تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     03-04-2021

بابا فضل کلیامی: پوٹھوہار کا چراغِ عشق… (2)

گیٹ کھلا تو میں نے دیکھا‘ صحن کے اس پار دائیں ہاتھ ایک خوبصورت کمرہ تھا اور اس پر ایک گنبد۔ کمرے کے دروازے کی پیشانی اور اطراف سے خوبصورت گل بوٹے۔ میں نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا ایک تقدس کی فضا ہر طرف چھائی تھی۔ میں نے وسیم سے پوچھا: یہ کیسی جگہ ہے جہاں وقت ٹھہر سا گیا ہے۔ وسیم بولا: یہی بابا فضل کی جائے ولادت ہے۔ میں کچھ دیر خاموش وہاں کھڑا رہا‘ تاریخ میں منجمد وقت کی طرح۔ کمرے کے سامنے لوہے کے فریم میں پتھر کی ایک بڑی سل رکھی تھی۔ سل کو پوٹھوہاری زبان میں پَڑی کہتے ہیں۔ وسیم نے بتایا یہ وہی پَڑی ہے جہاں بابا فضل بیٹھا کرتے تھے۔ پوٹھوہار کی گرمیوں میں جب ہوا میں حدت ناقابلِ برداشت ہو جاتی تھی، جب گھڑوں میں پانی گرم ہو جاتا اور جب ننگے پائوں زمین پر چلا نہیں جاتا تھا‘ ایسے میں یہ سل گرمی سے تپ کر سلگ اٹھتی تھی‘ بابا فضل ننگی پشت پر اس پر لیٹے رہتے تھے۔ کہتے ہیں‘ جب وہ اس سِل سے اٹھتے تو ان کے بدن کے چرچرانے کی آواز آتی۔ سردیوں کے ٹھٹھرتے دنوں میں جب بابا فضل کے اندر عشق کا دہکتا الائو انہیں بے چین رکھتا ان کے کہنے پر ایک مشک سے یخ بستہ پانی ان پر ڈالا جاتا۔ میں سڑی گیاں، میں بَلی گیاں (میں جل گیا ہوں، میں جل گیا ہوں) یہ کون سی آتش تھی جو ان کا تن بدن جلا رہی تھی اور انہیں کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔ بابا فضل کی تسکین کا مرکز پاکپتن بابا فرید شکر گنج کا مزار تھا‘ جہاں وہ گولڑہ کے پیر مہر علی شاہ اور دوسرے رفقا کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ یہاں سے گائوں کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک قدیم برگد کے درخت کے پاس آ گئے۔ اس کے ساتھ بائیں ہاتھ سیڑھیاں چڑھ کر ایک چبوترے پر بابا فضل کے والد اور والدہ کی قبریں تھیں۔ ان کے علاوہ ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی یہیں زیر زمین سو رہے تھے۔ میں کچھ دیر کیلئے چبوترے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا‘ تصوف کے ایک منطقے میں کیسے جذب کی کیفیت عبادت کے ظاہر کو باطن میں چھپا دیتی ہے۔ بابا فضل لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے‘ کلیام اور ارد گرد کے علاقوں کے لوگ ان پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار تھے۔ اسی دوران کہیں سے ایک فتویٰ دیا گیا کہ بابا فضل کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ یہ فتویٰ زور و شور سے پھیلایا گیا۔ جب کسی نے بابا فضل سے اس کا ذکر کیا تو بابا فضل نے اطمینان سے اس کا جواب دیا: میری نماز جنازہ شریعت کے علم کا وہ شہسوار پڑھائے گا کہ سب کو شریک ہونا پڑے گا۔
میں اس چبوترے پر نجانے کب تک بیٹھا رہتا کہ وسیم بولا: اب چلتے ہیں بابا جی کے مزار پر جو یہاں سے دو کلو میٹر پر ہے۔ میں اٹھ کھڑا ہو گیا۔ برگد کے بوڑھے درخت کے قریب سے گزر کر تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم اپنی گاڑی تک پہنچے۔ اب ہم اسی اونچے نیچے اور ٹیڑھے میڑھے راستے پر کلیام اعوان جا رہے تھے۔ وہی کلیام اعوان جہاں حافظ خواجہ محمد شریف کی تعلیم نے ان پر علم و نظر کے نئے دریچے کھول دیے تھے‘ اور پھر وہ وقت آیا جب بابا فضل کا اپنا دائرہ اثر پوٹھوہار کے مختلف قصبوں اور دیہاتوں میں پھیل گیا۔ لوگ ان کے پاس دور دور سے آنے لگے۔ بابا فضل نے اپنی روح کی شادابی کے لیے اپنے جسم کو مشقِ ستم بنا رہے تھے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کس پھل کا کیا ذائقہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا تھا‘ انہوں نے دنیا کے سب رنگوں اور ذائقوں کے دروازے اپنے لیے بند کر دیے تھے۔ بس ایک شوق آخر دم تک ان کے ہمراہ رہا۔ یہ سماع کا شوق تھا جو سلسلۂ چشتیہ کی ایک توانا روایت ہے۔
ایک دن انہوں نے وصیت کی کہ ان کے وصال پر ستار کا ساز بجایا جائے۔ مسلسل فاقوں اور جسم کو مشقت کے امتحان میں ڈالنے کی وجہ سے اب کمزوری ان پر غالب آنے لگی تھی۔ ان کے چاہنے والے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ بابا فضل کا دمِ رخصت قریب آ رہا ہے۔ ایک ہنگامہ خیز زندگی اور رشد و ہدایت کے دور کا خاتمہ اب کچھ دنوں یا مہینوں کی بات تھی۔ پھر ایک رات کلیام اعوان سے دُور گولڑہ میں پیر مہر علی شاہ صاحب سوتے میں چونک کر اٹھ بیٹھے۔ وہ خواب ہی کچھ ایسا تھا جس نے ان کی نیند اچاٹ کر دی تھی۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ بابا فضل انہیں کہہ رہے ہیں کہ میرا وصال ہو گیا ہے اور جنازہ آپ نے پڑھانا ہے۔ پیر مہر علی شاہ بے چین ہو گئے۔ وہ اسی وقت کلیام اعوان کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ واقعہ ان کی سوانح عمری ''مہر منیر‘‘ میں درج ہے۔ جب وہ گائوں کے باہر پہنچے تو بابا فضل کھڑے نظر آئے۔ پیر مہر علی شاہ نے کہا: مجھے تو آپ نے خواب میں آ کر بتایا تھا کہ آپ کا وصال ہو چکا ہے۔ بابا فضل نے کہا: میں نے آپ کو صحیح بتایا تھا‘ میرا وصال ہو چکا ہے‘ لیکن میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ آپ مجھے ملنے آئیں اور میں آپ کا استقبال نہ کروں۔ جب گائوں میں اور ارد گرد کے علاقوں میں خبر ہوئی کہ بابا فضل کا وصال ہو گیا ہے اور نماز جنازہ پیر مہر علی شاہ پڑھائیں گے تو لوگوں کا ہجوم امڈ آیا۔ پیر مہر علی شاہ نے گھوڑے پر بیٹھ کر صفیں درست کرائیں۔ جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ بابا فضل کو لحد میں اُتارتے وقت بابا جی کی وصیت کے مطابق ستار کا ساز بجایا گیا۔ آج میں وسیم کے ہمراہ بابا فضل کے مزار کی طرف جا رہا تھا۔ مزار کی طرف مڑنے والی سڑک پر ایک کُھلی جگہ ہم نے گاڑی کھڑی کر دی کیونکہ یہاں سے آگے تنگ بازار تھا جہاں دونوں طرف مٹھائی، جلیبی، پکوڑے بن رہے تھے۔ ایک میلے کا سا سماں تھا‘ حالانکہ یہ عام دنوں میں سے ایک دن تھا۔ جوں جوں میں بازار میں آگے بڑھتا ہوا مزار کی طرف جا رہا تھا‘ قوالی کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ اب میں مزار کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ مزار کے بائیں ہاتھ باب الفضل کے نام سے ایک دروازہ بنایا گیا ہے۔ اب میں مزار کے سامنے تھا‘ جو فنِ تعمیر کا دلکش نمونہ ہے۔ مزار کے اندر لوگ آ‘ جا رہے ہیں۔ میں ے دیکھا‘ بابا فضل کلیامی کی قبر کے ارد گرد اور چھت پر خوبصورت نقوش ہیں اور آیات لکھی ہیں۔ میں نگاہ اُٹھا کر دیکھتا ہوں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان جوق در جوق آ رہے ہیں۔ میں مزار کے صحن میں بیٹھے سوچ رہا ہوں۔ یہ 19ویں صدی کی کہانی تھی اور اب اکیسویں صدی ہے۔ درمیان میں دو صدیوں کی طویل مسافت ہے‘ لیکن جذبوں کی فراوانی ہے کہ کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ عشق کا چراغ‘ جو بابا فضل نے پوٹھوہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں میںجلایا تھا‘ اس کی ضیا اب دور دور تک پھیل چکی ہے۔ مجھے یوں لگا‘ میاں محمد بخش کا یہ شعر بابا فضل کی زندگی کی تصویر بن گیا ہے۔
بال چراغ عشَق دا میرا‘ کر دے روشن سینہ
دل دے دیوے دی رُشنائی جاوے وچ زمیناں
(اے میرے پروردگار تو میرے سینے میں عشق کا ایسا چراغ روشن کر دے جس کی تابانی سے میرا سینہ منور ہو جائے اور اس کی لَو اطرافِ عالم میں دور دور تک پھیل جائے) (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved