یہ نحوست ہے ‘ کسی آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے ‘ یوں لگتا ہے ہماری زمین قہر زدہ ہوچکی ہے۔زمین قحط زدہ ہو تو امید اور بہتری کا امکان اور گمان بہرحال رہتا ہے‘مگر یہاں معاملہ قہر کی صورت اختیار کرچکا ہے اور قہر زدہ زمین سے بہتری کی امید خوش گمانی کے سوا کچھ نہیں ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کیا آئی خطے کا نصیب ہی بن کے رہ گئی۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی خمیر اور ضمیرپر آج بھی راج کررہی ہے۔عجیب معمہ ہے کہ مملکت خداداد پر حکمرانی کسی کی بھی ہو‘ عوام نے مینڈیٹ کسی کوبھی دیا ہولیکن فیصلوں اور ریفارمز کے معاملے میں سبھی بے اختیار اور بے بس ہی پائے گئے ہیں۔کشکول توڑنے والے ہوں یا آئی ایم ایف سے رجوع پر خودکشی کو ترجیح دینے کا دعویٰ کرنے والے۔آئی ایم ایف کے لتّے لینے والے ہوں یا آئی ایم ایف کی ادائیگیوں کو بھتہ قرار دینے والے۔سبھی اچھل کود کے بعد اچھے بچوں کی طرح ان احکامات اور مطالبات کی اس طرح بجا آوری کرتے ہیں جیسے ان سے پہلے حکمران کرتے رہے ہیں۔
ایک اور معمہ دن بدن اہمیت اور تقویت اختیار کرتا چلا جارہا ہے کہ آخر وہ کونسا آسیب ہے‘وہ کونسی طاقتیں ہیں جو ہردور میں چند اہم ترین وزارتوں پر اس طرح اثر انداز رہتی ہیں کہ کوئی بھی حکمران مزاحمت تو درکنار اختلاف بھی نہیں کر سکتا۔ آفرین ہے عوام کے غم میں گھلنے والے نیتا ان فیصلوں کو اس طرح قبول کرتے ہیں جیسے یہ کوئی خدائی حکمنامہ ہو۔ تسلیم نہ کیا تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔جس معین قریشی کو اپنی والدہ کی قبر کے بارے کچھ پتا نہ تھا اس کی اس خطے سے یا اس مٹی سے کیا وابستگی اور کیا درد مندی ہوسکتی ہے؟ شوکت عزیز کو خوش آمدید کہنے والوں کو اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے کہ وہ نجات دہندہ تو عوام کے بنے پھرتے تھے اور اطاعت گزاری ایک ایسے شخص کی کرتے رہے جس کوملکی مسائل کا کوئی دردتھانہ ہی ملکی سیاست سے کوئی تعلق۔پھر بھی اس کو آداب بجا لاتے رہے ۔
حفیظ شیخ جاچکے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی آتے جاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی نئے سکرپٹ کے ساتھ کسی وقت آسکتے ہیں۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کا قلمدان رضا باقر صاحب کو سونپ کر گئے ہیں۔انہوں نے بھی انہی کی رضا پر لینڈ کیاہے جن کی رضا ہر دور میں مقدم اور نان سٹاپ چلتی ہے۔آنے والے دنوں میں سٹیٹ بینک آف پاکستان میں'' سٹیٹ ‘‘کا کیا کردار ہوگا یہ سوال بھی ایک معمہ بنتا چلا جارہا ہے۔حماد اظہرنے وزارتِ خزانہ کے قلمدان کو ابھی چھوا تک نہ تھا کہ شوکت ترین کو معیشت کے نگرانوں کی ٹیم میں شامل کرکے انہیں خزانے کا کرتا دھرتا بنانے کی باتیں شروع ہوچکی ہیں۔بیرسٹر حماد اظہر کے بارے میں یہ انکشاف بھی چند روز قبل ہی شبلی فراز نے کیا تھا کہ وہ خزانے کے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں‘حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور عام آدمی کو اب ریلیف ملے گا۔
وطنِ عزیز پر مسلط حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی ‘ من مانی اور آسیب کی اطاعت گزاری سے لے کر عوام کی حالتِ زار تک لکھنا بھی چاہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ دھاڑیں مار رہے ہوں۔ہر سطر سے خون ٹپک رہا ہو۔اعراب آبلہ پا ہوں۔قلم کے ساتھ کاغذ بھی سینہ کوبی پر آمادہ ہو۔برس ہا برس بیت گئے‘کتنے ہی حکمران بدل گئے‘کتنی ہی رتیں اور موسم آکر گزر گئے لیکن عوام کی سیاہ بختی ہے کہ جانے کا نام نہیں لیتی۔ کوئی آسیب ہے یا نظر ِبدکہ عوام کی حالتِ زار جوں کی توں اور بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ہر آنے والا حکمران خرابی اور بربادی سابقہ حکمرانوں کے کھاتے ڈال کراپنے حصے کی تباہی کر کے دددھ کا دھلا بنا پھرتا ہے۔انتہائی اہم اور ملکی استحکام سے منسوب اداروں کو تباہ و برباد کرنے سے لے کر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے تک یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دور حاضر کے‘سبھی میں بدترین طرزِ حکمرانی کا مقابلہ دکھائی دیتا ہے۔ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر فیصلوں اور اقدامات تک ہر طرف بربادی ہی بربادی دکھائی دیتی ہے۔دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بے نظیر کا‘پرویز مشرف کاہو یا آصف علی زرداری کاسبھی نے اپنے ہی عوام سے اپنے اپنے حصے کا تاوان وصول کرنے کے بعد انہیں ادھ موا کرڈالا تھا کہ اقتصادی اور معاشی ماہرین سمیت گورننس اور میرٹ کے چیمپئنز کی ایک ٹیم برسراقتدار تو آگئی لیکن ان سبھی کی قابلیت اور اہلیت نامعلوم اور کارکردگی تاحال صفر سے بھی گئی گزری رہی اوریہ چیمپئنز پہلے دس اوورز میں ہی ہینڈز اَپ کرگئے۔بالآخر سارے معاملات اُنہی کے سپرد کرنا پڑے جن کی موجودگی اور پالیسیوں پر یہ تنقید کے نشتر برسایا کرتے تھے‘ جنہیں ملکی معیشت کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا کرتے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ...تھا جو نا خوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا۔
کوئے اقتدار سے لے کر سڑکوں اور محلوں تک اخلاقی گراوٹ اور ہوسِ زر کے کیسے کیسے مناظر دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔کیا حکام ‘ کیا عوام ‘کیا خاص‘ کیا عام‘سبھی کے درمیان ریس جاری ہے۔طرزِ حکمرانی سے لے کر من مانی تک‘بیان بازی سے لے کر رنگ بازی تک‘سڑکوں اور گلیوں کی صفائی سے لے کر ہاتھ کی صفائی تک‘کورونا سے لے کر حالات کے رونے تک‘ قانون سے لے کر سماجی انصاف تک‘دروغ گوئی سے فروغ بیانی تک‘سبکی سے لے کر رسوائی تک‘رخ سے لے کر پیکر تک‘خودنمائی سے لے کے موقع پرستی تک‘موقع پرستی سے لے کر خودپرستی تک‘مکاری سے لے کر سہولت کاری تک‘گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ادائوں سے لے کر خطائوں تک‘نیت سے لے کر ارادوں تک‘آٹے کے گھاٹے سے لے کر چینی اور پٹرول تک‘حزب اقتدارسے لے کر حزب اختلاف تک‘منتخب سے لے کر غیر منتخب تک‘خیال سے لے کر تکمیل تک‘خواب سے لے کر تعبیر تک‘ یوٹیلٹی بلوں سے لے کر عوام کی بلبلاہٹ تک‘وسوسوں سے لے کر خوف وہراس تک‘کس کس کا رونا روئیں؟ ان سبھی موضوعات پر لکھنے کے لیے ایسے نجانے کتنے کالم درکار ہوں گے۔تاہم علامتی ماتم پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
عرصۂ اقتدار کی نصف مدت گزارنے کے بعد بھی نہ کوئی وزیر خزانہ فٹ ہورہا ہے نہ کسی ترجمان سے مطمئن ہیں۔بیوروکریسی پر تو اتنے تجربے کئے جاچکے ہیں کہ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ہو یا انتظامی سرکاری بابو سبھی نے کام نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔نجی محفلوں میں اکثر افسران برملا اعتراف بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ شہباز شریف کے سخت رویے کے باوجود ہم اس کی گورننس کو یاد کرتے ہیں‘ موجودہ حکومت کے ناتجربہ کار وزیروں اور مشیروں کے ساتھ کام کرنا تو درکناران کے ساتھ میٹنگز کا مزہ بھی نہیں آتاکیونکہ نہ تو ان کی کوئی انتظامی قابلیت ہے نہ کوئی ویژن۔خود کو عقلِ کل سمجھنے والے اکثر وزیر اور مشیرایسے اوٹ پٹانگ فیصلے کرتے نظر آتے ہیں کہ جنہیں گورننس اور میرٹ کی ضد ہی کہا جاسکتا ہے۔ایسے حالات میں بیوروکریسی حکومت کے ساتھ تعاون سے گریزاں ہی نظر آتی ہے۔ نت نئی توجیہات کے ساتھ آنے والے کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور جانے والے کو نالائق قرار دیتے ہیں۔اس صورتحال سے عاجز بیوروکریسی حکومت کی ان پالیسیوں سے نالاں اور کام کرنے سے گریزاں ہے۔مہنگائی کا ذمہ دار حفیظ شیخ کو ٹھہرا کربیرسٹر حماد اظہر کو ماہرِ معاشیات ثابت کرنے کی سرکاری کوششیں جاری ہیں گویا مہنگائی کا جن صرف وہی قابو کرسکتے ہیں جبکہ اس سے کہیں بڑی توقعات اسد عمر صاحب سے باندھی گئی تھیں بلکہ قوم کو یہ بھی بتایا گیا تھاکہ ہمارے پاس ایک ایسا اقتصادی چیمپئن موجود ہے جوپوری تیاری کے ساتھ وزارت خزانہ چلائے گا اور ملک میں ایسا معاشی انقلاب آئے گاجس کے دعوے دھرنوں کے دوران کئے گئے تھے‘ لیکن یہ اس لیے نہ ہوسکا کہ یہ دعوے اور وعدے اسد عمر کے قد اور قابلیت سے کہیں بڑے ثابت ہوئے؛ تاہم عوام کو کسی بھی خوش گمانی کا شکار ہونے کی بجائے کسی بڑے اور نئے امتحان کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف کا ''جن جپھا‘‘ہماری سرکار سے کہیں مضبوط ہے۔