طاقت کاسر چشمہ صرف عوام ہیں: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہیں‘‘ جن کے نام پر اقتدارمیں آ کر وہ وہ مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ خود مالا مال ہونے کے لیے عوام کے خزانے کو ہلکا پھلکا کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بوجھ تلے دبنے سے بچ جائیں، اگرچہ بھٹو صاحب کا نعرہ یہ تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں لیکن ہم نے اس کے ساتھ صرف کا اضافہ اس لئے کیا ہے کہ یہ صرف عوام کی طبیعت درست کرے اور اُنہیں اپنی اوقات میں رکھے کیونکہ انہیں اپنی اوقات اکثر بھول جایا کرتی ہے جو انہیں مسلسل یاد دلائی جانی چاہئے۔ آپ اگلے روز ذوالفقار علی بھٹو کی 42ویں برسی پر اپنا پیغام نشر کر رہے تھے۔
کرپٹ شاہی خاندان محکمۂ ریونیو
کے مال پر عیاشی کرتا رہا: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''کرپٹ شاہی خاندان محکمہ ریونیو کے مال پر عیاشی کرتا رہا‘‘ جو دوسرے محکموں کو سرا سر نظر انداز اور اُن کی حق تلفی کرنے کے مترادف ہے جبکہ انصاف اور مساوات کا اصول تو یہ ہے کہ ہر محکمے پراپنی توجہ مبذول کی جائے تاکہ کوئی محکمہ احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوجائے۔ تاہم یہ ان کی اپنی ہمت ہے کہ ایک ہی محکمے سے اتنا استفادہ کر لیا کہ وارے نیارے ہو گئے تاہم اگر مزید موقع ملتا تو وہ اسی طرح دوسرے محکموں کو بھی سرفراز کرتے اور اب جس کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پیغام نشر کر رہی تھیں۔
ملک میں آلودگی کے خاتمہ کیلئے حکومت
کی تبدیلی ضروری ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ملک میں آلودگی کے خاتمہ کیلئے حکومت کی تبدیلی ضروری ہے‘‘ کیونکہ حکومت کو تبدیل کرنے کی دیگر وجوہات سرے سے ہی کام نہیں آئیں جن پر اب تک سر کھپا ئی کرتے رہے ہیں اور اگر یہ بھی کام نہ آئی توکوئی اور بچی کھچی وجہ کام میں لائی جائے گی جن میں سے ایک کورونا وائرس بھی ہو سکتا ہے جس کے پھیلنے کے ذمہ داری حکومت کے سر ڈالی جا سکتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے خاتمہ سے اس کا قلع قمع ہو گاکیونکہ وہ مسلسل اجلاس وغیرہ منعقد کرنے سے باز نہیں آ رہی جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں اور جس کی زد میں قوم کے ساتھ ساتھ ہم بھی آ سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
پیپلز پارٹی کی بے اصولی برداشت
نہیں، ساتھ چلنا مشکل ہے: رانا ثناء
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ خاں نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کی بے اصولی برداشت نہیں، ساتھ چلنا مشکل ہے‘‘ بلکہ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہمارا اکیلے چلنا بھی بے حد مشکل ہو گیا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی طرح ہماری سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی ہے کہ اس سارے سفر کا کوئی فائدہ نہیں ہے جبکہ ہمارے قائد بھی معاملے کو دیر ہی سے سمجھنے کے عادی ہیں، اگرچہ یہ معاملہ کافی دیر ہو جانے کے بعد بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا، تاہم اُنہیں اپنی سمجھ پراب بھی پورا پورا بھروسا ہے اوروہ ضرور سمجھ جائیں گے بیشک اس وقت تک سارا کام خراب ہو چکا ہو اورجوکافی سارا ہو بھی چکا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ادبِ لطیف (صدیقہ بیگم نمبر)
ادبِ لطیف کا صدیقہ بیگم نمبر حسین مجروح کی ادارت میں شائع ہو گیا ہے اس جریدے کو ایک طویل عرصے تک مرحومہ نے اپنے خونِ جگر سے سینچا اور یہ خراج اور اعترافِ خدمت بے حد ضروری بھی تھا۔ مرحومہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے والوں میں مسعود اشعر، عطیہ سیّد، کشور ناہید، غلام حسین ساجد، بشریٰ رحمن، طارق محمود‘ نیر علی دادا، ڈاکٹر غلام شبیر رانا، امجد علی شاکر، بیدار سرمدی، حمیدہ شاہین زیادہ نمایاں ہیں جبکہ منظوم خراجِ عقیدت ایوب خاور اور نجمہ منصور نے پیش کیا ہے اور انگریزی سیکشن میں لکھنے والوں میں جاوید جبّار، تیمور آغا اور آفتاب احمد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس جریدے میں صدیقہ بیگم کی بچپن سے لے کر وقتِ آخر تک کی اور جن جن گھروں میں وہ قیام پذیر رہیں، کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں ان کے اہل ِخاندان کے علاوہ سرورق اور اندرون سرورق مرحومہ کی تصاویر اور محمد مختارعلی کے تیار کردہ دو عدد طغرے شامل ہیں۔
اور، اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رختِ سفر لگتا ہے
ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دُھوپ میں دُور سے ہر شخص شجر لگتا ہے
جس پر چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤنگا
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے
وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
(عباس تابش)مرسلہ کاشف منظور ڈپٹی سیکرٹری زراعت
ہم اگر تیرے خدوخال بنانے لگ جائیں
صرف آنکھوں پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں
میں اگر پھول کی پتّی پہ ترا نام لکھوں
تتلیاں اُڑ کے ترے نام پہ آنے لگ جائیں
تُو اگر ایک جھلک اپنی دکھا دے اُن کو
سب مصّور تری تصویر بنانے لگ جائیں
ایک لمحے کو اگر تیرا تبسم دیکھیں
ہوش والوں کے سبھی ہوش ٹھکانے لگ جائیں
یہ عبادت ہے عبادت ہے عبادت ہے کہ ہم
دل کی آواز میں آواز ملانے لگ جائیں
آنکھ سے خون بہانے کی مشقت کرکے
کیوں غمِ ہجر کی توقیر بڑھانے لگ جائیں
(مبشر سعید)
آج کا مقطع
وہ کسی کے پاس رکنے میں کہاں ہے اے ظفر
جو مزہ نزدیک سے ہو کر گزر جانے میں ہے