تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     03-04-2021

حکومت یا تماشا؟

نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اِس حکومت کو سرکس کہنا سرکس کی توہین ہے۔ نالائقی کے کئی انداز ہوسکتے ہیں لیکن جوہم دیکھ رہے ہیں اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ نہ اِن کو اپنی سمجھ ہے نہ ملک کی۔ جہاں تک معیشت کا حال ہے ایسٹ انڈیا کمپنی والے ہوتے تو وہ لٹیرے بھی معیشت کو بہتر چلا لیتے۔ ایک دن ہندوستان سے تجارت کا اعلان ہوتا ہے۔ دوسرے دن فیصلہ واپس لے لیا جاتا ہے۔ جگ ہنسائی کی اِنہیں کوئی پروا نہیں۔ ندامت کا کوئی ایک باعث ہو تو الگ بات ہے لیکن جہاں ہر بات پہ ندامت کا سامان بندھے وہاں شرم اور بے شرمی میں تمیز مٹ جاتی ہے۔
وزیر خزانہ جو فارغ ہوئے ہیں کبھی اُن کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے تھے۔ ہٹائے گئے ہیں تو رسوا ہوکر۔ جب اتنا عرصہ کوئی ساتھ رہا ہوتو فارغ کرنے کا بھی کوئی اسلوب ہوتا ہے‘ لیکن یہاں اسلوب نام کی کوئی چیز نہیں۔ جو اِن کے دربار سے فارغ ہوا بے عزت ہوکر ہی ہوا۔ نئے وزیرخزانہ لگائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ خبریں گردش کرنے لگتی ہیں کہ ایک اِکنامک ایڈوائزری کمیٹی بنے گی جس کے سربراہ شوکت ترین ہوں گے۔ اگلے روز ترین صاحب ایک ٹی وی پروگرام میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایکسچینج ریٹ کے فیصلے نے معیشت کا ستیاناس کردیا۔ حقیقت میں اِس حکومت کی کارگزاری ایسی ہے کہ انسان لکھنے بیٹھے تو حیرت میں مبتلا ہوجائے کیونکہ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے شروع کیا جائے اور کہاں ختم۔ لیکن نصیب یا تقدیر کے فیصلوں سے کون لڑسکتا ہے اور یہ تولگتا ہے کہ ہمارے نصیب میں لکھا ہوا تھاکہ یہ لوگ حکومت میں آئیں گے اورجہاں اِس ملک‘ جسے ہم مملکت خداداد کہتے ہیں‘ نے بہت کچھ برداشت کیا ہے وہاں اُسے اِس آزمائش سے بھی گزرنا پڑے گا۔
اہل کرم رویا کرتے تھے کہ اِس ملک میں ایک مسلسل قیادت کا بحران ہے۔ نیک نام لوگوں کا معمول بن چکا تھاکہ پچھلے چالیس سال کی حکومتوں کو کوسا کرتے اور اُن کی لوٹ مار کی کہانیوں کواجاگر کیا جاتا۔ اِس پس منظر میں تحریک انصاف اور اُس کے لیڈر کو ایک مسیحا اور نجات دہندہ کے طورپہ پیش کیا جارہا تھا۔ ہر جتن کیا گیا ان کو اقتدار میں لانے کیلئے۔ اقتدار میں تو یہ آ گئے لیکن گل ایسے کھلا رہے ہیں کہ قیادت کے بحران کی اصطلاح ایک نیا مفہوم حاصل کرچکی ہے۔ حکومت اِن کے بس کی بات نہیں، یہ تو عیاں ہوتا جا رہا ہے‘ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ اِس بدنصیب ملک کے نصیب میں اورکیا کچھ لکھا ہے۔ یہ بس اِسی پانچ سالہ دور کیلئے ہیں۔ آگے والی بات اِن کی کوئی نہیں۔ لیکن باقی شہسواروں کو بھی ہم آزماچکے۔ بربادیاں پھیلا کے جب یہ جائیں گے تواور کونسا شہسوار میدان میں رہ جائے گا؟
ہر انسان کے بس میں کچھ باتیں ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں نہیں۔ کھیل کے میدان کے کھلاڑی اپنے فن کے ماسٹر ہوتے ہیں۔ اپنی مخصوص فیلڈ میں نام کماتے ہیں‘ لیکن مشہور فٹ بالر پیلے برازیل کا صدر نہیں بنایا جاتا۔ فٹ بالر میراڈونا ارجنٹینا کے سربراہ نہیں چنے جاتے۔ عظیم ترین باکسر محمد علی نے سیاست میں قدم نہیں رکھا۔ ہندوستان میں فلم ایکٹر سیاست میں آئے ہیں لیکن ہالی ووڈ میں یہ دستور نہیں۔ پاکستان میں البتہ یہ انوکھا تجربہ ہواکہ ایک آدمی‘ جس نے کرکٹ کے میدان میں نام کمایا‘ نے سیاست میں قدم رکھا اور پھر بہت سے طبقات اسے نجات دہندہ کے روپ میں دیکھنے لگے‘ لیکن جیسا ہم دیکھ رہے ہیں‘ بات کچھ بن نہیں پائی۔ سیاست میں رہے تو ایک ایجیٹیٹر (agitator) بن کے رہے۔ اقتدار میں آئے اور اس عمل میں دائیں بائیں سے اِن کی مدد بھی خاصی ہوئی تو یہ نظر آنے لگا کہ حکومت اِن کے بس کی بات نہیں۔ حکمرانی کیلئے ایک بنیادی سمجھ ہوتی ہے جو کہیں نظر نہیں آتی۔ چیف منسٹر لگائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ دیگر محکموں میں لگائے گئے آدمی جو بعد میں برطرف ہوئے‘ اُن کی تفصیل میں جائیں تو فہرست لمبی ہو جائے۔ کچھ ہمارے نصیب کا قصور کچھ بیڑہ غرق پاکستانی تارکینِ وطن نے کیا۔ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں پاکستانی تارکین وطن نے ڈھول بجائے کہ پاکستان کے مسائل کا حل عمران خان ہیں۔ دلیر اور صاف آدمی ہیں، کرپشن کا کوئی دھبہ اس کی ذات پہ نہیں۔ اقتدار میں آئے گا تو کرپشن پہ کلہاڑی چلا دیں گے اور گردن سے پکڑ کے ملک کو درست سمت میں ڈال دیں گے۔ کسی وزیراعظم کے حق میں اتنی چیزیں نہ تھیں۔ اداروں کی مکمل حمایت، اپوزیشن پارٹیاں اور ان کی قیادتیں بدنام۔ پرانے لیڈروں پہ مقدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ پہلے دو سال تو یوں لگتا تھاکہ اس ملک میں کوئی اپوزیشن ہے ہی نہیں۔ اپوزیشن کا کردارتو خود حکومت نبھا رہی ہے۔ شروع دن سے نالائقی ایسی کہ اپنی ہی گردن کا طوق بن گئی۔ آج حالت یہ ہے کہ پتا نہیں چلتا‘ ملک کیسے چل رہا ہے۔ کیا روئیں گندم اور چینی کا۔ یہ تو نمایاں مثالیں ہیں نہیں تو ہر سمت کا ریکارڈ ایسا ہی ہے۔ اگر اِس حکومت کو تجربہ سمجھا جائے تواب کوئی شک نہیں رہاکہ یہ ناکام ثابت ہوچکا ہے۔ ہرکام کیلئے کوئی بنیادی قابلیت ہوتی ہے لیکن حکمرانی کیلئے اِن لوگوں کے پاس ایسی قابلیت نہیں۔
اِس سارے قضیے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہم پیچھے پھسل رہے ہیں یا ایک ہی جگہ پہ کھڑے ہوئے لیفٹ رائٹ کررہے ہیں۔ حساب لگایا جائے تویہ وقت ہم نے برباد کیا ہے۔ اگلے دوسال ظاہر ہے اِنہی لوگوں نے اقتدار میں رہنا ہے۔ اڑھائی سال کے جلوے دیکھ کے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ دوسال بھی ویسے ہی ہوں گے۔
ملکی حالات دیکھ کے دل میں خیال اٹھتا ہے کہ ہم نے ٹھیک نہیں ہونا۔ ہم ناقابل اصلاح ہیں یا ہمارے نصیب ہی ایسے ہیں۔ جو آتا ہے یا لٹیرا نکلتا ہے یا پرلے درجے کا نکما۔ ایسے میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ کس کا دامن پکڑیں، کس کا سہارا لیں؟ اِسی لئے اکتائے ہوئے دلوں سے کبھی کبھی یہ آواز نکلتی ہے کہ دفع کریں سیاست کو، نکلنا تو اِس سے کچھ نہیں۔ خوش نصیب وہ جن کے حالات اچھے ہیں اور جو مال بنا رہے ہیں۔ ایسے لوگ مال بنائے جا رہے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ یہ ملک بنا ہی اِن خوش بختوں کیلئے ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کے خیال آتا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ صحت کی دعا کرو اور ہو سکے تو اپنی شاموں میں کچھ رنگ بھر دو۔ کڑھنے کا کیا فائدہ؟ امیدیں باندھنے سے کیا حاصل کیونکہ قوم نے ساری عمرامیدیں پالیں لیکن اُن کا بنا کچھ نہیں۔ جب بال اتنے سفید نہیں تھے توہم جیسے جمہوریت کو روتے تھے۔ تب ایمان کی حد تک پختہ یقین تھاکہ ملکی مسائل کا حل جمہوریت میں پنہاں ہے۔ جمہوریت دیکھ چکے۔ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتے گئے۔
خلوت اور حالات سے کنارہ کشی سادھوؤں کا شیوہ ہے‘ لیکن اب سادھو بننے کو جی چاہتا ہے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پہ کوئی مزار یا خانقاہ ہو جس کے مکین ہو جائیں۔ ٹیلی ویژن دیکھنا کب کا چھوڑ دیا۔ اخبارات کا پڑھنا بھی اب بھاری لگتا ہے۔ قوم کی فکر سے نجات حاصل کرچکے۔ بس تھوڑی سی پڑھائی لکھائی ہو اور تھوڑی سی موسیقی۔ باقی اپنی بلا سے کہ آئندہ کیا ہونا ہے۔ جہاں تک نجات دہندوں کا تعلق ہے وہ ہم بہت دیکھ چکے۔ کس کس کا نام لیں۔ اِن نجات دہندوں نے ہی قوم کو یہاں تک پہنچایا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved