تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-04-2021

ہر جن بوتل سے باہر

کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ حالات کا اونٹ اب کس کروٹ بیٹھے گا۔ اور یہ بھی تو طے نہیں ہو پارہا کہ کون کون سے حالات کا رونا روئیے۔ ایک طرف معیشت کی خرابی ہے اور دوسری طرف سیاست کی الجھن۔ معاشرت الگ الجھی ہوئی ہے۔ مسائل کی تعداد اور پیچیدگی‘ دونوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے اس لیے وہ زیادہ پریشان ہیں مگر ایک اضافی پریشانی یہ بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت کو مشکل میں دیکھ کر عوام زیادہ پریشان ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس پریشانی کا خمیازہ بھی آخرکار اُنہی کو بھگتنا ہے۔ اپوزیشن کو عوام کے مفاد میں کام کرنا چاہیے یعنی اُن کے مسائل حل کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہیے مگر اس وقت حکومت پر صرف اس لیے دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ وہ مکمل ناکامی سے دوچار ہوکر ٹریک سے اتر جائے اور یوں ''عوام کے بہترین مفاد میں‘‘ احتجاجی تحریک چلانے والوں کی لاٹری نکل آئے!
وہ بھی ایک زمانہ تھا جب سننے کو ملتا تھا کہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے۔ آج ہر اہم معاملے کا جن بوتل سے باہر آنے کو اتاؤلا ہوا جارہا ہے۔ سیاست کا جن شدید ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوکر سب کو ڈرا رہا ہے۔ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور احتساب کے ذریعے اُس پر دباؤ بڑھانے کے نام پر اپوزیشن نے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کو نصب العین بنارکھا ہے۔ ایوان ہائے اقتدار تک جلد از جلد پہنچنے کی کوشش میں اپوزیشن عوام کے مفاد پر کاری ضرب لگارہی ہے۔ عوام کا مفاد اِس حقیقت میں مضمر ہے کہ بے یقینی کی فضا جلد از جلد ختم ہو اور اُن کے بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے۔ اپوزیشن بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بے یقینی پیدا کی جائے تاکہ حکومت کام کرنے کی پوزیشن ہی میں نہ رہے۔ سیاسی خرابیوں نے معیشت کو بھی الجھادیا ہے۔ معاشی سرگرمیاں اب تک مکمل بحالی کی حالت میں نہیں آسکی ہیں۔ کورونا کی وبا جان نہیں چھوڑ رہی۔ کہیں سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا جارہا ہے اور کہیں وسیع تر لاک ڈاؤن متعارف کرایا جارہا ہے۔ جہاں کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں وہاں سخت تر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یومیہ بنیاد پر کمانے والوں کی معاشی پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ بہت سوں کی چھوٹے پیمانے کی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے۔ چھوٹے کاروبار شروع کرنے والے حکومتی اقدامات کے ہاتھوں شدید خسارے سے دوچار ہو رہے ہیں اور انہیں ازالے کے طور پر بھی کچھ نہیں دیا جارہا۔ ملک عجیب پریشان کن موڑ پر کھڑا ہے۔ چین نے اقتصادی راہداری منصوبے کی شکل میں امکانات کی جو کہکشاں سجائی تھی‘ اُس کی چمک دمک بھی ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اب چین نے ایران سے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کر لیا ہے۔ بعض افراد اس معاہدے کو پاکستان کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ قصہ مختصر! اندر چَین ہے نہ باہر قرار!
ایک طرف معاشی خرابیاں ہیں اور دوسری طرف معاشرتی الجھنیں۔ اہلِ سیاست نے طے کر رکھا ہے کہ معاملات کو سلجھنے نہیں دینا۔ منتخب ایوان اکھاڑوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ملک و قوم کے مسائل حل کرنے پر متوجہ ہونے کے بجائے منتخب ارکان چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ اقتدار سے باہر رہنے کی صورت میں بھی حصہ ملتا رہے۔ سیاست محض بلیک میلنگ بن کر رہ گئی ہے اور سیاسی جماعتوں نے پریشر گروپس کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ایوان ہائے اقتدار سے باہر بیٹھی جماعتیں کچھ حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کر رہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عمل انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے۔ منتخب ایوانوں کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ معاملات اِتنے الجھ کر رہ گئے ہیں بہت کوشش کرنے پر بھی کوئی سرا ہاتھ میں آرہا ہے نہ کچھ سمجھ ہی میں آرہا ہے کہ معاملات کی درستی کے لیے کیا کیا جائے۔ ملک و قوم کا مقدر دیکھیے کہ ہر جن بوتل سے باہر آنے کی تگ و دَو میں مصروف ہے۔ کاروباری طبقہ شدید بے یقینی کا شکار رہتا ہے اور قوم کو بھی اس کیفیت سے دوچار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ معیشت اب تک باضابطہ نظم کے تحت نہیں لائی جاسکی ہے۔ اشیائے خور و نوش کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے‘ کسانوں کو اُن کی فصلوں کا معقول معاوضہ نہیں مل رہا۔ سبزیاں کبھی تو اتنی مہنگی ہو جاتی ہیں کہ قابو میں نہیں آتیں اور کبھی اِتنی سستی ہوجاتی ہیں کہ کسانوں پر ترس آنے لگتا ہے۔ سارا مزا آڑھتی لُوٹتے ہیں۔ حکومت نے اب تک اشیائے خور و نوش بالخصوص سبزیوں اور پھلوں کے نرخ متعین کرنے کا کوئی ایسا میکنزم تیار نہیں کیا جس کی مدد سے کسانوں کو ڈھنگ سے کچھ منافع کمانے کا موقع مل سکے۔ گوشت، مچھلی، سبزیاں، پھل وغیرہ کسی خاص میکنزم کے تحت نہیں اس لیے اِن کے نرخوں میں انتہائی نوعیت کا نشیب و فراز دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب کچھ دانستہ ہوتا ہے۔ آڑھتی جب چاہتے ہیں‘ معاملات کو اپنی مرضی کی راہ پر گامزن کردیتے ہیں۔ جب اُن کی دال نہیں گل رہی ہوتی تو نرخوں کو اِس قدر نیچے لے آتے ہیں کہ کسانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ جب نرخ بہت بلند ہوتے ہیں تب بھی سارا مزا آڑھتی ہی لُوٹتے ہیں، کسانوں کو تب بھی کچھ نہیں مل رہا ہوتا۔
انتظامی مشینری کی ناکامی کی انتہا یہ ہے کہ گوشت، مچھلی، سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ساتھ دودھ، دہی، مکھن وغیرہ کے نرخ بھی معقول سطح پر رکھنا ممکن نہیں رہا۔ ڈیری مافیا جب چاہتا ہے، دودھ کے نرخوں میں من چاہا اضافہ کرلیتا ہے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ انڈے کے نرخوں میں بھی شدید اتار چڑھاؤ دکھائی دیتا ہے۔ کورونا کی وبا نے چونکہ ملک بھر میں معاشی انتشار پیدا کر رکھا ہے اس لیے لوگ اپنے خسارے کے ازالے کے لیے ایک دوسرے کو ذبح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہنر مند اپنی دہاڑی میں من چاہا اضافہ کر رہے ہیں۔ عام سے مزدور کو معمولی سے کام کے لیے بلائیے تو پہاڑ جتنی اجرت طلب کر لیتا ہے۔ عام آدمی گھر کی تزئین و آرائش کے لیے دہاڑی کی بنیاد پر کسی کو ذمہ داری سونپے تو وہ کام کو طول دیتا چلا جاتا ہے تاکہ دہاڑیاں بڑھتی رہیں اور اگر کام ٹھیکے پر دیا جائے تو جیسے تیسے نمٹاکر پیسے کھڑے کرلیے جاتے ہیں۔ کسی بھی طور بہت کچھ بٹور لینے کی ذہنیت اس قدر پنپ چکی ہے کہ اب قومی مزاج کا حصہ ہوگئی ہے۔ ادارے اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے نہیں کر پارہے،ا نتظامی مشینری بھی عام آدمی کے لیے ریلیف کا سامان کرنے میں ناکام ہے۔ ہر معاملے کا جن بے قابو ہوکر بوتل سے باہر آنے کے لیے بے تاب ہے۔ حکومت مکمل بے بسی کی حالت میں محض تماشائی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے لیے وقت اور کچھ کرنے کی گنجائش دونوں ہی اب بہت کم ہیں۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نے اسے بند گلی میں پہنچادیا ہے۔ ملک ہر سطح پر مافیاز کی زد اور شکنجے میں ہے۔ اس بند گلی سے نکلنے کے لیے وزیراعظم اور اُن کے رفقا کو غیر معمولی سطح پر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے لیے معقول منصوبہ سازی لازم ہے۔ کابینہ میں تیزی سے رد و بدل مسائل کو حل کرنے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتا ہے۔ برطرفیوں سے زیادہ کارکردگی کا گراف بلند کرنے پر متوجہ رہنا چاہئے۔ بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے حواس برقرار رکھنا انتہائی ناگزیر ہے۔ حکومت کو حواس باختہ ہوئے بغیر کام کرنا ہے اور زیادہ توجہ اس بات پر دینی ہے کہ چھوٹے پیمانے پر کسی بھی طرح کی بہتری کے لیے جو کچھ کیا جاسکتا ہے‘ وہ ضرور کیا جائے۔ کسی بھی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کے لیے چھوٹی تبدیلیاں یقینی بنانا لازم ہوا کرتا ہے۔ کسی بھی معاملے کو اِس طور نظر انداز نہ کیا جائے کہ وہ جن کی شکل اختیار کرکے بوتل سے باہر آئے اور حقیقی معنوں میں بڑا دردِ سر ثابت ہو۔ قوم کو ریلیف درکار ہے‘ چھوٹے بڑے تمام جِنوں کے بے قابو ہونے کا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved