تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     05-04-2021

سیاسی میوزیکل چیئر

ملکی سیاست ڈرامائی تبدیلیوں کے ساتھ دن بدن دلچسپ اور مضحکہ خیز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سیر کو سوا سیر اور نہلے پہ دہلا تو سنتے اور دیکھتے چلے آئے تھے بلکہ ایسے مناظر بھی ہیں کہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے: موت کو بھی موت ہے۔ انصاف سرکار کو ٹف ٹائم دینے کیلئے اکٹھے ہونے والے سماج سیوک اپنے اپنے آئٹمز کے ساتھ شائقین کو متوجہ کرنے کیلئے قلابازیاں کھا رہے ہیں اور دیگر کرتب پیش کر رہے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کو بھی اپوزیشن کا سامنا ہے۔ یہ منظرنامہ دیکھ کر مولانا رومی کا وہ قول بے اختیار یاد آرہا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ کشتی میں سوار سبھی کے درمیان سوراخ کرنے کا مقابلہ جاری ہے اور سبھی ایک دوسرے سے شاکی اور نالاں ہیں کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے بڑا تھا، اور اسی لیے کشتی ڈوب گئی۔ ویسے بھی کشتی اندر کے پانی سے ڈوبتی ہے باہر کے پانی سے نہیں۔ پی ڈی ایم جس طرح انصاف سرکار کے لیے درد سر بن کر دھمال ڈال رہی تھی‘ اگر وہ صورتحال کچھ عرصہ اور قائم رہتی تو شاید انصاف سرکار کو یہ سکون میسر نہ آتا‘ جسے وہ آج کل انجوائے کر رہی ہے۔ مفاہمت کے بادشاہ نے اپوزیشن کی کشتی میں وہ سوراخ کر ڈالا کہ نون لیگ سمیت دیگر اتحادیوں کو سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ وہ کشتی میں سوار ہیں یا گہرے پانیوں میں غوطے کھا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین لفظی جنگ تیز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسانے کا مقابلہ بھی زوروں پر ہے۔ حکومتِ وقت کو مشکل ترین حالات سے دوچار کر کے حصول اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک چلے جانا ہماری ملکی و سیاسی تاریخ کا وتیرہ بن چکا ہے۔
ضیاالحق کے فضائی حادثے کے بعد ہونے والے انتخابات کے بعد 1988میں وفاق میں بے نظیر بھٹو حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں تو تخت پنجاب نواز شریف کے ہاتھ چڑھ گیا۔ نواز شریف کو بے نظیر کی حکومت کسی طور قابل قبول نہ تھی اور روز اول سے ہی وفاق سے رسہ کشی اور محاذ آرائی کا جو سلسلہ شروع ہوا اسے غلام اسحاق خان نے بطور صدر اسمبلیاں تحلیل کرکے منطقی انجام تک پہنچایا۔ اسی طرح 1990 میں نواز شریف پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تو وہ غلام اسحاق خان سے بھی محاذ آرائی کر بیٹھے جبکہ بے نظیر بھٹو نے بھی حکومت وقت کو مشکل حالات سے دوچار کرنے کی نواز شریف کی روایت کو دوام بخشا اور نتیجتاً صدر غلام اسحاق خان نے ایک بار اسمبلیاں تحلیل کر ڈالیں۔ نواز شریف ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں بحال ہو کر واپس آئے تو جو محاذ آرائی پہلے ہی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکی تھی‘اس کے تحت دونوں کو گھر بھجوا دیا۔ تیسری بار انتخابات ہوئے تو بے نظیر بھٹو پھر وزیر اعظم بن گئیں لیکن نواز شریف نے ان کے برسر اقتدار آنے کے ایک سال بعد ہی تحریک نجات شروع کر دی۔
اسی تحریک نجات کے تسلسل میں ایک ٹرین مارچ کے دوران ملتان ریلوے سٹیشن پر جوش خطابت میں ہوش کھوتے ہوئے یہ بھی کہہ ڈالا کہ موجودہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے‘ پاکستان کے پاس ایٹم بم موجود ہے۔ روس افغان جنگ بندی کے بعد عالمی منظرنامے پر پاکستان اپنی اہمیت اور وہ افادیت پہلے ہی کھو چکا تھا‘ ایسے حالات میں نواز شریف کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی وجہ سے پریسلر ترمیم کے نتیجہ میں سخت دفاعی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جبکہ خطیر رقوم کی ادائیگی کے باوجود پاکستان کو F-16 طیاروں کی فراہمی کا معاملہ بھی طویل عرصہ کیلئے کھٹائی میں پڑ گیا۔ محلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی حکومت انہی کے معتمدِ خاص فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرف ہو گئی۔ اس طرح اقتدار میں آنے جانے کا یہ دس سالہ سلسلہ میوزیکل چیئر کا کھیل دکھائی دیتا تھا۔
بے نظیر کی برطرفی کے بعد نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ایک بار پھر برسر اقتدار آئے تو دو تہائی اکثریت کے زعم میں شکم پروری سے لے کر بندہ نوازی اور بوئے سلطانی تک کے سبھی شوق پورے کر ڈالے بلکہ اپنی خواہشات کو پالیسیوں اور ضابطوں کی شکل دینے کے علاوہ من مرضی کے فیصلوں کے بھی سبھی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ بلا کے اعتماد کا لیول یہ تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوں یا صدرِ پاکستان‘ معتبر ادارے ہوں یا قانون و ضابطے‘ سبھی سے مزاحمت اور محاذ آرائی کی سبھی حدیں عبور کرتے چلے گئے۔ سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھ دوڑنے سے لے کر نجانے کیا کچھ بلڈوز کرتے رہے۔ مئی 1998 میں انہوں نے دبائو اور مجبوری میں ایٹمی دھماکے تو کر ڈالے لیکن ان کا کریڈٹ لیتے نہ تھکتے۔ انہی دھماکوں کے بعد انہوں نے ملک بھر کے فارن کرنسی اکائونٹس نہ صرف منجمد کر ڈالے بلکہ 'قرض اتارو ملک سنوارو‘ مہم کے نام پر عوام سے خطیر رقوم کا چندہ بھی وصول کیا۔ 'قرض اتارو ملک سنوارو‘ کے نام پر اکٹھا ہونے والا پیسہ کہاں خرچ ہوا‘ یہ معمہ آج بھی حل طلب ہے؛ بہرحال نہ قرض اتارا نہ ملک سنوارا۔
بوئے سلطانی سے مجبور نواز شریف 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی ناکام کوشش کے نتیجے میں نہ صرف معزول ہوئے بلکہ قیدوبند کی صعوبتوں کے بعد مع خاندان جلا وطنی پر آمادہ ہوئے اور سعودی عرب میں سکونت اختیار کی۔ پرویز مشرف نے 1999 سے 2007 تک اپنا بھرپور سکہ چلایا‘ لیکن 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد مشرف سمیت حکمران جماعت ق لیگ کے پیر تو کیا خیمے ہی اکھڑ گئے۔ بھرپور منصوبہ بندی اور پوری تیاری کے باوجود جنرل پرویز مشرف 2008 کے انتخابات میں مطلوبہ نتائج اور اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوئے اور قصرِ اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ 2008 کے الیکشن میں نواز شریف اور زرداری بڑے بھائی چھوٹے بھائی بن کر کوئے اقتدار میں داخل ہوئے اور وفاق میں پیپلز پارٹی جبکہ پنجاب میں نون لیگ بہ آسانی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس دوران عوام کو گمراہ کرنے کیلئے نمائشی بیان بازی اور نورا کشتی کے کئی منظر دکھائے گئے‘ لیکن پیپلز پارٹی نے اقتدار کے پانچ سال پورے کیے اور 2013 کے الیکشن کے بعد اگلی باری نواز شریف کو ملی۔ نواز شریف کو برسر اقتدار آئے سوا سال ہی گزرا تھا کہ تحریک انصاف نے حکومت وقت کو مشکل ترین حالات سے دوچار کرنے کی روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کر اگست 2014 میں وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دے کر کاروبارِ زندگی معطل کرنے کے علاوہ شہر اقتدار کو انتظامی طور پر مفلوج بھی کرکے رکھ دیا۔ 126 دن کے طویل ترین دھرنے کے دوران پورا ملک افواہوں کی زد میں رہا کہ نون لیگ کی حکومت صبح گئی کہ شام گئی۔
دور کی کوڑی لانے والوں سے لے کر سیاسی پنڈتوں تک‘ سبھی نون لیگ کی حکومت کے خاتمے سے لے کر نئے منظرنامے اور نگران حکومت کے ناموں تک کو بھی زوروشور سے جاری کیا کرتے تھے؛ تاہم سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور رونما ہونے کے بعد تحریک انصاف کو مجبوراً دھرنا ختم کرنا پڑا اور نواز شریف حکومت کے سانس اور اوسان دونوں بحال ہوئے۔ نواز شریف اپنے اقتدار کے آخری ایام میں نااہل ہوکر نہ صرف کوئے اقتدار سے نکالے گئے بلکہ اپنے ہی دور حکومت میں جا بجا پوچھتے پھرے کہ 'مجھے کیوں نکالا؟‘ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا تو اپوزیشن کی صفوں میں نہ صرف ماتم کا سماں تھا بلکہ احتساب اور پکڑ دھکڑ کے خوف سے سبھی دم سادھے نظر آتے تھے۔ اپوزیشن آمدن سے زائد اثاثوں کی پکڑ میں تھی تو انصاف سرکار عقل اور وژن سے زائد گفتگو کی پکڑ میں آتی چلی گئی اور جوں جوں حکمران جماعت کی طرز حکمرانی کے جوہر کھلتے چلے گئے توں توں اپوزیشن میں جان پڑتی چلی گئی اور اب یہ عالم ہے کہ مفاہمت کے بادشاہ کو نکال کر نواز شریف ہوں یا مریم نواز‘ دونوں تحریک انصاف سے اسی زبان میں بات کرتے نظر آتے ہیں جو زبان تحریک انصاف والے دھرنوں میں استعمال کرتے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved