تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-04-2021

ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے

مہینوں پہلے کی بات ہے‘ میں قادر کے ساتھ اس کے ڈیرے پر بیٹھا تھا۔ قادر نے باتوں ہی باتوں میں مجھ سے پوچھا کہ پی ڈی ایم کا کیا مستقبل ہے؟ میں نے کہا: مجھے توکوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ قادر کہنے لگا: وہ کیسے؟ میں نے کہا: پہلے ایک واقعہ سنو‘ بلکہ واقعہ بھی کہاں‘ چٹکلہ ہی سمجھو۔ ایک دریا کے کنارے لوگ دوسرے کنارے پر جانے کے لیے کشتی میں سوار ہونے کے منتظر بیٹھے تھے۔ جب مناسب تعداد میں مسافر اکٹھے ہوگئے توملاح نے ان کو کشتی میں بیٹھنے کا کہا۔ سب لوگ مع اپنے سامان اور مال مویشی اس کشتی میں بیٹھ گئے سوائے ایک مسافر کے۔ وہ مسافر سب کوکشتی میں سوار ہوتے دیکھتا اور مزے سے چادر بچھا کرکنارے پر لیٹا رہا۔ دوچار مسافروں نے اسے سوار ہونے کا کہا مگر اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کشتی مجھے سلامت پار پہنچتی نظر نہیں آ رہی‘ لہٰذا میں اس پر سوار ہونے کا رسک نہیں لے سکتا۔ سب مسافر بڑے حیران ہوئے۔ ملاح کہنے لگا: او احمق آدمی! موسم صاف ہے‘ ہوا مناسب ہے‘ دریا پرسکون ہے‘ کشتی مضبوط ہے‘ مسافروں کی تعداد ٹھیک ہے اور مجھے اس دریا میں کشتی چلانے کا تیس سالہ تجربہ ہے۔ مجھے تو ایسی کوئی بات نظر نہیں آ رہی کہ کشتی صحیح و سالم پار نہ اترے۔ یہ کہہ کر اس نے باقی سب مسافروں کو کشتی میں سوار ہونے کا کہا اور جاتے جاتے اس مسافر کو کہاکہ یہ آج کا آخری پھیرا ہے اور اسے صبح تک انتظار کرنا پڑے گا۔ مسافر کہنے لگا کہ وہ رات ادھر کنارے پر بسر کرنے کو ترجیح دے گا اورکل صبح والی کشتی پر دریا پارکرے گا۔
ابھی کشتی ساحل سے کچھ ہی دور گئی تھی کہ اس کا توازن بگڑ گیا اور کشتی میں چیخ و پکار شروع ہوگئی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ الٹ گئی۔ سب مسافر تیرتے ہوئے بمشکل کنارے پہنچے اور خشکی پر پہنچتے ہی چادر پر لیٹے ہوئے مسافر کے پائوں پکڑ کر اس سے اپنی اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے دعا کی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اے اللہ کے ولی! ہماری حاجت روائی اور خواہشات کی تکمیل کیلئے اللہ کے ہاں دعا کرکہ اللہ تجھ جیسے بزرگ کی بات رد نہیں کرے گا۔ مسافر نے اپنے پائوں بمشکل چھڑوائے اور کہنے لگا: نہ میں کوئی نیک اور برگزیدہ شخص ہوں اور نہ ہی کوئی پیرفقیر ہوں‘ میں نے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا تھا جو درست ثابت ہوا۔ اس میں کسی ولایت یا الہام کا کوئی دخل نہیں لیکن لوگ نہ مانے۔ وہ اس کے پائوں چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ شخص کہنے لگا: میری بات سنو! میں نے تو محض مسافروں اور ان کے سامان کا جائزہ لے کر یہ بات کی تھی۔ مسافروں میں ایک میراثی تھے‘ ایک مداری کے ساتھ اس کا بندر تھا اور ایک مسافر کے ساتھ اونٹ بھی تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ دوران سفر میراثی نے باز نہیں آنا اور بندر کے ساتھ ہرحال میں چھیڑچھاڑ کرے گا۔ بندر اس چھیڑچھاڑ سے تنگ آکر اچھل کود کرے گا اور بالآخر پناہ کی خاطر اونٹ پر سوار ہوجائے گا۔ اونٹ اس ناگہانی آفت سے گھبراکر اٹھ کھڑا ہوگا۔ اونٹ جس بے ڈھنگے پن اور نامعقول طریقے سے کھڑا ہوتا ہے اس سے کشتی کا توازن لامحالہ خراب ہوگا اور وہ الٹ جائے گی۔ میں نے تو میراثی کی نفسیات‘ بندر کی عادت اور اونٹ کی جبلت کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگایا تھا جو درست نکلا۔ مسافر کہنے لگے کہ کشتی میں سو فیصد ایسا ہی ہوا اور وہ الٹ گئی۔
میں نے کہا مُلّے! پی ڈی ایم کی کشتی بھی اسی طرح ڈوبے گی۔ اس میں بندر بھی ہے‘ میراثی بھی ہے اور اونٹ بھی ہے۔ یہ کشتی مجھے پار پہنچتی نظر نہیں آتی۔ قادر کہنے لگا: اچھا یہ بتائو کہ میراثی کون ہے‘ بندر کون اور اونٹ کون؟ میں نے کہا: تمثیل کو تمثیل ہی سمجھو۔ ایسی باتوں میں عقلمندوں کیلئے صرف اشارے ہوتے ہیں۔ تفصیلات میں جاکر بدمزہ نہیں ہوتے۔ ویسے ایک بات بتائوں! سیانے کہتے ہیں کہ مفاد پرستوں کی آخری لڑائی ان کی باہمی لڑائی ہوتی ہے‘ پی ڈی ایم مفاد پرستوں کا اجتماع ہے اور سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں جنہیں فی الحال سب چھپائے بیٹھے ہیں لیکن جلد یا بدیر یہ ظاہر بھی ہو جائیں گے اور مفادات کا ٹکرائو بھی ہوگا۔ تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ اتحاد کی اس کشتی میں میراثی بھی تھا‘ بندر بھی تھا اور اونٹ بھی۔
گزشتہ روز میں نے قادر کو فون کیا اور اس دن کی ساری گفتگو یاد کرواتے ہوئے پوچھا: کیا میرا اندازہ غلط تھا؟ وہ ہنسا اورکہنے لگا بات تو تمہاری ٹھیک نکلی لیکن میرا سوال اب بھی یہی ہے کہ میراثی کون ہے‘ بندر کون اور اونٹ کون؟ میں نے کہا: میرا جواب بھی وہی ہے کہ یہ تمثیل ہے‘ اس کے اشاروں سے نتائج اخذ کرو اور بے جا تفصیلات اور باریکیوں میں نہ جائو۔
قادر پوچھنے لگا: اگر یہ لڑائی صرف یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ کے لیڈر آف دی اپوزیشن بننے پر ہوئی تو بہت چھوٹی قیمت پر سب کچھ ایکسپوز ہوگیا ہے۔ ایک سابق وزیراعظم کیلئے سینیٹ کی اپوزیشن لیڈری اتنی بڑی چیز تو نہیں ہونی چاہئے تھی کہ سب کچھ ملیامیٹ ہو جاتا۔ میں نے کہا: دونوں پارٹیاں اپنی اپنی جگہ پہلے ''پھونک مارنے‘‘ کے چکر میں تھیں۔ پیپلزپارٹی نے ہوشیاری دکھائی اور پہلے پھونک مار دی۔ بس بات اتنی ہے۔ رہ گئی بات وزارت عظمیٰ کے بعد سینیٹ کی اپوزیشن لیڈری کی تو براہ کرم! جب کرپشن کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہوں تواپوزیشن والوں کیلئے ایسے عہدے حفاظتی تدابیر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ تم یوں سمجھو کہ یہ مستقبل میں کسی متوقع کارروائی کے وقت بچائو کا مورچہ ثابت ہوگا اورشور مچایا جائے گاکہ دیکھیں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ لیڈر آف دی اپوزیشن سینیٹ کے عہدے کے ساتھ حفاظتی تصور وابستہ ہے اورمعمولی سا پروٹوکول بھی جڑا ہوا ہے۔ ہم چھوٹے شہروں کے پروردہ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی جو مفت مل رہی ہوں نہیں چھوڑتے۔ مثلاً یہی کہ سینیٹ کے عام ممبر کی ماہانہ تنخواہ 76802 روپے ہے جبکہ لیڈر آف دی اپوزیشن کی تنخواہ ٹیکس کاٹ کر مبلغ 217365 روپے بنتی ہے۔ ظاہرہے یہ کوئی تھوڑا فرق نہیں؟ قادر ہنس کر کہنے لگا: کہاں وزارت عظمیٰ کا سٹیٹس اورکہاں سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا عہدہ۔
میں نے کہا: ایک قصہ سنو! ایک دن ملتان میں خواجہ جمال بتانے لگے کہ وہ میاں چنوں کے ایک ایم این اے سے ملے تو وہ بتانے لگاکہ وہ صدر پرویزمشرف (یہ پرویزمشرف کی صدارت کے دور کا واقعہ ہے) کوملنے گیا تو ایوان صدر میں داخلے سے قبل پروٹوکول کے حوالے سے اسے ایک کالے اور ایک بھورے کتے نے سونگھا۔ یہ بات سن کر خواجہ جمال کہنے لگے: پیرسائیں! آپ کو اللہ نے اتنی عزت دی ہوئی ہے‘ آپ اس طرح صدر سے ملاقات کی غرض سے کتوں سے خود کو کیوں سنگھواتے رہے؟ وہ ایم این اے کہنے لگے: خواجہ صاحب! غصہ تومجھے آیا مگر میں نے دیکھاکہ اب دونوں کتے ایوان صدر کے دروازے پر ایک سابق صدر کو سونگھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کرمیرا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
میں نے کہا مُلّے! ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بک جانے والے لوگ ہیں۔ گورنری اوروزارت اعلیٰ کے بعد ہمیں اعزازی گیم وارڈن بنا دیا جائے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ صدر مملکت کے بعد ایم این اے بن جائیں تو بھی خوش ہیں خواہ جس گھر کے خود مکین رہے ہوں وہاں ہمیں کتے سونگھتے پھریں۔ وزارت عظمیٰ کے بعد سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن بننا تو مقابلتاً پھر معرکے کی چیز ہے؛ تاہم اب یہ بات سمجھ جاؤکہ یوسف رضا گیلانی کا چیئرمینی کا کلیم ختم ہو گیا ہے اور سات غلط ووٹوں والی کہانی اور درخواست مسترد ہونے کے خلاف اپیل اب ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔
قادرپوچھنے لگا کہ یہ مریم اور بلاول کے ڈھکے چھپے لفظوں میں ایک دوسرے کو طعنے مارنے کا سلسلہ کہاں جاکر رْکے گا؟ میں نے کہا مُلّے! صبر کر‘ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved