کہتے ہیں لاہور کا اپنا ایک خاص مزاج ہے جسے لاہوریاپن کہتے ہیں۔ یہی اس کی پہچان ہے اور اسی وجہ سے ''لاہور لاہور ہے‘‘ کی خوبصورت ترکیب وضع ہوئی ہے جو اس کے مزاج کی صحیح تفہیم کرتی ہے ۔ ایک مفکر ادیب سے کلچر اور تہذیب کی تفہیم کے لیے کئی بار گفتگو ہوئی۔ وہ اس سلسلے میں لاہور کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ایک اصطلاح ''لاہوریت‘‘ استعمال کرتے تھے۔ وہ اس شہر کے باسیوں کی زندہ دلی اور خوش دلی کا واقعہ سناتے ہوئے خود بھی محظوظ ہوتے اور لاہوریت کے دیوانے ہو ہو جاتے ۔وہ کہتے: تاریخ میں کئی دفعہ لاہور کا محاصرہ ہوا‘ شہری اندر بند ہو جاتے‘ کئی کئی دن قتلِ عام ہوتا اور خونریزی ہوتی۔ایسے ہی کسی موقع پر ایک شہری اپنے دو ننھے منے بچوں کو نئے کپڑے پہنا کر ہنستا کھیلتا جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا: اس خونریزی کے عالم میں کدھر؟ وہ کہنے لگا :بس اِدھر ہی‘ ذرا یوں ہی بچوں کو قتلام (قتل عام) دکھانے ۔بس وہی لاہوریت اس کورونا ویکسین لگوانے کے وقت خوب خوب ظاہر ہوئی۔پہلے تو ویکسین کے خلاف افواہیں پھیلیں‘ پھر جب ایکسپو کی شہرت پھیلی تو وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ پہلے چار دن تین ہزار سے بھی کم لوگوں نے ویکسین لگوائی اور جی میں کیا آئی‘ اگلے دن ہزاروں لگوانے کے لیے شام تک دھوپ میں کھڑے رہے۔یہی لاہوریت کا مظاہرہ اس وبا کے دوران ہوا۔ کوئی ڈر ‘کوئی پروا نہیں ‘قتلام ہوتا رہا اور مرض کی حفاظتی تدابیر کو پر ِکاہ برابر بھی اہمیت نہ دی۔
ویسے کورونا کا ڈر تو ہماری قوم کے نزدیک سے بھی نہیں گزرا۔ طرح طرح کی باتوں اور افواہوں میں فقط ڈیڑھ سال میں قریب پندرہ ہزار لوگ اس بیماری کے ہاتھوں موت کا شکار ہو گئے ۔ چوہوں کو مارنے کے لیے چوہے دان رکھا جاتا ہے اور چوہے ہنسی خوشی اس کی جانب دوڑتے آتے ہیں اور پھنستے چلے جاتے ہیں۔وہی حال اپنا بھی ہے ۔ حکومت اور حکومتی ادارے کہہ کہہ کر اور تنبیہ کر کر کے تھک گے مگر بحیثیت مجموعی ہمارا رویہ چوہے دان کی جانب خوشی خوشی دوڑتے چلے جانے والا ہے ۔
ہم نے بحیثیت مجموعی احتیاط یا ایس او پیز کی کم ہی پروا کی ہے ۔اسی رویے کی وجہ سے اور عدم احتیاط کی بنا پر یہ وبا پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹیر ینز‘ حکومتی عہدیدار اور ادیب کوئی اس سے محفوظ نہیں۔وزیر اعظم‘ خاتونِ اول اور صدرِ مملکت تک اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ شہروں‘ دیہاتوں ‘بازاروں اور بھیڑ والے مقامات پر کہیں بھی احتیاط نہیں کی جاتی۔ دنیا کے دو سو انیس ممالک میں ستائیس لاکھ سے زائد افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں۔اموات کا یہ سلسلہ تیس جنوری 2020ء کو شروع ہوا تھا۔ پہلے دن پچیس اموات ہوئی تھیں۔وہ دن اور آج کا دن یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ اس کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ اپنے وطنِ عزیز میں پچھلے سال بیس مارچ کو کورونا کی وجہ سے پہلی موت ہوئی۔ایک سال ہو گیا ہے مگر عوام بھی اپنی دُھن کے پکے ہیں اور ان کی پھیلائی ہوئی بے بنیاد افواہیں بھی اپنی اپنی جگہ پر قائم و دائم ہیں۔ لہر ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہی۔ اب ایک ڈیڑھ سال کے بعد اس کی ویکسی نیشن کا عمل بھی شروع ہو گیا اور الحمد للہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ پندرہ مارچ کو ؎
علی الصباح چُو مردم بہ کاروبار روند
بلاکشانِ محبت بہ کوئے یار روند
یہ واک ان ایکسپو ویکسی نیش سینٹر ہے ۔ ستر سال کی شرط کی افواہیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ ساٹھ سال سے اوپر کا ہر شخص کسی بھی سینٹر سے یہ ویکسین لگوا سکتا ہے ۔ شرط صرف شناختی کارڈ کی ہے ‘وہ پاس ہونا چاہیے اس کے علاوہ ساری بیکار کی باتیں ہیں۔یہ کہنا کہ کسی کو میسج کا جواب نہیں آیا یا سسٹم نے شناختی کارڈ میں کسی غلطی کی نشاندہی کی۔ بھول جائیے 1166کی سروس کیسی ہے ؟ یہ سب ضمنی سوال ہیں‘ جائیے ‘دیکھئے اور ویکسین لگوائیے ۔ جس طرح یاسمین راشد صاحبہ کی سربراہی میں محکمہ صحت کی فیلڈ فورس اور لیڈی ہیلتھ ورکرز خدمات سرانجام دے رہی ہیں ان کی حواصلہ افزائی بھی کیجیے ۔سارے انتظامات کسی مغربی ملک جیسے ہیں۔ کوویڈ میں حکومتی کارکردگی کو پہلے بھی سراہا گیا ہے اور عالمی طور ان کی حکمت عملی کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ایک پروفیشنل کو کسی محکمہ کا سربراہ بنانا کتنا سودمند ہوتا ہے اس ویکسی نیشن کے عمل اور انتظامات نے ان پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے ۔ڈاکٹریاسمین راشد اور ان کی ٹیم کی مساعی کی قدر اور تعریف لازم ہے ۔
''لاہوریا‘‘ہونا خدا کی نعمت ہے ۔ کوشش سے کوئی لاہوریا نہیں بن سکتا۔لاہوریوں کی ایک عادت ہے کہ دیر تک رات کو جاگتے رہنا اور پھر عین دوپہر کو جاگنا۔اب یہ عادت اس سے بھی آگے نکل گئی ہے ۔اب فجر کے وقت سونے اور عصر کے وقت اُٹھنے کی عجیب رسم شروع ہو گئی ہے ۔یہ ہائی سوسائٹی کی اولین ترجیح بن چکی ہے ۔ ساری رات ہلا گلا‘ ہنگامہ‘ شور شرابا‘ کھانا پینا اور پھر دن چڑھے دیر تک سوئے رہنا۔لہٰذا ذرا دیر کے لیے لاہوریا نہ بنئے صبح صبح اُٹھیے اور ویکسی نیشن کروائیے ۔
ہم کافی دنوں سے انتظار میں تھے اور حکومت کے مہیا کردہ نمبر پر مسج کر کے رجسٹریشن کروا چکے تھے ۔اس آٹو سسٹم کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہے کہ کوئی جگہ تو ہے جہاں ایک سلیقے اور سسٹم سے کام ہو رہا ہے ۔پہلا میسج ہم نے انیس فروری کو کیا تھا جس کے جواب میں بتایا گیا کہ رجسٹریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے جونہی ویکسی نیشن شروع ہوئی اطلاع دے دی جائے گی۔پندرہ مارچ کو ہم اپنا شاختی کارڈ لے کر ایکسپو سینٹر پہنچ گئے ۔وہاں لائن میں ہم نے اعلیٰ افسران بھی دیکھے‘ سونا چاندی والے حامد رانا بھی ویکسین لگوا کر نکل رہے تھے ۔
رش تو بہت زیادہ تھا مگر انتظار زیادہ نہیں کرنا پڑا۔ہمارا سینٹر تو شاہدرہ ہسپتال تھا مگر ایکسپو سینٹر والے سٹاف نے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی۔ایک پروفارما جس پر نام وغیرہ لکھنا تھا وہ انہوں نے مکمل کیا اور ایک آدھ منٹ میں ویکسی نیشن کا عمل مکمل ہو گیا۔ہمارے دوست اور شاعر سعادت سعید بھی اسی جگہ مل گئے ۔ وہ بھی اس پراسس سے فارغ ہو چکے تھے ۔ایسا سلیقہ اور ایسا انتظام ہم نے کہیں اور نہیں دیکھا ۔جس دفتر میں جائیے ‘ جس ہسپتال میں پہنچیں ایک دھکم پیل ہنگامہ‘ شور شرابا‘ دے مار ساڑھے چار کا منظر ضرور دیکھنے کو ملے گا‘مگر یہاں تو کسی مہذب ملک کا نقشہ تھا ۔کوئی شور ہنگامہ نہیں تھا‘ کہیں قطار ٹوٹنے کی شکایت نہیں تھی۔بڑے بزرگ مرد عورتیں اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔پارکنگ اور اندر ہال میں بھی پینے کے پانی کا انتظام تھا۔ واش روم صاف ستھرے تھے ۔ صفائی ستھرائی کا اعلیٰ انتظام تھا۔ویکسی نیشن کے بعد پانچ منٹ کے لیے رکنا اور ریسٹ کرنا ضروری تھا‘ اس کے لیے بھی خوبصورت انتظام تھا۔ریسٹ روم بھی وافر تعداد میں تھے اور کرسیوں اور بیڈز کا بھی اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا۔البتہ ایک کمی بڑی شدت سے محسوس کی۔ یہ ویکسین بزرگ شہریوں کے لیے تھے‘ ان سب کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ان کو لائن میں کھڑا کرنا بالکل نامناسب ہے ۔ان میں بعض بزرگوں کی عمریں اسی سال کے قریب تھیں۔ اس جانب توجہ کرنا ضروری ہے ۔ سینئر سٹیزنز کے لیے ہر جگہ خصوصی انتظام ہوتے ہیں اور انہیں کہیں بھی لائن میں نہیں لگایا جاتا۔ گرمی میں بھی شدت آ چکی ہے ‘لہٰذا سائبان مارکی وغیرہ کا بندوبست ضروری ہے ۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ واک ان ویکسی نیشن صرف ایکسپو سینٹر تک محدود ہے‘ باقی کسی شہر دیہات میں یہ سہولت میسر نہیں۔یہ سہولت باقی شہروں میں بھی اتنی ہی ضروری ہے ۔ایک اور اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ باقی شہروں میں ساٹھ سے اوپر کے افراد کی رجسٹریشن تو ہو چکی ہے مگر ویکسین کی کمی کی وجہ سے وہ ویکسی نیشن کی سہولت سے محروم ہیں اور معمر افراد اپنے اپنے سینٹر سے مایوس لوٹتے ہیں۔ اس استعداد ِکار میں اضافہ لازم ہے ۔