تحریر : مسعود اشعر تاریخ اشاعت     03-04-2021

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا آغاز

یوم پاکستان پر نریندر مودی نے وزیر اعظم عمران خاں کو مبارک باد کا خط لکھا۔ عمران خان نے جواب میں نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا‘ اور یوں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کا راستہ کھل گیا۔ خبر ملی کہ پاکستان بھارت سے چینی، دھاگہ اور کپاس منگوانے کے بارے میں سوچ رہا ہے‘ جس کی پاکستان کو ضرورت ہے؛ اگرچہ یہ خبر بھی سننے میں آئی کہ یہ تجویز مسترد کر دی گئی ہے۔ بہرحال یہ خوشی کی بات ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ آخر ہم کب تک اس طرح غصے میں روٹھے رہیں گے؟ جو متنازعہ معاملات ہیں، وہ تو ساٹھ ستر سال سے چلے آ رہے ہیں۔ بار بار ان پر بات چیت بھی چلتی اور ٹوٹتی رہتی ہے۔ اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ ابھی اسی طرح چلتا رہے گا۔ تجارت کی بات تو آج کی جا رہی ہے، ہمیں تو فکر ہے ان لوگوں کی بھی جن کے نہایت ہی قریبی عزیز بھارت میں رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو پہلا اثر ان لوگوں پر پڑتا ہے۔ ریل گاڑی بند ہو جاتی ہے۔ بسوں کی آمدورفت بھی رک جاتی ہے۔ اب چاہے کوئی مرے یا جئے، وہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔ چونکہ مشرقی پنجاب سے پاکستان آنے والے زبردستی وہاں سے نکالے گئے تھے‘ اس لئے انہوں نے اپنے عزیز و اقارب اس وقت خونخوار درندوں کے ہتھیاروں کی نذر کئے، اور اپنے بچے کھچے خاندا نوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح پاکستا ن پہنچنے میں کا میاب ہو گئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد مشرقی پنجاب سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ اسی لئے یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ مسئلہ مشرقی پنجاب سے آکر پاکستان میں رہنے والوں کا اتنا نہیں رہا، جتنا ان لوگوں کا ہے جن کے رشتے دار بھارت میں رہ گئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات ٹوٹے تو ریل گاڑی اور بسیں بھی بند ہو گئیں، یہی ان کے درمیان ملنے جلنے کا ذریعہ تھیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کی زنجیر ٹوٹ جانے سے یہ زنجیر ٹوٹ گئی‘ بلکہ اس بار تو یہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے مابین خط و کتابت بھی بند کر دی گئی۔ دونوں ملکوں کے مابین ٹیلی فون اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ (یہ اور بات ہے کہ واٹس ایپ نے یہ مسئلہ حل کر دیا) لیکن یہ سہولت عام آدمی کو میسر نہیں ہے۔ گویا یہ لوگ اپنے رشتے داروں سے بالکل ہی کٹ گئے۔
ادھر دونوں ملکوں میں دوری پیدا ہو جانے سے دونوں ملکوں کے مابین ادبی رسالوں اور کتابوں کی آمد بھی بند ہو گئی۔ کتابوں اور رسالوں کی آمد ہی بند نہیں ہوئی بلکہ جہاں اس میں رکاوٹ پیدا ہوئی وہاں پاکستاں اور بھارت میں منعقد کئے جانے والے ادبی اور ثقافتی جشنوں میں دونوں جانب کے ادیبوں اور فن کاروں کی شرکت بھی بند ہو گئی۔ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ''ریختہ‘‘ کو تو جانتے ہوں گے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو جدید اور قدیم اردو ادب کو محفوظ کر رہا ہے۔ اس کی لائبریری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہر سال ریختہ کے زیر اہتمام بھارت کے کسی نہ کسی شہر میں اردو کا ادبی جشن منایا جاتا ہے۔ اس جشن میں جہاں بھارت بھر سے ادیب و شاعر شرکت کرتے تھے وہاں پاکستان سے بھی ادیبوں اور شاعروں کو وہاں دعوت دی جاتی تھی۔ ادھر دونوں ملکوں کے تعلقات منقطع کئے گئے ادھر پاکستان ادیبوں کو دعوت ملنا بھی بند ہو گئی۔ ریختہ کے منتظمین نے پچھلے سے پچھلے سال اپنا سالانہ جشن دبئی میں منانے کی کو شش کی لیکن یہ جشن بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ کہا گیا کہ بھارت کا عام آدمی پاکستان کے اتنا خلاف ہو گیا ہے کہ وہ وہاں کوئی بھی ہنگامہ کر سکتا ہے‘ اور یہ بات اتنی غلط بھی نہیں ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال میں دونوں ملکوں کے باشندوں کے درمیان اتنی نفرت پھیلائی گئی ہے کہ یہ نفرت آسانی سے دور نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں تو مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے مکمل قبضے کے بعد یہ نفرت اور بھی بڑھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ نفرت اگر دور نہیں تو کم کیسے کی جا سکتی ہے؟ تجارت بلا شبہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو اس کام میں مدد دے سکتا ہے۔ اب یہ کاروباری آدمی ہو یا کاروباری ملک و قوم کوئی بھی لڑائی جھگڑا برداشت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت کے بارے میں سوچ کر اس جانب پیش قدمی کی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایک قدم بڑھایا گیا ہے۔ امید کرنا چاہئے کہ یہ پہلا قدم بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گا‘ بشرطیکہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ حائل ہو جائے۔ یہ ہم جان بوجھ کر کہہ رہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم واجپائی بڑے طمطراق کے ساتھ بس میں بیٹھ کر پاکستان آئے تھے‘ اور یہ پہلا موقع تھا کہ بھارت کے کسی وزیر اعظم نے مینار پاکستان کے سامنے کھڑے ہو کر پاکستان کے وجود اور اس کی حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اسے بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔
اب رہی دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان موجود ایک دوسرے کے خلاف نفرت، تو اسے بھی ہمیں پیش نظر رکھنا ہو گا‘ اور سوچنا ہو گا کہ اسے سامنے رکھتے ہوئے دونوں ملکوں میں امن و آشتی کی فضا کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ وہ فورم جو پاکستان میں ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم اور آئی اے رحمن نے اور بھارت کے تپن بوس نے بنایا تھا یہ فورم دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ نام تھا اس کا پاک انڈیا فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی۔ ہر دو سال بعد پاکستان اور بھارت میں سے کسی ملک میں اس کی کانفرنس ہوتی تھی۔ اس کانفرنس میں دونوں ملکوں کے پندرہ پندرہ بیس بیس مندوب شریک ہوتے تھے۔ کانفرنس میں کی جانے والی تقریریں اور وہاں منظور کی جانے والی قراردادوں کی تو اپنی اہمیت ہے لیکن اس اجتماع میں دونوں ملکوں کے عوام کو قریب سے جاننے اور ایک دوسرے کی قربت حاصل کرنے کا جو موقع ملتا تھا، سب سے زیادہ اس کی اہمیت تھی۔ یہ ملاقاتیں اصل اجتماع سے باہر ہوتی تھیں۔ حالات بدلے تو اس فورم کے دو سالہ اجتماع بھی ختم ہو گئے۔
آج دونوں ملکوں کے تعلقات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں کیا ان کو سامنے رکھتے ہوئے آج یہ فورم بحال کرنا ضروری نہیں ہو گیا ہے؟ آج ڈاکٹر مبشر حسن ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن پاکستان میں آئی اے رحمن اور بھارت میں تپن بوس تو موجود ہیں‘ اور لکھنے پڑھنے کا کام کر رہے ہیں؛ البتہ یہ فورم بحال کرنے کے لئے انہیں نوجوان خون کی ضرورت ہو گی۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھئے۔ یہ دیکھ کر آپ کو خوشی ہو گی کہ دونوں ملکوں میں یہ نوجوان خون موجود ہے۔ صرف اسے اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہاں ایک اور وضاحت کر دیں کہ بھارت کا ہر شخص پاکستان کا دشمن نہیں ہے۔ وہاں بھی ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ دوستی رکھنا چاہتا ہے۔ آپ صرف بھارتی ٹیلی وژن کا ہی اعتبار نہ کیجئے۔ وہاں کے سنجیدہ اخباروں میں شائع ہونے والے مضامین بھی پڑھتے رہئے۔ وہاں کا بہت بڑا طبقہ امن و آشتی چاہتا ہے‘ اور جانتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے بغیر بر صغیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اس لئے ہمیں بھی موجودہ حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہئے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کے بارے میں سوچا گیا ہے۔ آج اگر ہم نے بھارت سے چینی، دھاگہ وغیرہ منگانے کے بارے میں غور کیا ہے تو کل بھارت ہمارے ملک سے بھی اپنی ضرورت کی چیزیں منگائے گا۔ اسی طرح تعلقات بڑھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved