حضرت سہلؓ بن سعد روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازے کو ''رَیَّان‘‘ کہتے ہیں۔ اس دروازے سے (جنت میں) صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔ (متفق علیہ) مولانا مودودیؒ رَیَّان کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ رَیَّان کا لفظ رِی سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں سیراب کرنا، آبپاشی کرنا۔ رَیَّان سے مراد وہ دروازہ ہے جو سیراب کرنے والا ہے۔
یہ ماہِ مبارک ہم پر بھی سایۂ فگن ہواچاہتا ہے۔ رمضان شریف از اول تا آخر‘ خیر ہی خیر ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے خلاصی کی نوید لے کر آتا ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ ماہِ شعبان ہی میں استقبالِ رمضان کے لیے کمرِ ہمت باندھ لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام دنوں میں بھی نیکی کے کاموں میں مشغول رہتے مگر رمضان المبارک میں بہت زیادہ عبادت الٰہی کا اہتمام فرماتے۔ ہمیں بھی ماہِ شعبان کے آتے ہی اپنے تمام امور و معاملات کو اس نقطۂ نظر سے منضبط کر لینا چاہیے کہ رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی ہمارے لیے مفید اور با برکت ثابت ہو۔
حضرت سلمان فارسیؓ کی ایک طویل روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ ارشاد فرمایا: ''لوگو! تمہارے اوپر ایک بہت مبارک مہینہ سایۂ فگن ہونے والا ہے‘‘۔ اس حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے، یہ صبر اور باہمی محبت کا مہینہ بھی ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو... حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہم میں سے ہر ایک استطاعت نہیں رکھتا کہ کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا سکے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ اجر اس شخص کو (بھی) دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسی سے روزہ کھلوا دے یا ایک کھجور کھلا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے۔ (بیہقی)
روزے کی فرضیت کا حکم ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد مدینہ منورہ میں آنحضورﷺ پر نازل ہوا۔ ارشاد ہے: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرو کاروں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ ان سے تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔ یہ چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں۔ اگرتم میں سے کوئی بیمارہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دے دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے، تو یہ اُسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزے رکھو‘‘۔ (سورۃ البقرۃ، آیت: 183 تا 184)
یہ حکم 2ھ کا ہے۔ اس سے اگلی آیت نمبر 185 میں، جو ایک سال بعد نازل ہوئی، حکم دے دیا گیا کہ روزے میں چھوٹ محض معذور و دائمی مریض لوگوں کے لیے ہے۔ تندرست وتوانا لوگوں کو روزہ ہی رکھنا ہو گا۔ ارشاد ربانی ہے: ''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لاز م ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔ (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 185)
روزہ، دین اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ عربی زبان میں روزے کو صوم کہا جاتا ہے، جس کی جمع صیام ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے مطابق روزے کی فرضیت کی اصلی غایت اہل ایمان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ بلاشبہ روزہ اس کا بہترین ذریعہ ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے مطابق‘ ''تقویٰ کا منبع دل ہے‘‘ اور روزے کی حالت میں واقعتاً دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ شدید بھوک اور پیاس کے باوجود مکمل تنہائی میں بھی کوئی روزہ دار کسی مشروب کا ایک قطرہ یا کسی غذا کا ایک ذرہ بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں جانے دیتا۔ یہی تصور بندے اور رب کے درمیان وہ تعلق قائم کرتا ہے، جسے تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
روزے کو حدیث میں ڈھال بھی قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈھال دشمن کے مقابلے میں اپنے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ نفس امارہ، فسق و فجور سے بھرا ہوا ماحول اور شیطان لعین ہر وقت انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہِ رمضان کے روزے مسلسل تربیت کا موثر کورس ہیں۔ اس تربیت کے اثرات اگر باقی گیارہ مہینوں میں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہو گیا ہے اور روزہ دار سرخرو ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہو تو روزہ محض بھوک پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے روزے سے روزہ دار کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ماہِ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنا دامن خیر و برکت سے بھر لیں۔ ماہِ رمضان کی آمد کے باوجود جن لوگوں کو نیکی کی جانب قدم بڑھانے کی توفیق نہیں ملتی، ان کی بدنصیبی اس سے عیاں ہے کہ جبریل امین نے ان کے حق میں تباہی و بربادی کی دعا فرمائی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر آمین کہا۔ اس مہینے کے فضائل بے شمار ہیں۔ حدیث میں فرمایا گیا کہ اس مہینے میں نفل عبادات کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ رمضان کو صبر کا مہینہ قرار دیا گیا ہے اور صبر کا بدلہ جنت بتایا گیا ہے۔ روزہ محض معدے کا نہیں ہوتا بلکہ پورے اعضا وجوارح، آنکھ، کان، ناک، زبان، ہاتھ، پائوں، دل و دماغ، فکر وسوچ، غرض ہرچیز کو محیط ہوتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ جھوٹی باتیں اور غلط کام ترک نہیں کرتے اللہ کو ان کی بھوک پیاس کی کوئی حاجت نہیں۔
ماہِ رمضان ہر سال آتا ہے اور ایک پیغام دے کر چلا جاتا ہے۔ ماہِ رمضان کے دوران جہاد اور مجاہدین سے مکمل وابستگی، ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ جس سال روزے فرض ہوئے، اس سال ماہِ رمضان ہی میں کفر و اسلام کا پہلا معرکہ بدر کے میدان میں برپا ہوا، جسے قرآن نے یوم الفرقان کہا ہے۔
تاریخ اسلام جہاد اور شہادت سے مزّین ہے۔ پہلی شہادت تو مکہ میں ایک صحابیہ سیّدہ سمیّہؓ کے حصے میں آئی۔ پھر اس فہرست میں ایک ہی روز یعنی یوم بدر (17 رمضان المبارک2ھ) کو چودہ عظیم المرتبت شہدا کا اضافہ ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جہاد جاری ہے اور قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ جہاد کے خلاف آج داخلی و خارجی ہر محاذ پر انتہائی گھناؤنی سازشوں کا جال بچھا دیا گیا ہے مگر ہمیں بطور مسلمان اللہ اور اس کے رسول کا یہ حکم ہے کہ ہم ان سازشوں کا مقابلہ کریں اور جہاد میں حصہ لیں۔ جو شخص خود عملاً جہاد میں شریک نہ ہو سکے وہ کسی مجاہد کو زادِ جہاد فراہم کر دے یا اس کے پیچھے اس کے اہلِ وعیال کی خبر گیری میں لگ جائے یا شہدا کے خاندانوں کا کفیل بن جائے تو وہ بھی عملاً جہاد میں شریک شمار ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا اجر حدیث پاک میں مجاہدین کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع میں جانیں قربان کرنے والے امت کے محسن ہیں۔ شہدا اور ان کے پسماندگان کا اسلام میں بڑا مقام ہے۔ شہید پوری امت کا محسن ہوتا ہے۔ حضور پاکﷺ کا اسوۂ حسنہ یہ تھا کہ شہدا کے خاندانوں سے خصوصی محبت و تعلق قائم رکھتے تھے۔
ماہِ رمضان میں ہر نیک کام اور انفاق فی سبیل اللہ کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس مہینے میں نیکی اور انفاق میں سبقت کرنی چاہیے۔ مقدار جتنی بھی ہو، اخلاص کے ساتھ پیش کی جائے تو اللہ کے ہاں بڑے درجات حاصل ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس رمضان میں اور آیندہ ہمیشہ کے لیے حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کو اپنا وتیرہ بنا لیں۔
ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ چاند نظر آئے تو رات کو قیام یعنی تراویح اور اگلے روز صیام یعنی روزے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہرماہ نیا چاند نظر آنے پر جو دعا ہمیں سکھائی گئی ہے، جامع ترمذی کے مطابق اس کے الفاظ یوں ہیں ''اَللّٰہُ اَکْبَرْ اللّٰھُمَّ اَھِلَّہ‘ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَاْلِایْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضیٰ۔ رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہ‘‘۔ (اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ اس چاند کو ہمارے لیے ہلالِ امن و ایمان، سلامتی اور اسلام بنا کر طلوع فرما، ہمیں ان کاموں کی توفیق دے، جو تجھے پسند اور محبوب ہیں۔ اے چاند! ہمارا اور تیرا پروردگار اللہ ہے)۔