تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     02-04-2021

سٹیٹ بینک کا معاملہ

جناب وزیراعظم اپنے اقتدار کی ڈولتی نیّا کو بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ اس گھبراہٹ میں کبھی وہ ایک وزیر کبھی دوسرے مشیر کو فارغ کر دیتے ہیں اور کل تک جن کی تعریف و توصیف کے پل باندھ رہے ہوتے تھے انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل میں شبلی فراز لگتے ہیں۔ غالباً کراچی کے چھابڑی فروش جیسی مشکل میں۔ ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کراچی کا موسم بڑا بے اعتبار ہے۔ بیچارے چھابڑی فروش کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ صبح اٹھ کر اس نے مونگ پھلی بیچنی ہے یا آئس کریم۔ ایسے ہی غالباً شبلی فراز صاحب کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کل شام انہوں نے حفیظ شیخ کے گن گانے ہیں یا جواں سال حماد اظہر کے قصیدے پڑھنے ہیں۔ ندیم بابر کی تعریف کرنی ہے یا اس پر تنقید کرنی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک بار فرمایا تھا کہ مصیبت میں گھبراہٹ اس سے بڑی آفت ہے۔ جناب عمران خان سے کوئی بھی شعبہ سنبھالا نہیں جا رہا۔ اب عام تاثر ہر جگہ یہی ہے کہ کار جہانبانی ان کے بس کی بات نہیں۔ آئی ایم ایف کو ٹھکرانے اور اس کے قریب بھی نہ پھٹکنے کے دعوے اور لوٹی ہوئی دولت کے اربوں ڈالر واپس لانے کی نوید سنانے والے محض 6 ارب ڈالر کے قرضے کیلئے خود چل کر ایسے آئی ایم ایف کے پاس گئے کہ بقول مومن خاں مومن:
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
سال ڈیڑھ سال میں ہمیں اس ''رقیب‘‘ سے بمشکل ڈیڑھ ارب ڈالر ملے۔ ان ڈیڑھ ارب ڈالروں کی جو بھاری قیمت اس غم کی ماری قوم نے ادا کی‘ اس کی کہانی ہولناک ہے اور بھیانک بھی۔ یہ کوئی جذباتی تبصرہ نہیں امر واقع ہے کہ ہماری آبادی کا ایک خاصا بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے آچکا ہے اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔ پہلے جن لوگوں کا زیادہ سے زیادہ بجلی کا بل دو اڑھائی ہزار آتا تھا اب چھ سات ہزار آتا ہے۔ اسی طرح پٹرول اور گیس کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر اشیائے خورونوش کی بلند قیمتیں غریب اور نیم متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بیروزگاری میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔
افراد کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پالیسیوں کی تبدیلی سے مہنگائی بڑھتی یا کم ہوتی ہے۔ حماد اظہر صاحب کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے جس کے ہلانے سے ہر شے سستی ہو جائے گی؟ اب حکومت نے 500 ملین ڈالر کی وصولی کیلئے جو شرائط قبول کرنے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کو کرائی ہے وہ اپنے ملک کی شہ رگ یعنی سٹیٹ بینک کو پاکستانی کنٹرول سے نکال کر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی دسترس میں دینے کے مترادف ہے۔ اس معاملے میں غیر جانبدار مگر انتہائی باخبر ماہرین معاشیات سے میں نے جو معلومات حاصل کیں وہ دل ہلا دینے والی ہیں۔ ذرا آپ بھی دل تھام کر سنئے۔ ان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 2021ء کے ذریعے گورنر سٹیٹ بینک کو فنانشل وائسرائے بنایا جا رہا ہے۔ اب یہ قومی بینک ایک ایسا ادارہ ہوگا جو ملکی آئین اور قانون سے بالاتر ہوگا۔ ریاست پاکستان کا یہ بینک ریاست کے کسی ادارے کو جوابدہ نہیں ہوگا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ سمیت پاکستان کا کوئی ادارہ گورنر سٹیٹ بینک کو نہیں ہٹا سکے گا۔ اسی طرح احتساب کے ادارے جو صدر اور وزیراعظم کو تو احتساب کے لیے بلا سکتے ہیں لیکن وہ گورنر سٹیٹ بینک، اُن کے ڈپٹی گورنرز حتیٰ کہ سٹاف کے کسی فرد کو بھی نہیں بلا سکیں گے۔ مزید دل تھام کر یہ بھی ملاحظہ کیجئے کہ اس وقت سٹیٹ بینک دیہی ترقیاتی قرضے، صنعتی قرضے اور گھروں کی تعمیر کے لیے قرضے دیتا ہے۔ نئے بل کے مطابق سٹیٹ بینک یہ ترقیاتی و تعمیراتی قرضے نہیں دے گا۔
اپنی خود مختاری سے اپنے ہاتھوں دستبرداری کے بعد سادگی یا تضاد ملاحظہ کیجئے کہ حکومت کا کہنا ہے‘ سٹیٹ بینک مہنگائی کو کنٹرول کرے گا، ملک میں مالی استحکام لائے گا اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے اس کی مدد کرے گا۔ جب ملک کا یہ اہم ترین مالیاتی ادارہ آپ کو جوابدہ ہی نہیں ہوگا تو وہ اُن کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرائے گا جن کو یہ جوابدہ ہوگا۔ حکومت نے سینیٹ الیکشن کے ہنگام چپکے سے یہ بل 9 مارچ کو کابینہ کے سامنے پیش کیا۔ کابینہ کے ممبران نے 5 سے 7 منٹ کے اندر سر ہلا ہلا کر اس کو ایوان میں پیش کرنے کی منظوری دے دی۔ کابینہ کی بلا چوں و چرا رضامندی سے اُس کی استعداد کا اندازہ لگا لیں کہ کسی نے بل پڑھا نہ سمجھا۔
اپوزیشن کی اکثر سیاسی جماعتوں، جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہیں، نے اس بل کو مسترد کر دیا ہے؛ تاہم پی ڈی ایم یا پیپلز پارٹی نے ریاست کے ساتھ اتنے بڑے ظلم کے خلاف ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کی کوئی کال نہیں دی۔ گزشتہ روز منصورہ لاہور میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بل کے حوالے سے اپنے شدید اضطراب کا ذکر کیا۔ جماعت اسلامی نے نامور ماہرین معاشیات سے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 2021ء کے بارے میں اُن کی ماہرانہ رائے معلوم کی تو سب نے نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ اس بل کو ملکی و ریاستی خود مختاری کے خلاف قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ 1956ء کے ایکٹ کے مطابق سٹیٹ بینک ایک ایسا ادارہ ہے کہ جو ملک کے دیگر اداروں کی طرح پاکستانی پارلیمنٹ اور حکومت کو جوابدہ ہے۔ اگر یہ جوابدہی ختم ہوگئی تو پھر وہ ایک خودمختار ادارہ بن جائے گا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم اس ظلم عظیم کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے‘ نہ ہی کسی کو اجازت دیں گے کہ وہ ملکی خودمختاری سے دستبرداری اختیار کرے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اگلے چند روز میں سیاست سے بالاتر ہوکر قومی مشاورتی اجلاس بلا رہے ہیں‘ جس میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے علاوہ حکومتی پارٹی کو بھی مدعو کریں گے اور انہیں اس بل کے مضمرات سے کماحقہ آگاہ کریں گے۔ جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک زبردست ملک گیر احتجاجی تحریک چلا کر حکومت کو سٹیٹ بینک کے معاملے میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔
ماہر معاشیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے سٹیٹ بینک کی مجوزہ آزادی کی مثال جدید دور میں کہیں نہیں ملتی۔ ترکی میں مرکزی بینک نے سلطنت عثمانیہ کو مالی لحاظ سے بے اختیار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں سلطنت ٹوٹ گئی کیونکہ اس کے پاس دفاعی و حکومتی اخراجات کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں تھی۔
ڈاکٹر حفیظ اے پاشا پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے ایک انتہائی معتبر نام ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بھارت میں سٹیٹ بینک کے بورڈ میں حکومتی نمائندگی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں سٹیٹ بینک کے بورڈ سے حکومت کے نمائندے کو ہٹا دیا گیا ہے۔ سٹیٹ بینک حکومت کو قرضوں کی فراہمی روک دے تو دفاعی اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔ 2018ء میں دفاعی اخراجات کا بڑا حصہ سٹیٹ بینک سے قرضہ لے کر پورا کیا گیا تھا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے اس بل کو کابینہ سے منظور کروایا اور پھر مسودہ جاری کیا تاکہ عوامی ردعمل کا اندازہ کیا جائے۔
کوئی پتھر پھینک کر پانی کی گہرائی کا اندازہ لگا
اگرچہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر سٹیٹ بینک کے حوالے سے یہ بل منظور کروانے کی کوشش کرے گی مگر قوم کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں ہونے دے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved