بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں‘ سب چینلوں پر خبر کا عنوان ایک جیسا ہوتا ہے ''حکومت نے عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا‘‘۔ دہائیوں سے مہنگائی‘ گندگی‘ پانی کی قلت اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی کمیابی کا گلہ ہے تو منطقی طور پر اس کا اثر یہ ہونا چاہئے تھاکہ مہنگائی کے دھویں میں جیتے عوام بچے کم پیدا کرتے‘ لیکن نہ تو آبادی کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئی‘ اور نہ ہی کھانے پینے کی اشیا کو بیدردی سے ضائع کرنے کی عادت ہی ختم ہوئی ہے۔ پہلے بھی کئی دفعہ لکھ چکا ہوں‘ اور لکھتا رہوں گا کہ کسی ڈھابے‘ چھپرہوٹل یا شہر کی گلیوں بازاروں میں بنے ریستورانوں کا کچھ دیر مشاہدہ کریں تو روٹیوں‘ سالن اور ضائع شدہ دال سبزیوں کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ آٹا اور چینی سستے ہوں۔ جو سرمایہ لگا کر مشقت‘ محنت اور تقریباً چھ ماہ کا وقت صرف کرکے گندم اور دوسری اجناس اگاتا ہے‘ لوگ اسے کنگال رکھنا چاہتے ہیں۔ چائے اور شربت آپ شہری حضرات پئیں‘ کیک‘ پیسٹریوں اور مٹھائیوں کے مزے آپ اڑائیں اور کاشتکاروں اور ان کے بچوں کو فاقوں مرنے دیں۔ یہ کہنے میں کیا غلط ہے کہ ہر حکومت نے کاشتکاروں کے ساتھ سیاست کی۔ ان سیاست بازوں‘ چاہے وہ حزبِ اقتدار سے ہوں یا حزبِ اختلاف سے‘ عوام کو خوش رکھنے کیلئے کاشت کاروں کو خسارے میں رہنے پر مجبور کیا۔
معاشرے میں بگاڑ گندی سیاست‘ کرپشن اور ناانصافی سے پیدا ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کمزور پڑ جائے تو لوگ بے لگام ہو جاتے ہیں۔ ان کا فطری اجلا پن زائل ہو جاتا ہے۔ میں تو دیکھتا رہتا ہوں‘ اور کسی کو شاید نظر نہیں آتا کہ گلی کوچوں میں گندگی ہے‘ پارکوں میں کچرے کے ڈھیر ہیں‘ اور سڑکوں پر ردی و پلاسٹک بیگز کے ٹکڑے اڑتے پھر رہے ہیں۔ کوڑے دان قریب موجود بھی ہو تو لوگ راہ چلتے استعمال شدہ لفافے اور ریپر اِدھر اُدھر پھینکتے جاتے ہیں۔ ہماری گلی کے آغاز میں ایک خوبصورت پاک ہے۔ چلنے کیلئے پکے راستے‘ درخت‘ پھول دار جھاڑیاں اور بچوں کیلئے جھولے۔ روزانہ صبح سویرے وہاں جانے کی پُرانی عادت ہے‘ سورج نکلنے سے بھی پہلے۔ ہزاروں کے اس محلے میں دو تین بزرگ ہی نظر آتے ہیں‘ مگر شام کے وقت بچوں اور بڑوں کا ایک میلہ سا لگ جاتا ہے۔ ہر سو لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں‘ کچھ بیٹھے کھا پی رہے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی بڑی مرکزی مارکیٹ سے برگرز‘ چپس‘ شربت و جوس اور بریانی اب ایسے پلاسٹک کے عارضی طور پر استعمال ہونے برتنوں میں دستیاب ہیں کہ ایک دفعہ ان میں کھانے کے بعد انہیں کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیں‘ لیکن بار بار دیکھا ہے کہ کوئی نہیں پھینکتا۔ سب جہاں بیٹھے ہوں‘ وہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ صبح وہاں جائیں تو ماحول صاف ستھرا نظر نہیں آتا۔ کچھ عرصہ قبل کچرا خود اٹھا کر اکٹھا کرنا شروع کیا تھا‘ لیکن اب پارک کو صاف رکھنے کا معقول انتظام ہے۔ ایسا انتظام تو تقریباً ہر جگہ ہی ہوتا ہے‘ مگر کچرا یوں پھینکنے کی کھلی اجازت گئے گزرے‘ کمزور ریاستی نظام میں ہی ہوتی ہے۔ ہوتی نہیں ہے لیکن لوگ قوانین کا خیال نہیں کرتے۔ سنگاپور دنیا کے صاف ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ مغربی دنیا کے کسی پارک میں چلے جائیں‘ کہیں آپ کو کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آئے گا۔ ہم میں سے اکثر اس کی تعبیر یہ کرتے ہیں کہ وہاں لوگوں میں شعور ہے اور وہ زیادہ مہذب ہیں۔ درست‘ مگر شعور اور تہذیب ان میں کیسے آئے۔ ہمارے لوگوں میں بھی اپنے گھر کی چاردیواری تک تو یہ شعور موجود ہے کہ اسے صاف ستھرا رکھا جائے‘ پھر باہر گندگی پھینکنے کی عادت کیوں معاشرتی روش بن چکی ہے؟ اس لئے کہ کوئی باز پُرس کرنے والا کوئی نہ ہو تو انسان کے اندر کا گھنائونا کردار کھل کر باہر آ جاتا ہے اور اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ سنگاپور ہو یا مغرب کا کوئی معاشرہ‘ وہ لوگ قانون کے جبر سے مہذب اور باشعور ہوئے ہیں۔ قید اور جرمانے کا ڈر جاتا رہے تو لوگ وہی کرتے ہیں‘ جو اس وقت ہمارے ملک کے کونے کونے میں ہورہا ہے۔ سوچتا ہوں‘ ہماری اسمبلیاں‘ ہمارے قانون ساز قانون کیوں نہیں بناتے کہ کچرا بکھیرنا جرم ہے اور اس کیلئے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ باقی ممالک میں ایسا ہی ہوا‘ لوگ مہذب ایسے ہی ہوتے ہیں۔
اسلام آباد‘ جہاں اب پکا ٹھکانا ہے‘ کا قدرتی حسن اپنی جگہ مگر ہمارے امیر کبیر اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا یہ حال ہے کہ گاڑیاں سڑکوں پر دھوتے ہیں؛ چنانچہ کروڑوں کی لاگت سے کئی بار تعمیر شدہ سڑکیں چند ماہ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کبھی ناظم الدین شاہراہ پر گزر ہو تو خود دیکھ لیں۔ کیا کہیں‘ کوئی بھی سڑک محفوظ نہیں ہے۔ کس کس بات کا رونا روئیں ۔ تجربے کے طور پر دو دفعہ محکمہ صفائی والوں کو فون کیا۔ انسپکٹر صاحب تشریف لائے اور شکایت کی کہ دیکھیں سڑکوں پر گاڑیاں دھوئی جا رہی ہیں‘ ہر گھر میں کم از کم دو گاڑیاں دھوئی جائیں تو کچھ جگہوں پر سیلاب ہی آیا نظر آتا ہے۔ یہ وہ پانی ہے جو پینے کیلئے ہے اور ہم اسے ضائع کررہے ہیں۔ انسپکٹر صاحب نے کچھ کو جرمانہ کیا اور چلے گئے‘ یہ کہہ کرکہ جب میں کاروں کی دھلائی دیکھوں تو تصویر بناکر انہیں بھیج دوں۔ کروڑوں کے گھروں میں رہنے والوں میں شعور نہیں کہ وہ اپنی سامنے والی سڑک پر کیچڑ کر رہے ہیں اور راہ چلتے لوگوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ 'کر لو جو کرنا ہے جو من میں آئے گا کریں گے‘ والا معاملہ۔ یہ کام حکومت کا ہے کہ لوگوں کی من مانیاں ماحول کوآلودہ کریں‘ راستوں پر گندگی کا سامان پیدا کریں‘ اور ہمسایوں کیلئے تکلیف کا باعث ہوں تو وہ بروئے کار آئے۔
شہر کے دوسرے حصوں کا تو معلوم نہیں مگر ہماری گلی میں روزانہ صفائی کا ٹرک سپیکر کے ساتھ بلند آواز میں آنے کا اعلان کرتا ہے۔ کچرے کا بیگ ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس سہولت کے باوجود دیکھتا ہوں کہ قریبی نالے کے نزدیک کچرے کا ڈھیر ہے‘ اور وہاں اکثر رات کے وقت آگ لگا دی جاتی ہے۔ سردیوں میں تو اسلام آباد کے اکثر علاقوں میں صفائی کے عملے کے لوگ خود پتے وغیرہ اکٹھے کرکے آگ سلگاتے ہیں۔ آلودگی کا یہ عمل سارا سال شہر کے ہر حصے میں جاری رہتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں تین مرتبہ ڈائریکٹر سینی ٹیشن کو چند ایسی جگہوں کے معائنہ کیلئے زحمت دی ہے۔ آگے پیچھے بھاگتے عملے کے ساتھ 'اب کبھی ایسا نہیں ہو گا سر‘ کے اعلانات فرماتے ضروری کاموں کو نمٹانے چلے گئے۔ شہری بے حس ہوں تو حکومتوں کے رویے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ بنیادی ذمہ داری تو ہماری بنتی ہے کہ پہلے تو کچرا کم سے کم پیدا کریں‘ پولی تھین بیگ استعمال نہ کریں‘ کپڑے کے بیگ ہر جگہ دستیاب ہیں‘ ان کا استعمال کریں۔ پھر اگر کچرا پیدا کیا ہے تو اسے صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ کچرا اکٹھا کرکے اسے آگ لگانے کی وبا اب دیہات تک پھیل چکی ہے۔ اپنا کردار تو یہ ہے کہ گندگی پھیلائیں‘ ماحول خراب کریں‘ کھانا ضائع کریں‘ درخت کاٹیں اور دعوے بہتر قوم‘ پاکیزگی اور پارسائی کے ہوں۔ منافقت اور کیا ہوتی ہے؟