تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     05-04-2021

پاکستان کی جیوپولیٹیکل اہمیت

چند روز پہلے اسلام آباد سٹرٹیجک ڈائیلاگ میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹر نے چند اہم باتیں کیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے، مڈل ایسٹ میں امریکی دلچسپی کم ہو رہی ہے لہٰذا جیو پولیٹیکل زاویۂ نگاہ سے واشنگٹن کی لیڈرشپ میں پاکستان کی اہمیت کم ہونا ناگزیر ہے۔
دوسری اہم بات یہ تھی کہ امریکہ کا فوکس اب بحرالکاہل کی جانب شفٹ ہو رہا ہے، انڈیا اس چار رکنی گروپ کا حصہ ہے جو بحرالکاہل میں تعاون کے لئے امریکہ کا ساتھی ہے، لہٰذا امریکہ کے لئے اہم سٹریٹیجک خطہ اب واہگہ سے شروع ہو گا اور ویلنگٹن (Wellington) پر ختم ہو گا، یعنی انڈیا سے لے کر نیوزی لینڈ تک کا علاقہ اب زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
کیمرون منٹر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ مڈل ایسٹ کی لا متناہی جنگوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ عراق اور شام کے حالات میں امریکی دلچسپی واضح طور پر کم ہوئی ہے۔ امریکن اکانومی کا مڈل ایسٹ کے تیل پر انحصار کم سے کم تر ہو رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ انرجی کے نئے ذرائع کی جانب گامزن ہیں۔ امریکہ کی نظر میں مڈل ایسٹ کی اہمیت اب صرف ایران کے ایٹمی پروگرام اور اسرائیل کے حوالے سے ہو گی۔
سابق امریکی سفیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشنگٹن میں اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کو نیا پالیسی جنم لینا ہو گا یعنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ ان کی اس بات کا مقصد یہ ہے کہ جیو پولیٹیکل اعتبار سے پاکستان کی حیثیت کم ہو گی تو جیو اکنامک زاویے سے بڑھ بھی سکتی ہے لہٰذا اب پاکستان جنگوں میں پڑنے کے بجائے علاقائی اقتصادی تعاون کو اہمیت دے۔ اس کی ایک واضح تاویل یہ بھی ہے کہ چین کو آپ سی پیک کے ذریعے بحیرہ عرب تک راہ داری دے رہے ہیں تو انڈیا کو بھی سنٹرل ایشیا تک تجارتی راستہ دیں۔
آئیے سابق سفیر کے بیان کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ کیا امریکہ مستقبل قریب میں افغانستان سے مکمل طور پر نکل پائے گا؟ صدر جو بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکی فوج کو افغانستان سے نکالنے کے لئے یکم مئی کی ڈیڈ لائن ناقابل عمل ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اضافہ کیا کہ امریکہ افغانستان سے جلد نکلنا چاہتا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ امریکہ تو افغان کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے لیکن کیا یہ کمبل امریکہ کو آئندہ ایک دو سال میں چھوڑ دے گا، اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ابھی تو کابل میں عبوری حکومت کے معاملات بھی طے نہیں ہوئے، افغانستان میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے اور اگر طالبان سے کئے گئے معاہدے پر عمل درآمد منسوخ کر کے امریکہ اپنی افواج یکم مئی تک افغانستان سے نہیں نکالتا تو سوال یہ ہے کہ طالبان کا رد عمل کیا ہو گا؟ میرے خیال میں شدت پسندانہ حملوں میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے ایسا ہی اعلان کر رکھا ہے۔ امریکہ اور کابل کی موجودہ لیڈرشپ کا خیال ہے کہ امریکہ اور نیٹو کا حالیہ رول کسی اور ملک کے حوالے کر دیا جائے۔ ان کے خیال میں وہ ممکنہ ملک انڈیا ہو سکتا ہے لیکن طالبان اور پاکستان کے لئے یہ فیصلہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس سے افغانستان کے حالات مزید بگڑنے کا اندیشہ ہو گا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ماسکو میں حال ہی میں ہونے والی افغانستان کے بارے میں کانفرنس میں انڈیا کو نہیں بلایا گیا تھا اور میرے خیال میں انڈین لیڈر شپ امریکہ کے کہنے پر اپنی افواج افغانستان نہیں بھیجے گی اور اگر اگلے چند ماہ میں امریکہ اپنے عساکر کا مکمل انخلا کرتا ہے تو افغانستان میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔
ہمارا خطہ جس میں انڈیا، پاکستان، افغانستان، ایران اور مڈل ایسٹ شامل ہیں، یہاں کسی وقت بھی حیران کن اور غیر متوقع واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ یہاں پاک بھارت جنگیں ہوئیں، افغانستان چالیس سال سے غیر مستحکم ہے۔ ایران میں انقلاب آیا، ایران عراق جنگ ہوئی، نائن الیون ہوا تو افغانستان میں موجود القاعدہ مورد الزام ٹھہری اس پھر اس کے خلاف طویل جنگ شروع کر دی گئی جو تاحال ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہے۔ پھر یمن میں جنگ ابھی جاری ہے جبکہ ایران اور خلیجی ممالک میں تنائو کی کیفیت بھی قائم اور برقرار ہے۔ کل کو پھر القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں یہاں فعال ہو سکتی ہیں۔ ظاہر ہے امریکہ ایسے حالات سے صرف نظر نہیں کر سکے گا۔
سابق سفیر کا یہ کہنا بھی قابلِ غور اور قابلِ بحث ہے کہ پاکستان نے اپنی علاقائی پالیسی پر مکمل نظر ثانی نہ کی تو واشنگٹن میں اس کی اہمیت بالکل ختم ہو جائے گی‘ گو کہ ان کی بات سو فیصد غلط بھی نہیں۔ واشنگٹن میں پاکستان کی اہمیت ماضی قریب میں تین حوالوں سے رہی ہے۔ ان میں انتہا پسندی شامل ہے جو دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پانے میں امریکہ کا ساتھ بھی دیا ہے اور خود دہشت گردی کا شکار بھی ہوا ہے، دوسرا حوالہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے آپ کو یاد ہو گا کہ 1998ء میں امریکہ نے سر توڑ کوشش کی تھی کہ پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرے۔ پاکستان کا آگے بڑھتا ہوا میزائل پروگرام اور چھوٹے ایٹمی ہتھیار اب بھی امریکہ کے لئے پریشانی کا سبب ہیں۔
امریکہ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کی تیسری وجہ پاک چین تعلقات ہیں۔ اگر امریکہ پاکستان کو مکمل اگنور کرتا ہے یا پاکستان مخالف رویے اپناتا ہے تو پاکستان چین کے مزید قریب ہو جائے گا۔ ایسی صورت حال امریکہ کو سوٹ نہیں کرے گی۔ مثلاً اگر پاکستان سو فیصد چین کی جانب چلا جاتا ہے اور چین پاکستان سے گوادر میں نیول بیس بنانے کا تقاضا کرتا ہے تو پاکستان انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا‘ مگر اس طرح کی صورت حال امریکہ کے مفاد میں نہیں ہو گی، لہٰذا پاکستان کو مکمل طور پر اگنور کرنا امریکہ کے اپنے مفاد میں نہیں۔
پاکستان 22 کروڑ آبادی والا خطے کا اہم ملک ہے، جیسا کہ تفصیل سے اوپر لکھا گیا ہے، جس خطے میں ہم واقع ہیں، یہاں متعدد ایسے اہم واقعات ہوئے ہیں جن کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کئے گئے اور دیر تک جاری و ساری رہے۔ مثلاً القاعدہ کا افغانستان میں وجود، نائن الیون کے متعدد کردار جن کا تعلق خلیجی ممالک سے تھا اور خود انقلابِ ایران‘ اس کے علاوہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بھی ہے جہاں چین بڑی سرمایہ کاری کر کے اقتصادی فوائد حاصل کرے گا۔ چین اور ایران کے تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہو رہی ہے، لہٰذا اس خطے میں پاکستان کا مستقبل کا رول استحکام اور استقرار لانے والا ہونا چاہیے۔ پاکستان کی افغانستان اور خلیج کے حوالے سے واضح پالیسی رہی ہے کہ وہاں درجہ حرارت کم ہو‘ امن و امان آئے اور یہ خطے ترقی کریں۔
صدر بائیڈن پاکستان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں بہتر جانتے ہیں، بحرالکاہل میں تعاون کے ناتے سے امریکہ اور انڈیا کے تعلقات ضرور مزید دوستانہ ہوں گے لیکن امریکہ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کر سکتا کہ یہ اس کے اپنے مفاد میں نہیں، اور اگر امریکہ کی نظر میں پاکستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت کم ہو گی تو چین، ایران اور خلیجی ممالک کے لئے پاکستان مزید اہم ہو جائے گا۔ ایران اور خلیجی ممالک کا تیل پاکستان کے بری راستے سے چین جائے گا جو پوری دنیا میں تیل کا سب سے بڑا صارف ہے۔ افغانستان میں امن آ جائے تو پاکستان سے سمرقند، بخارا، تاشقند کابل‘ الماتے، اشک آباد، دوشنبے اور روس تک تجارتی سامان بائی روڈ آئے جائے گا، اس طرح پاکستان کی جیو اکنامک اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved