اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ کورونا وائرس ایک خطرناک عالمی وبا ہے، یہ ایک مستند حقیقت ہے لیکن اس کی آڑ میں نونہالوں اور شاہینوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دینا اور تعلیم کو آخری ترجیح بنا لینا کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کورونا کی پہلی، دوسری اور پھر تیسری لہر کے دوران‘ ہمارے اربابِ اختیار نے ملک و قوم کو بچانے کے لیے اور تو کچھ کیا یا نہیں لیکن سب سے پہلے تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان ضرور بند کر دیے۔ اس وقت جبکہ تیسری لہر شدید ترین ہے اور کورونا کے کاری وار جاری ہیں‘ ملک بھر میں بازار کھلے ہیں، کارخانے چل رہے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں وہی دھکم پیل جاری ہے اور ایس او پیز پر عمل درآمد صرف کاغذوں اور بیانات کی حد تک ہی محدود ہے۔ ٹرانسپورٹ اڈوں پر جائیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پورا شہر یہیں امڈ آیا ہو، بڑے شہروں کے چند پوش علاقوں کے سوا ملک بھر کے ریسٹورنٹس میں آج بھی اتنا ہی رش ہے۔ کریانہ شاپس اور بیکریوں سمیت نوے فیصد دکانوں میں فیس ماسک اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، بلڈنگ اورکنسٹرکشن کے کاموں میں کوئی رکاوٹ نہیں، تعلیمی ادارے بند کرنے کے باوجود گلی، محلوں میں اور چوراہوں پر پہلے سے زیادہ رش ہے اور کسی بھی سڑک پر ٹریفک میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، ان سب حالات میں کورونا کی وجہ سے اگر کچھ متاثر ہو رہا ہے تو وہ محض شعبۂ تعلیم ہے۔ گزشتہ برس بھی کورونا کے باعث میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات نہیں ہو سکے تھے، لاکھوں طلبہ وطالبات سال بھر سے معیاری تعلیم سے محروم ہیں، آن لائن کلاسز کا تجربہ ملک میں پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے، اور اگر خدانخواستہ اب مزید کچھ عرصہ تعلیمی ادارے بند رکھے گئے تو لاکھوں ذہین طلبہ وطالبات اپنی محنت اور ذہانت کے مطابق نتیجہ حاصل نہیں کر سکیں گے اور میڈیکل و انجینئرنگ سمیت متعلقہ شعبوں میں داخلوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ قوم کے ان نونہالوں کا مستقبل تاریک بھی ہو سکتا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو کوئی غرض نہیں۔
اگر حکومتی اقدامات اور بیانات کاحقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اربابِ اختیار نوجوان نسل پر تعلیم اور کھیل کے دروازے مکمل طور پر بند کر دینا چاہتے ہیں، کسی کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ تعلیمی ادارے بند کرنے کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں۔ یہ بات اب ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نصابی، ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر قدغنوں سے منفی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہیں، سٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہو جاتا ہے، تشدد اور ہراساں کرنے کے واقعات عام ہو جاتے ہیں، بچے پتنگ بازی جیسے خونیں کھیل میں مشغول ہو جاتے ہیں، جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے حتیٰ کہ نفسیاتی امراض اور خودکشی کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
این سی او سی کے نئے اعلامیے کے مطابق ملک بھر میں بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر 10 اپریل سے 25 اپریل تک ہفتہ اور اتوار کیلئے پابندی ہو گی؛ تاہم مال بردار، میڈیکل اور ایمرجنسی سروسز کو پابندی سے استثنا ہو گا۔ این سی او سی کے فیصلے کے مطابق‘ ٹرینیں 70 فیصد مسافروں کے ساتھ فعال رہیں گی اور اس فیصلے پر 20 اپریل کو نظرثانی کی جائے گی۔ یہاں قابلِ غور امر یہ ہے کہ اگر پبلک ٹرانسپورٹ ہفتے میں پانچ دن تک چلائی جا سکتی ہے تو پھر ہفتے میں پانچ دن تعلیمی ادارے کیوں نہیں کھولے جا سکتے؟ اگر ٹرینیں ستر فیصد مسافروں کے ساتھ چل سکتی ہیں‘ جس کا حساب رکھنا اتنا آسان نہیں کیونکہ اکانومی کلاس میں تو سیٹوں کی بکنگ بھی نہیں ہوتی‘ تو پھر سکول یا کالج میں پچاس فیصد بچوں کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رکھنا‘ جو نسبتاً زیادہ آسان ہے‘ کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ تعلیمی اداروں میں آدھی کلاسز ایک دن آ سکتی ہیں اور بقیہ کلاسز دوسرے دن، اگر ایک بچے کو ہفتے میں تین یا چار دن بھی فزیکل کلاس کا موقع ملے تو وہ چھ دن کی آن لائن کلاس سے کئی گنا بہتر ہے۔ دوسری جانب محکمۂ تعلیم سندھ نے صوبے میں 8ویں جماعت تک نجی و سرکاری سکولوں کو 15 دن کیلئے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ منگل 6 اپریل سے بدھ 21 اپریل تک 15 روز کیلئے صوبے بھر کے سکولوں میں آٹھویں تک کلاسز معطل رہیں گی؛ تاہم بچوں کی تعلیم کو آن لائن، ہوم ورک اور دیگر ذرائع سے جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے، اس سے تعلیمی اداروں کے کھلنے کی باقی امیدیں بھی کمزور پڑ گئی ہیں کیونکہ ماضی کے تجربات ومشاہدات بتاتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو تعلیمی ادارے بند کرنے کے لیے صوبوں کی رضامندی بھی درکار ہوتی ہے۔
شواہد یہ بتاتے ہیں کہ جب تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان کھولے گئے تھے تو جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی اور نوجوان نسل دوبارہ مثبت سرگرمیوں میں مشغول ہو گئی تھی لیکن خدا جانے کس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ کورونا وائرس پھیلائو کے سب سے بڑے مراکز بازار کھلے رکھیں مگر تعلیمی ادارے بند کر دیں۔ اب تو یہ حالت ہے کہ جب بھی یہ بیان سامنے آتا ہے کہ فلاں دن تعلیمی ادارے کھولنے یا بند رکھنے کا فیصلہ کریں گے تو اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ حکومت تعلیمی ادارے بند ہی کرے گی جبکہ محض چند فیصد لوگوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ شاید کسی کو نوجوان نسل کے مستقبل کاخیال آ جائے اور تعلیم و کھیل کے شعبے کھول دیے جائیں۔
ان سارے حالات وواقعات کے باوجود دو روز قبل ایک خبر نظر سے گزری جس سے دل باغ باغ ہوگیا کہ اس ملک میں کوئی تو ایسا ہے جسے بچوں کے مستقبل کا خیال ہے۔ خبر تھی ''محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت بلوچستان صوبے میں تعلیمی ادارے بند نہ کرنے پر متفق ہو گئے۔ صوبائی وزیر تعلیم اور پارلیمانی سیکرٹری صحت بلوچستان نے کورونا وائرس کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا۔ پارلیمانی سیکرٹری صحت بلوچستان کا کہنا ہے کہ این سی او سی کی گائیڈ لائن کے مطابق بلوچستان میں کورونا وائرس کا تناسب غیر معمولی سنگین نہیں ہے۔ چیف سیکرٹری آفس تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا رہے گا۔ کورونا وائرس کی صورتِ حال کے مطابق حکمت عملی کی تشکیل کے لئے محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم ایک پیج پر ہیں۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی سربراہی میں صوبائی حکومت کورونا وائرس حکمت عملی کے تحت معمولاتِ زندگی کی بحالی کیلئے کوشاں ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت کی مشاورت سے تعلیمی اداروں میں ایس او پیز کے تحت تعلیمی سلسلہ جاری رکھا جائے گا‘‘۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان تعلیم اورصحت کی سہولتوں کے حوالے سے پہلے ہی بہت پسماندہ ہے اور کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے اسے مزید نقصان پہنچایا ہے، ان حالات میں بلوچستان حکومت کا تعلیم دوست فیصلہ انتہائی قابلِ ستائش ہے، اس پر دل سے ''بلوچستان حکومت زندہ باد‘‘ کا نعرہ نکلتا ہے، دیگر صوبوں کو بھی اس فیصلے کی تقلید کرنی چاہئے۔
وزیراعظم صاحب کا کہناہے کہ ہم لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے، کیونکہ اس سے ہماری کمزور معیشت مزید تباہی کا شکار ہوگی، کاش وہ تعلیمی اداروں کی بندش کے مضمرات کا بھی جائزہ لیں۔ اگر تعلیمی ادارے اسی طرح بند رہے تو پھر نوجوان نسل کا جو نقصان ہو گا‘ زندگی بھر اس کا ازالہ نہیں کیا جا سکے گا۔ آج کے نوجوانوں نے ہی کل ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اگر ان کی تعلیمی بنیاد کمزور ہو گی تو پھر ملک کا مستقبل بھی کمزور ہاتھوں میں چلا جائے گا لہٰذا حکومت کو تعلیم کے حوالے سے اپنی پالیسیاں فوری طور پر بہتر کرنی چاہئیں اور جس طرح بازار کھلے رکھنے کا کٹھن فیصلہ کیا گیا ہے‘ اسی طرح تعلیمی نظام کی فوری بحالی پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔